توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفی حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :سید عمران علی لے آئوٹ:توقیر عباس


شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

آئی پی پیز پاکستانی عوام کا استحصال کررہی ہیں،ڈاکٹرشاہدہ وزارت،توانائی بحران کے ہم خود ذمہ دار،تمام مواقع ضائع کردیئے:  انجینئرخالد پرویز

آئی پی پیز کو 2ملین ڈالردیے مگر بجلی مہنگی ہے،ڈاکٹر حنا فاطمہ، بجلی چورو ں کو پکڑاجائے،آصف صدیقی،کیا آئی پی پیز نے معاہدے کے مطابق سرمایہ کاری کی ؟پروفیسر ڈاکٹر رضا علی 

ایران سستی گیس دینے کو تیار ہے لیکن پاکستان معاہدہ نہیں کررہا،سید محمد فرخ،معاشی بہتری کیلئے توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں:  احمد ریحان لطفی

 موضوع’’عالمی مالیاتی ادارے اور توانائی کا مسئلہ‘‘ 

 پاکستان ایک مرتبہ پھر نازک دور سے گزر رہا ہے،بچپن سے اب تک نجانے کتنی مرتبہ یہ سن چکے ہیں کہ پاکستان نازک دور سے گزررہا ہے ،یقینا پاکستان کی عمر یا اس سے زائد کے لوگ تو مجھ سے بھی پہلے سنتے رہے ہوں کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن الحمد اللہ ہر مرتبہ پاکستان اس نازک دور سے نکل ہی جاتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ بھی حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن عقلمند قومیں جھٹکوں اور مشکلات سے سیکھا کرتی ہیں مگر افسوس کہ ہم نے کوئی سبق نہ لیا۔گزشتہ دنوں ویسٹنگ ہائوس کے دفتر میں ملکی معاشی صورتحال،عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط اور توانائی کے شدید بحران پر ماہرین معاشیات اور ماہرین توانائی کو دعوت دی۔

ہم نے کے الیکٹرک کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا تھا لیکن وہاں سے کوئی شریک نہیں ہوا۔خواہش یہی تھی کہ جب ان کے حوالے سے کوئی بات ہو تو کے الیکٹرک کا نمائندہ جواب دینے کیلئے موجود ہو۔بہرحال مقصد بیٹھنے کا یہی تھا کہ الزام در الزام سے باہر نکل کر حل تلاش کیاجائے۔دنیا فورم میں آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں کو شدید ہدف تنقید بنایاگیاجبکہ پاکستانی حکمرانوں کو بحران کا ذمہ دار قرار دیاگیا۔ماہرین نے تجاویزدیں کہ پاکستان میں شمسی توانائی اور پن بجلی کے وسیع مواقع ہیں،ہوا،پانی اور سورج سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ،حکومت شاہ خرچیوں ،درآمد پر پابندی یا کمی اور ملک کی تیار اشیاء کو ترجیح دینے سے معاشی صورتحال کافی حد تک سنبھل سکتی ہے۔دنیا فورم کے شرکاء نے شکوہ کیا کہ توانائی بحران کی وجہ حکومت میں موجود لوگوں کے مفادات ہیں۔عوام کو اٹھنا ہوگا اور اپنے حق کو چھیننا ہوگا۔ایوان اقتدار میں ملک سے مخلص اور دیانتدار لوگ پہنچانے کیلئے اپنا کردار اداکرنا ہوگا تب ہی پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔بہرحال ہماری خواہش ہے کہ حکومت ان تجاویز کو سنجیدگی سے لے اور عوام بھی اپنے رویوں پر غور کریں تو انشاء اللہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔ہمیشہ کی طرح آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔شکریہ

مصطفی حبیب صدیقی(ایڈیٹر فورم ،روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ:0092-3212699629،0092-3444473215

ای میل:mustafa.habib@dunya.com.pk

 آئی ایم ایف کا کام بجلی کے نرخ مقرر کرنا نہیں آئی ایم ایف سے صنعتیں متاثر اور ختم ہوں گی،حکومت ڈالر کی اسمگلنگ روکے،ایران سے سستا تیل لے ،ڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ،آئی او بی ایم

  پاکستان ہوا اور سورج سے بجلی پیداکرسکتا ہے،تیل مافیا رکاو ٹ ہے مائیکروہائیڈرل منصو بے سے 3ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے لیکن صرف ڈیڑھ سو پیداکی جارہی ہے،چیئرمین آئی ای ای ای پی 

