خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

تحریر : ماریہ احمد


خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

 نوجوان خواتین کے لیے یہ صلاحیت خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ تعلیمی، پیشہ ورانہ اور سماجی زندگی میں بھر پور خود اعتمادی ان کے راستے کھول سکتی ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں روایات، خاندانی توقعات اور صنفی امتیاز خواتین کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے، خود اعتمادی پیدا کرنا ایک چیلنج بھی ہے اور ضرورت بھی۔ خود اعتمادی کا مطلب صرف خود پر یقین رکھنا نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں، کامیابیوں، حتیٰ کہ اپنی کمزوریوں کو قبول کرنا بھی ہے۔ ایک بااعتماد خاتون اپنے خیالات کا بلا خوف اظہار کر سکتی ہے، اپنے حق کے لیے آواز بلند کر سکتی ہے اور ناکامی سے سیکھنے کو  ایک عمل کے طور پر دیکھتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری معاشرت میں اکثر لڑکیوں کو بچپن سے ’’خاموش‘‘، ’’فرمانبردار‘‘ اور اپنے جذبات کو دبانے کی تربیت دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔

خود اعتمادی کی کمی کی متعدد وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے خاندانی دباؤ ایک بڑا عنصر ہے۔ دوسرا عنصر تعلیم اور پیشہ ورانہ مواقع میں عدم مساوات ہے۔ بعض گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم یا کیریئر کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے جبکہ لڑکوں کے لیے مواقع کی بھرمار ہوتی ہے۔ تیسرا اور عام عنصر جسمانی شکل و صورت اور لباس پر تنقید ہے۔ نوجوان لڑکیاں اکثر اپنی رنگت، قد یا وزن کے حوالے سے تنقید کی زد میں آتی ہیں جو اُن کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ’’Perfect life‘‘کے غیر حقیقی معیار بھی احساسِ کمتری پیدا کرتے ہیں۔تاہم نوجوان خواتین عملی اور ذہنی سطح پر اپنی خود اعتمادی بڑھا سکتی ہیں، سب سے پہلا قدم خود کو پہچاننا اور قبول کرنا ہے۔ اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرنا اور چھوٹی کامیابیوں کو یاد رکھنا  اعتماد پیدا کرنے کا پہلا ذریعہ ہے۔ اگر کوئی طالبہ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے تو وہ اپنی اس کامیابی کو نظر انداز کرنے کے بجائے اسے اپنی طاقت کے طور پر دیکھے۔تعلیم اور علم خود اعتمادی کی مضبوط بنیاد ہیں۔ کتابیں پڑھنا، نئی زبانیں سیکھنا، کمپیوٹر یا گرافک ڈیزائن جیسی مہارتیں حاصل کرنا نہ صرف علم میں اضافہ کرتا ہے بلکہ فیصلے کرنے کی صلاحیت اور اپنی بات مؤثر انداز میں رکھنے کی ہمت بھی دیتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ خاتون اپنے خیالات کو زیادہ واضح اور پراثر انداز میں بیان کر سکتی ہے، جو اس کے خود اعتمادی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کرنا اور دوسروں سے اپنی بات کہنے کی ہمت پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اکثر لڑکیاں چھوٹی عمر سے اپنی رائے دبانے کی عادت ڈال لیتی ہیں، لیکن چھوٹے معاملات سے آغاز کر کے اپنی بات کرنا سیکھا جا سکتا ہے۔ نرم مگر واضح انداز میں اختلاف رائے کرنا اور یہ سمجھنا کہ ہر فرد کی رائے اہم ہے نوجوان خواتین کے اعتماد کو مضبوط بناتا ہے۔ایک  اور اہم پہلو دوسروں سے موازنہ نہ کرنا ہے۔ ہر خاتون کا سفر الگ ہوتا ہے اور کسی اور کی کامیابی کو اپنی ناکامی نہیں سمجھنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر نظر آنے والی زندگی اکثر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی اس لیے اپنی ترقی کا معیار صرف کل کے اپنے آپ سے لگائیں۔

جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا بھی خود اعتمادی میں اضافہ کرتا ہے۔ باقاعدہ ورزش، مناسب نیند اور متوازن غذا نہ  صرف جسمانی توانائی بڑھاتی ہیں بلکہ ذہنی سکون اور حوصلہ افزائی بھی فراہم کرتی ہیں۔ ایک صحت مند جسم مضبوط ذہن بناتا ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مثبت لوگوں کا ساتھ اختیار کرنا بھی اہم ہے۔ ایسے لوگوں سے دور رہیں جو تنقید اور مایوسی پھیلاتے ہیں اور اپنے قریب ایسے افراد رکھیں جو حوصلہ افزائی کریں اور آپ کے خوابوں پر یقین رکھیں۔ صحیح صحبت نہ صرف اعتماد بڑھاتی ہے بلکہ مشکل حالات میں رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔ناکامی سے ڈرنا چھوڑنا بھی  ضروری ہے۔ ناکامی زندگی کا حصہ ہے اور ہر کامیاب خاتون کو اس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہر ناکامی ایک سبق ہے اور جو  عورت اپنی ناکامی سے سیکھ کر دوبارہ کوشش کرتی ہے و ہی حقیقی خود اعتمادی حاصل کرتی ہے۔

مالی خودمختاری بھی نوجوان خواتین کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتی ہے۔ اگر خواتین اپنی کمائی کا ذاتی اختیار رکھیں چاہے وہ پارٹ ٹائم کام،فری لانسنگ یا چھوٹے کاروبار کے ذریعے ہو تو یہ ان کی خودمختاری اور اعتماد کو کئی گنا بڑھاتا ہے۔والدین اور معاشرے کا کردار بھی اس معاملے میں اہم ہے۔ والدین کو اپنی بیٹیوں کی رائے سننی چاہیے، اساتذہ کو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور معاشرے کو خواتین کی کامیابی کو قبول کرنا چاہیے۔ ایک بااعتماد خاتون نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتی ہے  بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

یاد رکھیں کہ خود اعتمادی کوئی پیدائشی خصوصیت نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خواتین اگر اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں، سیکھنے کے عمل کو جاری رکھیں، اپنی آواز کو اہمیت دیں اور اپنی کامیابی پر یقین رکھیں تو نہ صرف وہ اپنی زندگی بدل سکتی ہیں بلکہ معاشرت میں ایک روشن مثال بھی قائم کر سکتی ہیں۔یاد رکھیں، آپ کمزور نہیں ہیں بس اپنی اہمیت کو پہچاننے اور اس پر یقین کرنے کی ضرورت ہے۔ خود اعتمادی آپ کی منزل کی چابی ہے اور یہ چابی آپ کے ہاتھ میں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