استاد دامن : استحصالی نظام کیخلاف پنجابی کی توانا آواز
باپ کی خواہش تھی کہ بیٹا درزی بنے لیکن بڑا بھائی چاہتا تھا کہ پڑھ لکھ کر ’’ بابو‘‘ بن جائے
استاد دامن 1911ء میں لاہور کے علاقے چوک متی اندرون لوہاری گیٹ پیدا ہوئے۔ والدکا نام میراں بخش تھاجنہوں نے بیٹے کا نام چراغ دین رکھا۔ چراغ دین کے باپ اور دادا درزی کے پیشے سے منسلک تھے۔ ان کی گزر بسر تنگ دستی میں ہو رہی تھی۔ چراغ دین کا بڑا بھائی فیروز دین ریلوے کے محکمہ میں لوکو شیڈ ورکشاپ کے درزی خانے میں ملازم تھا۔ یہی قلیل تنخواہ اس گھر کا معاشی وسیلہ تھی۔
باپ کی خواہش تھی کہ بیٹا جلد کام سیکھ کر درزی بنے اور گھر میں آمدنی کا ایک اور ذریعہ پیدا ہو لیکن بڑا بھائی چاہتا تھا کہ چراغ دین پڑھ لکھ کر صاحب نہیں تو کم از کم بابو بن جائے۔ چراغ دین پڑھائی کیلئے سکول کے ساتھ ساتھ درزی کا کام سیکھنے کیلئے باپ کی دکان پر بھی باقاعدہ بیٹھتا تھا۔ انہوں نے دیو سماج ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ آگے پڑھائی جاری رکھنا چاہتے تھے کہ بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا اس لئے تعلیم کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔چراغ دین بچپن میں بگڑو بہت اچھا گاتا تھا۔ بگڑو کے ان گیتوں میں وہ اپنی طرف سے بھی کئی شعر جوڑ لیتا تھا۔ بھائی کی موت کے بعد استاد دامن نے لاہور میونسپل کمیٹی میں ملازمت کی کوشش کی ۔سرکاری نوکری میں ناکامی کے بعد انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر جرمن کمپنی ’’ جان ولیم ٹیلرز‘‘ سے کٹائی اور سلائی کا ڈپلومہ کیا اور باغبانپورہ میں اپنی دکان کھول لی۔ یہ درزی خانہ استاد دامن کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تھا، البتہ روحانی خوشی انہیں شعرو شاعری سے حاصل ہوتی تھی۔ اس طرح یہ درزی خانہ شعرو شاعری کا ذوق رکھنے والوں کیلئے ایک درس گاہ تھی۔استاد دامن کے استاد کا تخلص ہمدم تھا، اس لئے انہوں نے پہلے ہمدم تخلص کی مگربعد میں وہ اپنے نام کے ساتھ دامن لکھنے لگے ، چراغ دین دامنؔ۔
باغبانپورہ میں ان کی دکان پر ایک کانگرسی لیڈر شیروانی سلوانے کیلئے آیا جب اُسے پتہ چلا کہ یہ گول مٹول سرخ و سفید نوجوان شعر بھی کہتا ہے اور دامن تخلص کرتا ہے تو شعر سننے کی فرمائش کر دی۔ کلام سے متاثر ہو کر انہوں نے چراغ دین دامن کو کانگرس کے جلسے میں دعوت دی۔اس طرح چراغ دین دامن پہلی بار لاہور میں کانگرس کے جلسے کے سٹیج پر نمودار ہوئے۔ دامن کے خوبصورت اشعار اور پڑھنے کے دلفریب انداز نے سامعین پر ہی نہیں مقررین پر بھی سحر طاری کر دیا۔جلسے کے اختتام پر انتظامیہ نے انہیں ایک سو روپیہ دیا اور آئندہ پنجاب میں کہیں بھی ہونے والے جلسے میں اس نوجوان شاعر کی شمولیت ضروری ہو گئی۔یوں دامن کی قسمت کا ستارا چمک اٹھا۔ عزت دولت اور شہرت نے اس کا دامن تھام لیا۔ دیکھتے دیکھتے وہ سیاسی جلسوں کی ہی نہیں عوامی مشاعروں کی بھی جان بن گئے۔ خوش لباس اور خوش خوراکی ان کیلئے ممکن بن گئی۔ درزی خانہ کی جگہ ہمدم کا ڈیرا بن گیا۔کئی لوگ صرف نام اور شہرت کی خاطر دامن کی شاگردی اختیار کرنے کیلئے آنے لگے لیکن دامن نے صرف ان کو شاگرد بنایا جن کی روح میں شاعری کا رچائو تھا۔