 عوام کا ذہن بنایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے شرائط مزید سخت ہوسکتی ہیں۔ مسائل سے نمٹنے کیلئے آمدنی کے ذرائع بڑھانے  ہونگے،کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی

 کینیا نے بڑا سولر سسٹم لگایا ہے،ایمسٹرڈیم میں نالوں پر سولر سسٹم لگائے جارہے ہیں ہم کیوں نہیں لگاسکتے؟،ہم نالوں کی صفائی نہیں کراسکتے ۔شمسی توانائی سے مستفید نہ ہونا ہماری غلطی ہے،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی 

  پاکستان 60 ٹریلین کا مقروض ہے،2023 میں 7.5ٹریلین روپے کاسود دینا ہے، پاکستان میں پیدا ہونے وا لاہر بچہ ڈھائی لاکھ روپے کا قرضدار ہے،کیا یہ سب بیرونی سازش ہے؟چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی

 ہمارے اداروں کی بربادی کی وجہ آئی ایم ایف کی طرف سے ڈکٹیشن ہے۔ اداروں میں آئی ایم ایف کے نمائندے موجود ہیں افسران کی  تعیناتی ا ن کی مرضی سے ہوتی ہے،معاشی ماہر،پاکستان اکنامک فورم

 حکومت صنعتوں کو درکار اشیاء کی درآمد پر تو پابندیاں لگارہی ہے لیکن کتے بلی کی فیڈ پر نہیں لگارہی۔ کیا وجہ ہے کہ چاکلیٹس وغیرہ تو درآمد ہورہی ہیں لیکن ضروری اشیاء پر پابندی ہے،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس

 دنیا: توانائی بحران سے کیسے باہر نکل سکتے ہیں؟۔آئی ایم ایف کے پاس کیوں جاتے ہیں کیا اورکوئی راستہ نہیں ہے؟

 ڈاکٹر شاہد ہ وزارت:ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے نہیں لے جایا جاتا ہے۔پہلے آئی ایم ایف سے صرف پروگرام اورپروجیکٹ کیلئے قرضے لیتے تھے ۔اس وقت پاکستان خوشحال اور ترقی کررہا تھاجو عالمی طاقتوں کو برداشت نہیں ہوااور انہوں نے ہمارے لیے پالیسیاں بناشروع کردیں۔جب سے آئی ایم ایف کے پروگرام شروع ہوئے ہماری خوشحالی ختم ہوگئی ۔کوئی ذہنی دباؤ نہیں ہوتا تھا۔ مزدور بھی شام کوصاف ستھرے کپڑے پہن کر گھر سے نکلتا اورخوش نظر آتا تھا۔ پاکستان 80ء کی دہائی تک ترقی کر رہا تھا کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے تھے۔اس کے بعد جتنی بھی جمہوری حکومتیں آئیں انہوں نے بجٹ کیلئے آئی ایم ایف سے قرضے لینے شروع کردیئے ۔بڑی طاقتیں ترقی پذیرممالک کو اپنی پالیسیوں کے مطابق لے کرچلاناچاہتی ہیں۔90ء کی دہائی تک صورتحال خراب ہوگئی۔آمدنی کی تقسیم کا تناسب کم ،غربت میں اضافہ ہوگیا جس سے ہماری ترقی رک گئی ۔

ایشیائی ترقیا تی بینک (اے ڈی پی) نے کہا پاکستان میں غربت کی شرح 50فیصد جبکہ اندرون سندھ 85فیصد ہوگئی ہے۔اسوقت 20لاکھ افراد بے روزگار ہوئے۔5ہزار کارخانے بنداورکئی مالکان بیرون ملک چلے گئے جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوالوگوں کے پاس کھانے پینے کو نہیں تھا جس کے اثرات ہماری تہذیب پر بھی پڑے اور وہ تیزی سے تبدیل ہوگئی۔ بڑے پیما نے پر چوریاں ،ڈاکے ،اغواء کے واقعات شروع ہوگئے۔اس دور میں سیاسی بحران بھی بڑھ گیا۔جیسے ہی حکومت ڈیفالٹ کے قریب جاتی اس کی چھٹی ہوجاتی تھی او ر نئی حکومت سب سے پہلا بیان دیتی تھی ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے۔اب صورت حال اس سے زیادہ بدتر ہے۔ آج حکمرانوں نے بڑے پیمانے پر آئی ایم ایف کے پاس جانا شروع کردیا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ لوگ بے روزگار ،ہزاروں کارخانے بند ہوگئے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے مغرب کے آلہ کار ہیں،ہماری حکومتوں میں آئی پی پیز کے نمائندے بیٹھے ہیں۔

