حزب اختلاف بڑے اتحاد کیلئے کوشاں

تحریک تحفظ آئین پاکستان حزب اختلاف کا بڑا اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں محمود خان اچکزئی کی قیادت میں سلمان اکرم راجا ، اسد قیصر اور دیگر نے سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس کے سربراہ پیر صاحب پگارا سمیت متعدد رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
پیر پگارا نے وفد کا شکریہ ادا کیا اور بولے کہ ان کی خواہش ہے کہ سب مل کر ملک اور آئین کو مضبوط کریں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اور وفاق میں مسائل پر ہماری اور تحریک تحفظ آئین پاکستان میں ذہنی ہم آہنگی ہے۔ فہمیدہ مرزا نے کہا کہ دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر ڈریکونین اقدام ہے۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل جماعتوں نے دریائے سندھ پر چھ نئی نہریں بنانے کے خلاف جی ڈی اے کے مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ اس اقدام کے خلاف آواز بلند کریں گے۔انہوں نے جی ڈی اے کو اسلام آباد میں گرینڈ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔وفد نے قادر مگسی اور ایاز لطیف پلیجو سے بھی الگ الگ ملاقات کی۔ میڈیا سے گفتگو میں سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پانی سے بڑا کوئی حق نہیں، سندھ سے یہ حق بھی چھینا جارہا ہے۔اسد قیصر بولے کہ دریائے سندھ کے پانی کا رخ موڑ کر سندھ کو حقوق سے محروم کیا جارہاہے، پیپلز پارٹی نہ چاہے تو یہ حکومت دو دن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ اسد قیصر نے یہ بھی کہا کہ موجودہ پیپلز پارٹی بھٹو کی پارٹی نہیں رہی، آصف زرداری کی پارٹی بن چکی ہے۔ قادر مگسی نے کہا کہ پانی سے متعلق ہمارا مؤقف مشترک ہے۔ ایاز پلیجو نے کہا کہ ماضی میں بھی (ن) لیگ نے سندھ کے لوگوں کو نظرانداز کیا ، اب بھی کررہی ہے۔
مسلم لیگ( ن) بھی جوابی اقدامات کر رہی ہے۔ اگلے روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مشترکہ نیوز کانفرنس کی۔ مراد علی شاہ کا مؤقف تھا کہ دریائے سندھ پر نہروں کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان افراد کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہے اپنے مفادات کا حصول۔انہوں نے کہا کہ چولستان کنال سے متعلق سندھ کا مؤقف بالکل واضح ہے، اس سسٹم میں پانی موجود نہیں تو نہر کیسے بن سکتی ہے؟ انہوں نے آئین کے تحت برابری کی سطح پر وسائل کی تقسیم کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ احسن اقبال نے ملک میں ترقی کی کنجی سیاسی استحکام کو قرار دیا۔ ان کے خیال میں ملک کو کسی سیاسی لانگ مارچ کی ضرورت نہیں، اس وقت کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ اقتصادی لانگ مارچ ہے۔ انہوں حیدرآباد سکھر موٹر وے پر اسی سال کام شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی کراچی حیدرآباد موٹر وے کی نئی الائنمنٹ پر بھی بات کی۔ پانی کے مسئلے پر سیاسی بیان بازی کے ساتھ کچھ ہاتھا پائی بھی نظر آرہی ہے۔ کراچی میں جسقم نے ریلی نکالی اور شارع فیصل سے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ پولیس نے مداخلت کی تو شرکا مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے کئی موبائلوں کو توڑ پھوڑ دیا، جھڑپ میں کئی پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ ایس ایس پی ساؤتھ ماہزور علی کے مطابق ریلی کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی، انہیں صرف اتنا کہا تھا کہ ریڈ زون میں جانا قانون کی خلاف ورزی ہے جس پر مظاہرین نے پولیس سے ہاتھا پائی کی اور ڈنڈے برسانے شروع کردیے۔ بہرحال بعد میں ریلی کو متبادل راستے سے کراچی پریس کلب کی طرف روانہ کیا گیا۔
ادھرسندھ حکومت گاڑیوں کی آمد و رفت کو سسٹم میں لانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے اور موٹر وہیکل انسپیکشن سینٹرز کو ہفتے بھر میں فعال کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس ہوا جس میں انہوں نے محکمہ ٹرانسپورٹ کو ہدایت کی کہ ایک ہفتے میں سینٹرز فعال ہوجانے چاہئیں۔ سکھر کے راستے صوبے میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں کا معائنہ بھی ضرورر قرار دیا جائے گا۔ کراچی میں بھی چار سینٹرز بنائے جائیں گے جبکہ شہید بے نظیر آباد، حیدرآباد، میرپورخاص اور سکھر میں ایک ایک سینٹر قائم ہوگا۔ مقصد غیر معیاری گاڑیوں کے خلاف یکساں کارروائی اور صوبے میں ٹریفک نظام کی بہتری ہے۔ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ معائنے کے عمل میں شفافیت یقینی بنائی جائے گی۔ کام اچھا ہے لیکن کیا شفافیت یقینی بنائی جاسکے گی؟کراچی کی کسی بھی سڑک پر پانچ دس منٹ کے لیے کھڑے ہوجائیں ایسی لاتعداد گاڑیاں آپ کو دوڑتی بھاگتی نظر آئیں گی جنہیں کوئی اندھا بھی فٹنس سرٹیفکیٹ نہ دے۔ گاڑی چلتی ہے تو دھویں کے بادل بلند ہوتے ہیں۔باڈی کا بدترین حال ہے، ٹائروں کی بری حالت ہے، نہ بیک لائٹس ہوتی ہیں اور نہ فرنٹ۔ سامنے بتی جلانے کے لیے ہنگامی حالات والی بتیاں لگا دی جاتی ہیں۔ اس پر شفافیت کی بات چہ معنی دارد۔
ایک خبر جرم کی دنیا سے بھی جان لیں کہ مصطفی عامر قتل کیس میں کئی نئے کرداروں کی شمولیت ہوگئی ہے۔آج کل ایک غیراخلاقی ویڈیو وائرل ہے اورکراچی میں ویڈ فروشی کے تین مرکزی کرداروں میں سے ایک مصطفی عامر کو قرار دیا جارہا ہے۔ یہ انکشاف معروف اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر نے کیا جو خود بھی منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ منشیات فروشی کے عالمی نیٹ ورک کی بھی باتیں سامنے آئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس نے ارمغان کے دوست ہونے کا بھی اعتراف کرلیا تاہم قتل سے کسی بھی طرح کا تعلق نہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بظاہر سادہ سا لگنے والا کیس پیچ در پیچ ہوتا جارہا ہے۔ دیکھتے ہیں اور کتنے پردہ نشین سامنے آتے ہیں!