1938ء سے 1946ء تک کا دور استاد دامن کی شاعری اور شہرت کا سنہری دور تھا۔ اس دوران ہندوستان میں آزادی کی تحریک کو تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مل کر آگے بڑھایا۔ تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات میں انتہا پسند وں نے استاد دامن کی باغبانپورہ والی دکان کو بھی جلا ڈالا ۔ استاد دامن اس صورتحال سے بڑے رنجیدہ اور افسردہ تھے۔ یونس ادیب لکھتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں میں سے بعض کی استاد دامن کے ساتھ گہری جان پہچان تھی اور وہ استاد کی ایک راست باز درویش صفت دانشور کی حیثیت سے بڑی قدر کرتے تھے لیکن استاد کو جبہ و دستار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میری موجودگی میں ایک دو بار حسین شہید سہروردی سے استاد کی جو گفتگو ہوئی اس میں استاد نے سہروردی پر زور دیا تھا کہ پاکستان کے باوقار مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان میں علاقائی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔
پنجابی زبان سے استاد کا عشق کسی قسم کی شائونزم کا شکار نہ تھا۔ وہ پاکستان کی دوسری زبانوں کا ہی نہیں دنیا بھر کی زبانوں کا احترام کرتے تھے اور ان میں موجود علم کے خزانوں کو تمام انسانوں کا ورثہ سمجھتے تھے۔ وہ پنجابی ثقافت کے روحانی انہدام کو روکنے کی زبردست تڑپ رکھتے تھے اور استحصالی نظام کے کل پرزے کی حیثیت سے کام کرنے والے ادب اور آرٹ سے ان کی نفرت انتہائی تیزابی قسم کی تھی۔ بتایا کرتے تھے کہ زبان کی آزادی اور زبان کی غلامی میں کیا فرق ہے۔
استاد دامن کی زندگی میں سب سے بڑا سانحہ29نومبر 1954ء کو گزرا جب ان کے استاد ہمدم کی موت واقع ہوئی۔ موت سے چند دن پہلے استاد ہمدم کا گلا بند ہو گیا۔ استاد دامن انہیں میوہسپتال لے گئے لیکن وہاں ٹھیک علاج نہ ہوا تو استاد ہمدم نے اشارے سے کہا کہ مجھے گھر لے چلو یہاں مرنے سے وہاں کی موت بہتر ہو گی۔ استاد دامن انہیں تانگے میں گھر لے جا رہے تھے کہ راستہ ہی میں استاد دامن کی گود میں استاد ہمدم نے دم توڑ دیا۔استاد ہمدم کی موت اور پھر ملک میں ون یونٹ اور بعد میں مارشل لاء سے استاد دامن کی تمام تر توجہ پڑھنے پر مرکوز ہو کر رہ گئی۔ استاد دامن فرد کی تنہائی اور اکلاپے کا گہرا احساس رکھتے تھے اسی لئے انہوں نے اپنی تنہائی اور اکلاپے کی سانجھ کے بعد جہاں اپنا ناطہ کتابوں سے جوڑا وہاں انہوں نے لوگوں سے بھی اپنا میل جول بڑھانا شروع کر دیا۔اب وہ زیادہ وقت لائبریریوں میں گزارتے یا پھر یار دوستوں کی محفلوں میں۔ وہ ہر وقت بحث و مباحثے میں پڑے رہتے۔ انہوں نے اس دوران ہیرکے قصے کو منظوم کرنا شروع کیا ۔ وہ پنجابی شعرا میں سب سے زیادہ متاثر وارث شاہ سے تھے ۔وارث شاہ ان کی نظر میں زبان اور بیان کے عظیم شاعر تھے۔ آہستہ آہستہ استادد امن اور ان کی کوٹھڑی کا چرچا عام ہونے لگا۔ اس کوٹھڑی میں سیاستدان، فنکار، ادیب، خطیب، طالب علم، محنت کش، مزدور، کسان اور ہنر مند سبھی ایک ہی حیثیت اور ناطے سے آتے تھے۔ یعنی وہاں آنے والوں کا کوئی مرتبہ یا عہدہ نہ تھا۔ استاد دامن ہر ایک کی دلجوئی اور پیٹ پوجا اس کے ذہن اور دہن کے مطابق کرتے تھے۔ استاد دامن کی شخصیت کے اسرار لوگوں پر واضح ہونے لگے تو وہاں ان کی کوٹھڑی کی بھی تحقیق شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی مسجد اور وہی حجرہ ہے جہاں اکبر بادشاہ کے عہد میں پنجابی کے مشہور صوفی شاعر شاہ حسین رہتے تھے ۔