 دنیا: کیا پاکستان میں جمہوریت کی نسبت آمرانہ نظام زیادہ بہتر رہا؟

شاہدہ وزارت: پاکستان میں آمریت اور جمہوریت دونوں ناکام ہوگئے ہیں ۔ دونوں نظام میں بڑی طاقتوں والے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایوب خان کے زمانے میں معیشت بہتر اور ملک نے ترقی کی۔1960کا دور بھی اچھا تھا۔اس دور میں زراعت اور صنعتوں نے تیزی سے ترقی کی ۔خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ملک مستحکم تھا۔پاکستان کوکامیابی کی طرف صرف ایک چیز لے جاسکتی ہے وہ یہ پاکستان کے حکمران باہر سے نہیں آئیں وہ لوگ ہوں جو پاکستان کے مفاد کیلئے کام کریں۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت بھی ’’باہر‘‘سے لا کر بنائی جاتی ہے۔ملک کے موجود ہ معاشی حالات کی بہتری کیلئے حکومت ڈالر کی اسمگلنگ روکے، ایران سے سستا تیل مل سکتا ہے۔ تاجروں کو اعتماد دیا جائے۔عوام اپنے کیخلاف ہونے والی زیادتی پر اب بھی نہیں اٹھے تو مزید ظلم سہنے کیلئے تیار رہیں۔

دنیا: آئی ایم ایف کے کنٹرول اور توانائی بحران سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟

انجینئر خالد پرویز : پہلے پراجیکٹ کی بنیاد پر قرضے ملا کرتے تھے ۔ اے ڈی پی ، عالمی بینک اور دیگر بیرونی بینک کے ذریعے کئی پروجیکٹ مکمل ہوئے لیکن وہ ایک مدت اور منصوبے کے تحت قرضے ملتے تھے جو اپنے وقت پر ختم ہوجاتے تھے۔اب معاملات تبدیل ہوگئے ہیں ۔ہمارے وزیرخزانہ کاصرف یہی کام رہ گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرضے کس طرح حاصل کیئے جائیں تاکہ پچھلے قرضوں کا بوجھ اتار جا سکے۔ ہماری ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ ہم نے اپنے پیروں پر خودکلہاڑی ماری جس کی وجہ سے ہم توانائی بحران کا شکار ہیں۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن نعمتوں سے نوازہ ہے شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوجسے اتنی نعمتیں ملی ہوں۔ہم نے تمام مواقع اور ذرائع کھودیئے۔پاکستان میں مائیکر و ہائیڈرل منصوبہ نہایت کامیاب ہے جس سے آسانی سے 3ہزار میگاوٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن ہم صرف ڈیڑھ سو میگاواٹ استعمال کرتے ہیں ۔اتنی بڑی نعمت موجود ہے اس کو استعمال نہیں کررہے ہیں۔

دنیا: عام افراد ان چیزوں کو سمجھ رہے ہیں توکیاحکومت اور اعلیٰ عہدوں پر موجود افسران نہیں سمجھتے ؟

انجینئر خالد پرویز: شہر کراچی میں روزانہ جمع ہونے والے کچرے کو توانائی کے حصول کیلئے استعما ل کیا جائے تو بہت بجلی اتنہائی کم قیمت پر حاصل کی جاسکتی ہے۔اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔کچرے سے بجلی پیدا کرنے میں ساری چیزیں یہاں بنائی جاسکتی ہیں۔ ہم ہر چیز درآمد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔پاکستان میں ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس اورمکینیکل کمپلیکس کی کیا کارکردگی ہے کو ئی پوچھنے والا نہیں؟،ملک میں ہر قسم کے کارخانے بند ہوگئے۔سیمنس کراچی میں بجلی کی موٹر بنایاکرتی تھی جو 25سال پہلے بند ہوگئی ۔ہم ہوا اور سورج سے بجلی پیداکرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن تیل مافیا توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع استعمال نہیں کرنے دے رہا۔ حکومت کے فیصلے ملکی مفاد میں نہیں۔ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو جہاد سے کم نہیں ہوگا۔بدقسمتی سے جوہورہا ہے ہم اس میں کچھ بھی نہیں کرسکتے سختی سے جکڑ لیا گیا ہے۔

