مطیع اعظم (پہلی قسط )
حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔
ان دنوں مسلمان حکومت کی طرف سے کسی بااثر اور مقبول شخصیت کو امیر حج بنا کر بھیجا جاتا تھا اور خلیفہ وقت نے اس حج کے موقع پر حجاج بن یوسف کو امیر بنا کر بھیجا تھا۔ حجاج بن یوسف ثقفی وہ شخص تھا جس نے بے انتہا خون ریزی کرکے لوگوں کے دلوں میں اموی خلافت کا رعب و دبدبہ قائم کیا تھا۔ اس کے ظلم و ستم کی ہیبت کی وجہ سے لوگ اطاعت پر مجبور تھے لیکن ان کے دل نفرت سے بھرے ہوئے تھے۔
امیر حج کے طور پر حجاج فخر و غرور کی علامت بنا، بیت اللہ میں موجود تھا لیکن حیرت کی بات تھی کہ اپنے چند ساتھیوں کے علاوہ اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔حجاج جانتا تھا کہ لوگ اسے پسند نہیں کرتے پھر بھی اس کی دلی خواہش تھی کہ اس کے گرد لوگ اکٹھے ہوں، اس کی بات سنیں لیکن ایسا ہو نہیں رہا تھا۔ اسی کیفیت میں حجاج کی نظر ایک سمت میں پڑی۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو اس طرف ٹوٹا پڑ رہا تھا۔ حجاج کو تعجب ہوا۔ وہاں ایسی کیا چیز تھی جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔
اس نے حیرت سے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: ’’اس کونے میں کیا ہے؟ لوگ کیوں دیوانوں کی طرح اُدھر لپک رہے ہیں؟‘‘ حجاج کی حیرانی بھانپ کر اس کے ایک ساتھی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ جانتا تھا کہ اصل سبب کیا ہے۔ اس نے اپنی مسکراہٹ چھپا کر کہا: ’’یہ ایک دینی حلقہ ہے، لوگ غالباً کسی دینی شخصیت کے گرد جمع ہیں‘‘۔
’’دینی شخصیت! ایسی کون سی ہستی ہے جس پر لوگ پروانوں کی طرح ٹوٹ کر گر رہے ہیں؟‘‘ حجاج کی کیفیت ابھی تک وہی تھی۔حجاج کا وہ ساتھی، دلی طور پر اس ہستی کا ہمدرد تھا اور چاہتا تھا کہ وہ حجاج کے شر سے محفوظ رہیں۔ اس لئے وہ اس ہجوم کی اہمیت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے ایک دوسرے شرپسند ساتھی نے جلدی سے کہا: ’’ امیر محترم، یہاں عالم اسلام کی ایک بڑی نامور ہستی موجود ہیں، اس لئے لوگ آپ کو نظر انداز کرکے ان کے گرد اکٹھے ہو رہے ہیں، حالانکہ امیر حج آپ ہیں‘‘۔
حجاج اتنا بیوقوف نہیں تھا کہ اپنے ساتھی کی باتوں میں آ جاتا، لیکن اس کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ حسد بھرے لہجے میں بولا: ’کون ہیں یہ صاحب! انہیں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں؟‘‘
یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ حجاج کے اسی ساتھی نے کہا جو دل سے عبداللہ بن عمر ؓ کا عقیدت مند تھا۔آپ ؓ علم و فضل کے لحاظ سے ایک بلند پایہ صحابیؓ، سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرنے والے، نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ زندگی کے بعد بھی تھے‘‘۔
حجاج نے اپنے ساتھی کو ترچھی نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا: ’’ اور کیا جانتے ہو تم ان کے بارے میں؟‘‘۔ حجاج کا وہ ساتھی بولا : ’’ ابن عمر ،ؓ نبی کریم ﷺ سے بہت محبت رکھتے ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں لوگوںکی نظروں میں مقبول اور محبوب بنا دیا ہے‘‘۔
’’ ہوں! تو یہ لوگوں میں بے انتہا مقبول ہیں‘‘۔ حجاج نے تلملا کر کہا۔ حسد کے شعلے مکمل طور پر اس کے دل کو اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔ جو منظر اس کی نگاہوں کے سامنے تھا، اس نے خود اسے اپنی نظروں میں کم تر بنا دیا تھا۔ وہ حکومت کا نمائندہ تھا۔ امیر حج تھا، لیکن کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں تھا جبکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گرد لوگ جمع تھے۔ اس نے اپنے ایک ساتھی کو قریب بلایا اور اس کے کان میں سرگوشی کی: ’’سنو! اس آدمی کو دیکھ رہے ہو‘‘؟،
’’ کون سا آدمی امیر محترم‘‘؟ اس کا ساتھی مؤدب لہجے میں بولا۔’’ عبداللہ بن عمرؓ جس کے گرد لوگوں کا ہجوم ہے‘‘ حجاج نے ہجوم کی طرف اشارہ کیا۔’’ جی امیر محترم، وہ واقعی ابن عمرؓ ہیں‘‘۔ ’’مجھے اس کی مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھا رہی، اس آدمی کی وجہ سے کوئی میرے قریب نہیں آ رہا، تم چپکے سے اسے زہر آلود نیزہ مار دو‘‘۔
حجاج کے ساتھی نے حیرت اور بے یقینی سے اسے دیکھا۔’’ہاں، میں چاہتا ہوں کہ تم اسے زندگی کے بوجھ سے آزاد کر دو‘‘۔ حجاج نے اس کی کیفیت کو محسوس کرکے دوبارہ کہا۔ ’’ٹھیک ہے امیر محترم‘‘! اس کے ساتھی نے احترام سے سرجھکا دیا۔
لوگ میدان عرفات سے واپس آ رہے تھے۔ عبداللہ بن عمرؓبھی لوگوں کے ہجوم میں چلے آ رہے تھے۔ حجاج کا وہ ساتھی ان کے قریب ہونے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا، لیکن ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ مسلسل کوشش اور جدوجہد سے بالآخر وہ ان کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ قریب آتے ہی اس نے زہر میں بجھے نیزے کو ان کے برہنہ پائوں پر پھیر دیا۔ یہ زہر اتنا طاقتور تھا کہ جسم کے قریب آتے ہی اثر کر جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ شدید بیمار ہو گئے۔ حجاج اپنے ساتھی کی کامیابی پر بہت خوش ہوا۔ اسے یقین تھا کہ عبداللہ بن عمرؓ اب نہیں بچیں گے۔ (جاری ہے)