استاد دامن سے چوہدری ظہور الٰہی کو بہت عقیدت تھی ۔ چوہدری ظہور الٰہی استاد کو اس تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکال کر اپنے گھر گلبرگ میں منتقل کرنا چاہتے تھے لیکن استاد نے اس کوٹھڑی سے جدا ہونا منظور نہ کیا۔ یہ کوٹھڑی تو استاد کی شناخت تھی۔چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کے بعد استاد بڑے مغموم رہتے تھے، کہیں چین نہیں تھا، انہوں نے اپنی سیاست بلکہ ادبی سیاست بھی چھوڑ دی تھی۔اداکار علاء الدین کی موت نے تو استاد دامن کے تمام سلے ہوئے زخموں کے جیسے بخیے ادھیڑ دیئے کیونکہ 1954ء میں استاد ہمدم کی شکل میں روحانی باپ مر گیا تھا جبکہ 1983ء میں علاء الدین کی شکل میں اس کا روحانی بیٹا بچھڑ گیا۔ علاء الدین کا استاد دامن سے تیس بتیس سال کا ساتھ رہا۔ علاء الدین کی موت کے بعد استاد بالکل نہ سنبھل پائے، وہ زیادہ ہی بیمار رہنے لگے۔ اب ہر وقت عہدِ رفتہ ان کی آنکھوں میں رہنے لگا تھا۔وہ زیادہ تر بستر پر پڑے رہتے۔ یہ بستر گھر کا ہو یا ہسپتال کا۔ اس کے بعد ان کی حالت سنبھلی نہیں اور وہ ہسپتال میں 3دسمبر 1984ء کو دم توڑ گئے۔
استاد دامن کی شاعری
استاد دامن کی شاعری میں لوک رنگ، تصوف، سیاسی موضوعات، روایتی موضوعات کے علاوہ روز مرہ زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی خوبیوں سے مالامال ہے اور انسانی زندگی کی خوبصوت عکاس ہے۔ ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ عوام کے جذبات انہی کی زبان میں بیان کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عوامی شاعر کہلائے۔ اس کے علاوہ وہ رجائیت پسند تھے اور انہوں نے اپنے مداحین کو کبھی یاسیت اور قنوطیت کی دلدل میں نہیں دھکیلا۔ ذرا ان کی یہ شاعری ملاحظہ کیجئے:
میرے دل دی نہیں مینوں سمجھ آؤندی
بڑا ویکھیا میں ایہنوں رج رج کے
ایہنوں جِدھروں ٹھوکراں پَیندیاں نیں
ایہہ تے اودھرے ای جاؤندا اے بھج بھج کے
انج لگدا اے چِنِیں چِنِیں ہویا
شیشہ پَتھراں دے اْتّے وج وج کے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں
بھاویں مونہوں نہ کہیے پر وچوں وچی
کھوئے تسی وی او، کھوئے اسی وی آں
کجھ امید اے زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
جیوندی جاں ای، موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او، ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں
مینوں پاگل پن درکار
لکھاں بھیس وٹا کے ویکھے
آسن کتے جما کے ویکھے
متھے تلک لگا کے ویکھے
کدھرے مون منا کے ویکھے
اوہی رستے، اوہی پینڈے
اوہو ہی ہاں میں چلنہار
مینوں پاگل پن درکار
ہتھ کسے دے آؤنا کی اے؟
ملاں نے جتلاؤنا کی اے؟
پنڈت پلے پاؤنا کی اے؟
رات دنے بسّ گلاں کر کر
کجھ نہیں بن دا آخرکار
مینوں پاگل پن درکار
ٹیکس
چاندی سونے تے ہیرے دی کان تے ٹیکس
بیٹھک ریڑھی چوبارے ڈھلان تے ٹیکس
ٹیکس لگا دکان تے مکان تے ٹیکس
بیٹھے تھڑے تے لگا پہلوان تے ٹیکس
عقل مند تے نال نادان تے ٹیکس
پانی پین تے روٹی دے کھان تے ٹیکس
آئے گئے مسافر مہمان تے ٹیکس
انسان تے ٹیکس تے حیوان تے ٹیکس
دونا موئے تے جیوندے دی جان تے ٹیکس
ایس واسطے بولدا نئیں دامن
کتے لگ جائے میری زبان تے ٹیکس