دنیا:ٹیکسز کے حوالے سے آئی ایم ایف کی کیا ہدایات ہیں؟

ڈاکٹر حنا فاطمہ : ہمیں چیزوں اور معاملات کی آگہی نہیں ہوتی۔ پالیسی بنانا آسان مگر اصل کام عمل کرانا ہوتاہے۔کسی بھی ملک میں معاشی اور سیاسی دونوں منصوبہ بندی ہوتی ہے جہاں معاشی منصوبہ بندی مضبوط ہوتی وہ ملک ترقی کرتا ہے ۔پاکستان میں ہمیشہ سیاسی منصوبہ بندی مضبوط رہی جس سے ملک ترقی نہیں کررہا۔ملک میں جیسے ہی حکومت کا وقت ختم ہورہا ہوتاہے پالیسیاں بھی چلی جاتی ہیں ۔ہماری سوچیں مختصر مدتی منصوبہ بندی پر ہوتی ہے۔طویل مدتی پالیسیوں پر نہیں سوچتے ۔ہمیں پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے نئے کاروبارکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔مسائل ہمارے اندر ہیں جنہیں بہتر کرنے کیلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔آئی ایم ایف ڈکٹیٹ کررہا ہے اور کرے گا وہ ہماری بات نہیں مان رہا اس کے پاس ہمارے تجربات ہیں وہ اپنی مرضی کرے گا۔حکومت معیشت بہتر کرنے کیلئے منصوبہ بندی کرے اور عوام کو ریلیف اور اعتماد دے ۔ہماری درآمد ڈالر پر انحصار کررہی ہے۔حکومت کاکہنا ہے درآمد بڑھانے کیلئے ایل سیز کھول رہے ہیں ۔

اس سے برآمد پر فرق پڑے گا۔ برآمد بڑھانے کیلئے بھی یہی منصوبہ بند ی کرنی ہوگی۔ برآمد بڑھانے کیلئے اسٹارٹ اپس کو بڑھا نا ہوگا۔حکومت آہستہ آہستہ صنعتوں سے سبسڈی بھی ختم کردے گی جس سے د باؤ بڑھے گا ۔عوام کا ذہن بنایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے شرائط مزید سخت ہوسکتی ہیں۔مسائل سے نمٹنے کیلئے آمدنی کے ذرائع بڑھانے ہوں گے۔ آئی پی پیز کو 2 ملین ڈالر دے رہے ہیں اور صلے میں بجلی کے مہنگے بل مل رہے ہیں ۔ہم چیزوں کو الجھا رہے ہیں جس سے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ اداروں کو جو کام کرنے چاہئیں وہ نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کو پریشان کرتے ہیں ۔

دنیا: آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کا کیا کردار ہے؟

شاہدہ وزارت: آئی پی پیز کے معاملے میں ورلڈبینک نے کھل کر کردار اد ا کیا ہے۔ 1990 میں سیمینار میں گئی تھی جس میں آئی پی پیز پر معاہدے ہورہے تھے جس میں ورلڈ بینک نے کلیدی کردار ادا کیا۔وہ کہتاتھا آئی پی پیزکو 17فیصد ریٹررن ضرور دیا جائے، حکومت کو ضرورت ہو یا نہ ہو ان کی سرپلس بجلی حکومت خریدے گی ۔ورلڈ بینک نے پاکستانی حکومت کے ساتھ کئی شرائط منوائی ہیں جس کو ہم آج بھگت رہے ہیں ۔1994 میں ایک سیمینار میں گئی جس میں ورلڈبینک کے لوگ تھے ان سے کہا ایک طرف تو آپ فری مارکیٹ پر یقین رکھتے ہیں اور یہاں آپ کہہ رہے ہیں آئی پی پیز سے ریٹ 17فیصد ضرور ہو۔اس سے معلوم ہوتا ہے آپ کسی چیز پریقین نہیں کرتے،صرف مغربی ممالک کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔عالمی مالیاتی اداروں کو امریکا اور یورپ کنٹرول کرتے ہیں۔یہ سازش نہیں حقیقت پر مبنی باتیں ہیں۔

سارے حقائق اپنی کتاب ALTERNATIVE TO THE IMFمیں لکھے ہیں۔سیمینا ر کے بعد عالمی بینک کے پاکستانی نمائندے آئے انہوں نے کہا آپ بالکل صحیح کہہ رہی تھیں،ہم بول نہیں سکتے ۔نوکری کا مسئلہ ہے اس لیے کھل کر نہیں کہہ سکتے۔آئی پی پیز کے اصل مالکان میں مسلم لیگ(ن ) ،پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہیں۔یہ لوگ ایک طرف حکومت میں بیٹھے ہوتے ہیں اور دوسری طرف آئی پی پیز کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دے رہے ہوتے ہیں۔کیونکہ دینے والے اور لینے والے بھی یہی ہیں ان لوگوں نے لوگوں کونچوڑ دیاہے ۔کسی ملک میں عوام کو اس طرح نہیں نچوڑا جاتا ۔حکومت کا کام عوام کو کم قیمت میں اچھی خدمات فراہم کرناہوتاہے ۔اسی لیے ریگولیٹری باڈی بنائی جاتی ہیں جو ان چیزوں کی مانیٹرنگ کرتی ہیں تاکہ عوام کا استحصال نہ ہو۔ جس کو حکومت میں اعلیٰ عہدہ یا طاقت مل جائے وہ اپنے مفاد میں استعمال کرتاہے۔

آئی پی پیز معاہدوں کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔30 سال کامعاہد ہ تھا جو 1994 میں ہوا تھااوراگلے سال ختم ہورہا ہے۔  اس کے بعد توسیع نہیں ہونی چاہیے۔اس صورت حال میں پاکستانی عوام اپنے ذاتی مفاد کیلئے بھی نہیں کھڑے ہوسکتے توپھر ان کیلئے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔آئی پی پیز پاکستانی عوام کا بہت استحصال کررہی ہیں۔آئی ایم ایف کا کام بجلی کے نرخ مقرر کرنا نہیں ان کو قرضہ واپس چاہیے تو دیگر شرائط سے لیں۔آئی ایم ایف ان چیزوں کی قیمت بڑھارہا ہے جس سے صنعتیں متاثر اور ختم ہوں۔

آصف صدیقی : 1980 میں گاڑیوں سمیت کئی اشیادرآمد نہیں ہوتی تھیں بلکہ پاکستان میں ہی تیار ہوتی تھیں ۔بھارت کا بھی یہی حال تھا اس نے بھی کافی عرصے تک گاڑیاں درآمد نہیں کیں بلکہ خود بنائیں۔جو چیزیں ملک میں بن سکتی ہیں ان پر باہر سے آنے پر پابندی ہونی چاہیے،معیشت کی بہتری کیلئے خود کفیل ہونا پڑے گا۔

پروفیسر ڈاکٹررضاعلی خان : بیرونی سازشیں اپنی جگہ اس میں کوئی دورائے نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے ۔ہمیں اپنے رویوں پر بھی غور کرنا ہوگا کہ بحیثیت پاکستانی ہم کیا کررہے ہیں۔70ء اور 80 ء کی دہائی میں بھارت کے حالات ہم سے زیادہ خراب تھے وہ 1991 میں پہلی مرتبہ آئی ایم یف کے پاس گیا ،ا س پر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے فیصلہ کیا دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا۔6سال میں بھارت نے اپنی معیشت کو دوبارہ کھڑا کردیا یہ حقیقت ہے جسے ہمیں بھولنا نہیں چاہیے۔ اقتدار میں رہنے والے پاکستانی حکمرانوں کی صنعتیں رہی ہیں جنہوں نے مہنگائی کا طوفان پرپا کیا ہواہے۔

دنیا: قرضوں اور توانائی بحران کنڑول نہیں ہورہے کیاوجوہات ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان : صلاحیت او ر وسائل ہیں بد نیتی سے معاملات بگڑتے جارہے ہیں ۔اپنی کوتائیوں پر بیرونی قوتوں کانام دے کر خود کو بری الزمہ قرار دیتے ہیں۔جب تک اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے صحیح راستہ نہیں مل سکتا۔ آج پاکستان 60 ٹریلین کا مقروض ہے تو کیا اس میں بیرونی ساز ش ہے۔2023 میں صرف سود کی مد میں 7.5ٹریلین روپے دینے ہیں کیا امریکا نے کہا تھا کہ قرض لے لو،پاکستان میں پیدا ہونے وا لاہر بچہ ڈھائی لاکھ روپے کا قرضدار ہے۔یہ سب کچھ ایک دن یا ایک سال میں نہیں 75سال کی کہانی ہے اس میں عوام سمیت تمام سرکاری ادارے شامل ہیں۔ ملک کا معاشی استحکام اس کے سیاسی استحکام سے جڑا ہوتاہے۔جب تک سیاسی بحران رہے گا معیشت کو استحکام نہیں مل سکتا۔ ملک اسی وقت ترقی کرے گا جب سرمایہ کاری ہوگی ،سرمایہ کاری اسی وقت ہوگی جب ملک میں استحکا م ہوگا۔

دنیا: عام افراد مایوس ہیں کیسے باہر نکالیں ؟

رضاعلی خان : عوام کو مایوسی سے نکالنے کیلئے اعتماد اور انصاف دیناہوگا۔حضرت علی ؓ کا مشہور قول ہے’’کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں ‘‘، بحران سے نکلنے کیلئے سب کوجمع ہوکر جامع پالیسی بنانا ہوگی جس میں تما م اسٹیک ہولڈرز کو شام کرنا ہوگا۔اس میں 3 کم مدتی ، وسط مدتی اور طویل مدتی اہداف رکھ لیں ۔ سب سے پہلے عوام کو ریلیف دیں۔عوام میں لاوا پک رہا ہے حکومت جلد ریلیف نہ دے سکی تو خمیازہ بھگتنا ہوگا۔حکومت سرکاری اخراجات کم کرے۔پچھلی حکومت نے آخری ماہ میں ترقیاتی فنڈ کے نام پر اربوں روپے ایم این ایز کو دیئے ،بچی ہوئی رقم فوری واپس لائیں اور عوام کو ریلیف میں استعمال کریں۔حکومت کے ساتھ عوام کو بھی اپنے طرز زندگی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔گھروں اور سرکاری عمارتوں میں بجلی بہت ضائع کی جاتی ہے اسے کنٹرو ل کرنے کی ضرورت ہے۔شاپنگ مال ،تجارتی مراکز ،شادی ہالز دن کی روشنی استعما ل کریں۔

آئی پی پیز کو بٹھاکر معاملات حل کیئے جائیں۔ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد نے آئی پی پیز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھااور معاہدوں پر عمل کرایا ۔انڈونیشیا میں بھی یہی مسئلہ تھا انہوں نے حل کیا،ہمیں ان کی تقلید کرتے ہوئے آئی پی پیز سے دوبارہ معاہدے کرنے چاہییں۔ آئی پی پیز کا مکمل فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔کیا آئی پی پیز نے معاہدے کے مطابق سرمایہ کاری کی ؟ بجلی کے میٹر کی کیلی بیریشن کی جائے یعنی جو میٹر کے الیکٹرک یا واپڈا لگاتا ہے وہ تیز ہوتے ہیں اس لیے انکا معائنہ کیاجاتا رہے کہ مشینری صحیح کام کر رہی ہے ۔بجلی کے مستقل حل کیلئے متبادل توانائی کی طر ف جانا ہوگا۔ ہمارے پاس وسائل ہیں ہمارے ہاں بھرپور سورج نکلتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 گیگا واٹ بجلی شمسی توانائی سے پیدا ہوسکتی ہے۔ ہمارے پاس 300 کلو میٹر کا ونڈ کوریڈور ہے جو 50 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ شمالی علاقوں میں 5 ہزار سے زائد گلیشیئرز ہیں۔ ہائیڈرل سے بجلی سستی پڑتی ہے ڈیم کیوں نہیں بنائے جاتے ،ہمارے پاس سب کچھ ہے ہم ہر چیز سیاست کی نظر کردیتے ہیں۔ 

 دنیا:کیاکے الیکٹرک عوام سے زیادتی نہیں کررہی ؟

 آصف صدیقی : کے ای ایس سی میں خدمات انجام دے چکاہوں۔کوئی بھی نجی ادارہ ہو اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوتا ہے اسی نظریئے سے منصوبہ اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ہمارے پاس بجلی کے متبادل ذرائع نہیں اس لیے کے الیکٹرک سے بجلی لینا مجبوری ہے۔ امریکا میں متبادل توانائی کے ذرائع ہوتے ہیں۔یہاں اجارہ داری ہے۔کمپنی اپنے مفاد کے کام کرتی ہے عوام کی پریشانی کی پرواہ نہیں ہوتی۔حکومت کا کام ہے وہ ان کمپنیوں کو قواعدو ضوابط کا پاپند بنائے ۔بجلی کمپنی کے شیئرز ہولڈز میں بہت بڑے نام ہیں اسلئے ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پارہا۔ کے الیکٹرک کے صارفین بہت پریشان ہیں۔کے الیکٹرک بے شک بجلی چورو ں کو پکڑے لیکن جو بل دے رہے ہیں ان پر بجلی چوروں کا ملبہ نہ ڈالا جائے۔یہ چور کو پکڑنے کے بجائے اس کو پکڑ رہے ہیں جو بل دے رہا ہے۔پاکستان میں آج تک متبادل توانائی پرکام ہی نہیں ہوا بھارت میں بہت کام ہورہاہے۔

بھارت نے 1990 میں بائیو ڈیزل بنایا۔ سارے انجن بائیو ڈیزل پر چل رہے ہیں۔ یہاں ایک مشین تک بائیو ڈیزل پر نہیں چل رہی۔ پاکستان میں بائیو ڈیزل ایک عرصے تک موجود تھا آج تک اس پر پالیسی نہیں آسکی ۔ ہمارا خطہ سورج کی روشنی سے بھرپور ہے پھر بھی ہم شمسی توانائی کا نظام نہیں لگارہے تو کفران نعمت ہے۔اللہ تعالیٰ توانائی حاصل کرنے کے مواقع دے رہاہے لیکن ہم اس نعمت کی قدر نہیں کررہے ۔کینیا نے حال ہی میں بڑا سولر سسٹم لگایا ہے،ایمسٹرڈیم میں نالوں پر سولر سسٹم لگائے جارہے ہیں ہم کیوں نہیں لگاسکتے ؟،ہم نالوں کی صفائی نہیں کراسکتے ۔شمسی توانائی سے مستفید نہ ہونا ہماری غلطی ہے۔سندھ میں سرکاری عمارتوں پر سولر سسٹم لگانے کاایک پروجیکٹ آیا تھا،جس کا بجٹ 40کروڑ روپے رکھا گیا ،حساب لگایا تو پروجیکٹ 25کروڑ سے زیادہ کا نہیں تھا۔بعد میں پتہ چلا کہ 15کروڑ دوسروں کو دینے تھے ۔خضدار میں 4ہزار اسٹریٹ لائٹ لگنی تھی جس کی لاگت ایک لاکھ 25ہزار بن رہی تھی ،انہوں نے کہا یہ کم ہے اس کو 4 لاکھ کردیں ، لیکن آپ کو ایک لاکھ 25ہزار ہی ملیں گے۔

دنیا: آئی ایم ایف کا مقصد اور پالیسیاں کیا ہیں؟

 سید محمدفرخ : آئی ایم ایف بننے کا مقصد ترقی پزیر ممالک کی مدد کرنا تھا،جو ممالک جنگ کے بعد معاشی طورپر بد حال ہوگئے تھے ان کی مدد کیلئے آئی ایم ایف وجود میں آیا۔ابتداء میں بہت اچھا کام کیا جس سے کئی ممالک میں ترقیاتی کام ہوئے ۔آئی ایم ایف کا دباؤ اس وقت بڑھا جب ان ممالک میں صنعتیں لگنے لگیں توآئی ایم ایف ان سے شیئر مانگنے لگا۔ ترقیاتی ممالک کا نظریہ تھا اگر ترقی پذیر ممالک ترقی کرگئے تو ان کو کون پوچھے گا انہوں نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کی معاشی پالیسیوں میں داخل اندازی شروع کر دی۔اب آئی ایم ایف کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ پیسے کیساتھ معاشی پالیسی اور ڈکیٹشن بھی دیتا ہے۔کہتا ہے جیسا ہم کہیں گے ویسا کرنا ہے۔80ء کی دہائی سے پہلے پاکستان آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا تھا اور خوشحال تھا ۔

آئی ایم ایف معاشی استحکام کے ساتھ سیاسی لیڈر شپ بھی دے رہا ہے۔ہمارے اداروں کی بربادی کی وجہ آئی ایم ایف کی طرف سے ڈکٹیشن ہے۔ ہمارے اداروں میں آئی ایم ایف کے نمائندے موجود ہیں افسران کی تعیناتی ا ن کی مرضی سے ہوتی ہے۔ایران پاکستان کو گیس بجلی اور تیل دینے کو تیار ہے لیکن ہم معاہدے نہیں کررہے کیوں؟ایران آپ کو سب چیزیں سستا دینا چارہا ہے ،اس سے اسمگلنگ بھی بند ہوجائے گی لیکن ہم ایسا نہیں کررہے ۔

دنیا:توانائی بحران کی وجہ سے کاروبار بر ی طرح متاثر ہے، انڈسٹری کیا کردار اد ا کرسکتی ہے؟

 احمد ریحان لطفی : ہمارے ادارے کا نام نیا نہیں کام کرتے ہوئے 100سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ۔کم اور درمیانے وو لٹیج ،نیوکلیئراور کئی شعبوں میں پروڈکٹ اور حل پیش کرتے ہیں۔بنیادی مقصد صنعت کو صاف اور محفوظ توانائی فراہم کرنا ہے۔ ملک کا تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے صورت حال اچھی نہیں ہے۔ بجلی کے بل پڑوسی ممالک کے بلوں سے موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے ہمارے بل بہت زیادہ ہیں۔مہنگی بجلی سے ہماری صنعتیں عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرپاتیں ۔اپنی تیار اشیاء عالمی مارکیٹ میں اس طرح نہیں فروخت کرسکتے جس طرح دیگر ممالک فروخت کرتے ہیں۔ہماری 60فیصد برآمد ٹیکسٹائل پر انحصار کرتی ہے۔پاکستان عالمی مارکیٹ میں زیادہ لاگت کی وجہ سے اپنی اشیاء فروخت نہیں کرپارہا تو برآمد کم شمار کی جائے گی جس سے تجارتی خسارہ بڑھ جائے گا جو مسلسل بڑھ رہا ہے۔بجلی مہنگی ہونے کی مختلف وجوہات ہیں ۔بجلی بنانے کیلئے تیل درآمد کرتے ہیں جو بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگا ہے جب مہنگا تیل خریدیں گے تو بجلی سستی کیسے دیں گے؟ ۔

ہر سال 4500 میگا واٹ بجلی چوری ہوتی ہے۔سینکڑوں ادارے بجلی استعمال کرتے ہیں بل نہیں دیتے جس سے خسارہ بڑھتاہے۔ ہمارے جیسے کئی ادار وں کا 80فیصد انحصار درآمدپر ہے۔جب پروڈکٹ مہنگی ہوگئی توصارف کیسے خریدے گا جس سے مارکیٹ خراب ہوتی ہے ۔ہم برآمد نہیں کرپارہے کیونکہ اشیاء کی تیاری کیلئے لازمی چیزیں درآمد کریں گے ۔ حکومت نے درآمد کا طریقہ کار اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ درآمد کرنا بھی آسان نہیں ۔کاروبار کریں تو کیسے کریں۔ حکومت صنعتوں کو درکار اشیاء کی درآمد پر تو پابندیاں لگارہی ہے لیکن کتے بلی کی فیڈ پر پاپندی نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ چاکلیٹس وغیرہ تو درآمد ہورہی ہیں لیکن ضروری اشیاء پر پابندی ہے۔ملکی معاشی صورت حال بہت خراب ہے۔جو ادارے برداشت نہیں کرپارہے وہ بند ہورہے ہیں۔ ان مسائل میں صنعتیں کیسے پروان چڑھ سکتی ہیں۔معیشت کی بہتری کیلئے توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔موجود ہ صورت حال پر شعر یاد آرہا ہے ’’اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ ۔۔ جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا‘‘۔

ڈاکٹر حنا فاطمہ :زراعت کے سیکٹر کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مضبوط کریں اس سے ملکی معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا ہوگا ،جو طبقات ٹیکس نہیں دیتے ان سے ٹیکس لینا ہونگے۔60فیصد معیشت غیر دستاویز ہے۔معاشی صورتحال کی بہتری کیلئے سخت اقدامات ضروری ہیں۔موجودہ صورتحال بدتر ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

پاکستان کودیانتدار اور باصلاحیت لیڈر چاہیے، عوام کردار اداکریں

شرکاء: ڈاکٹر عصمت آراء،چیئرپرسن شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی۔ڈاکٹر معیز خان ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی ۔ڈاکٹر معروف بن رئوف ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تعلیم اور صدر سوسائٹی فار سوشل سائنسز آف ریسرچ ایسوسی ایشن ۔ نورالعارفین صدیقی ، معروف ٹی وی اینکر ۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے طلباء زیان احمد خان اور جویریہ بنت شاہدطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