درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے
شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔
والدین ،اساتذہ اور میڈیا معاشرہ بہتر بنا سکتے ہیں،مظہر عباس، طلباء کے تحفظ کیلئے سخت قوانین سے ہی لوگ سدھریں گے: ڈاکٹر طلعت وزارت
بے راہ روی صرف اعلیٰ تعلیمی ادارو ں میں ہی نہیں اسکولوں میں بھی ہے،ڈاکٹر قیصر سجاد،بنا تحقیق خبر سے لڑکیوں ہی نہیں لڑکوں کو بھی مشکل ہوسکتی ہے: ڈاکٹر صائمہ اختر
جس معاشرے میں تحقیق اور سوالات کافن نہیں ہوتاوہ بہتر نہیں ہوسکتا،ڈاکٹر فرح اقبال،آج بچوں کی ترجیحات اور معیار تبدیل ہوگئے ہیں: ڈاکٹر مانا نوارہ
موضوع: ’’اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بے راہ روی ،کتنی حقیقت کتنا فسانہ‘‘
درسگاہیں!کوئی بھی ہوں،دنیا کی تعلیم دیں یا دین کی ہر صورت میں طالب علم کا مان اور والدین کا بھروسہ ہوتی ہیں،کسی بھی معاشرے کے اچھے یا برے ہونے کا اندازہ اس کے مجموعی حالات سے لگایا جاتا ہے،ایک مہذب معاشرے میں سنی سنائی باتوں اور بناتحقیق خبروں کوبرا سمجھاجاتا ہے مگر افسوس ہمارے معاشرے میں منفی اور غیرمصدقہ خبروں اور باتوںکو محض لذت اور چند لوگوں کے مفاد کے خاطر اچھالا جاتا ہے ،اس میں کہیں سوچانہیں جاتا کہ اس کے ملک کی عالمی ساخت اور قوم کے عمومی دماغ پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔گزشتہ دنوں بہاولپور یونیورسٹی ایک ایسے ہی واقعے کے بعد بہت خبروں میں گردش کرتی رہی لیکن کم ہیں جنہوں نے حقائق جاننے کی کوشش کی۔بہاولپور یونیورسٹی ملک کی 175 جامعات میں15ویں نمبر پر آتی ہے، 126شعبہ جات ہیں،صبح وشام کلاسیں ہوتی ہیں،300سے زائد اساتذہ ہیں، 48ہزار سے زائد طلباء وطالبات ہیں،جبکہ تینوں کیمپس کو ملائیں تو70ہزار بن جاتے ہیں ،
جہاں بین الاقوامی سیمینارز ہوتے ہیں پھر بھی وہ بدنام کردی گئی۔کیا واقعی سرکاری جامعات جہاں ملک کے لاکھوں متوسط اور غریب طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ایسی ہی ہیں جیسا پراپیگنڈا بہاولپور جامعہ کے بارے میں کیاگیا؟بس یہی سوال لے کر میں جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی سربراہ ڈاکٹر صائمہ اختر کے پاس پہنچا اور دنیا فورم کا خیال پیش کیا۔خوشی ہوئی کہ ڈاکٹرصائمہ اختر نے فوری معاملہ سمجھ لیا اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔میں یہی سوال کرنا چاہتا تھا کہ ملک کے لاکھوں بچوں کے مستقبل سے وابستہ یہ سرکاری جامعات اور دیگر تعلیمی ادارے کتنی اہمیت کے حامل ہیں اور حقائق کیا ہیں۔ایم پی اے کے سیمینار ہال میں دنیا فور م میں انہیں سوالات کے ساتھ پہنچا،مہمانوں کو بلایا اور سیکڑوں طلبہ وطالبات کو بھی سوالات اور تجاویز کا موقع دیا۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ مثبت تجاویز بھی پیش کریں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا فورم ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔امید ہے کہ ہمارے اس فورم سے بھی قارئین کو بہتر اور حقیقی تصویر دیکھنے کو ملے گی۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔شکریہ
مصطفیٰ حبیب صدیقی(ایڈیٹر فورم ،روزنامہ دنیا کراچی)
برائے رابطہ: 0092-3444473215,0002-3212699629
ای میل:mustafa.habib@dunya.com.pk
کسی بھی تعلیمی ادارے کے بارے میں خبر سے پہلے اسکا ماضی دیکھیں،صحافی کو تحقیق کرلینی چاہیے۔ خبر دینے والے 80 فیصدافرادنے یونیورسٹی کا دورہ تک نہیں کیا ہو گا ، معروف صحافی وتجزیہ نگار
جسے اہم ذمہ داری دی جاتی ہے اسکے متعلق ٹھوس معلومات ہونی چاہیے،اس کی وجہ سے بچیوں نے بہت مشکل وقت گزارا ہوگا۔ایسے واقعات سے والدین بچیوں کوپڑھانے سے گریز کرینگے، ماہر تعلیم
والدین اور بچیاں سوال کرتی ہیں کہ کیا ہمیں جامعہ کراچی میں تحفظ حاصل ہے ،میڈیاکی جانب سے جھوٹی خبر یں اچھالنے سے معاشرے میں مایوسی پھیل رہی ہے ، سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن ،جامعہ کراچی
تعلیمی اداروں میں جو تعلق استاد اور طالب علم میں ہونا چاہیے اب وہ نہیں ۔ طلباء کے مسائل حل کرنے کیلئے والدین او ر اساتذہ میں ہر ماہ ملاقات ہونی چاہیے ،سابق جنرل سیکریٹری پی ایم اے
ہم بحیثیت قوم جذباتی ہوگئے ہیں بغیر تحقیق اور معلومات کے فوری ردعمل دے دیتے ہیں۔ واقعات کے اسباب معلوم نہیں کرتے جس سے معاشرے میں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں،ماہر نفسیات
والدین سمجھتے ہیں یونیورسٹی میں داخلہ اور فیس جمع کرادی اب ہمارا کام ختم، اساتذہ بھی بین الاقوامی اصول وقوانین پر عمل نہیں کرتے، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تربیت نہیں کی جاتی،استادشعبہ نفسیات ،جامعہ کراچی
دنیا: تعلیمی اداروں میں نامناسب واقعات حقیقت ہیں یافسانہ، اور اگر ہیں تو انہیں روکا کیسے جاسکتا ہے؟
مظہر عباس : انسان کا رویہ او ر اخلاق اپنی پہچان خود کراتاہے۔بچے کی سب سے پہلی ذمہ داری والدین پر ہوتی ہے۔والدین کو غور کرنا چاہیے کہ ہمارے بچے تعلیمی اداروں سے گھر آرہے ہیں یا کہیں اورجارہے ہیں۔ ان میں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ایک یونیورسٹی میں اگر اتنے عرصے سے معاملات چل رہے تھے تو والدین کو چاہیے تھا کہ وہ نظر رکھتے اور آواز اٹھاتے۔ بچوں کے مستقبل میں والدین اور اساتذہ کا کرداراہم ہوتاہے۔ استاد اچھا ہوتو طالب علم ترقی کے منازل طے کرتا چلا جاتاہے۔ میرے والد استاد تھے جنہوں نے ہزاروں طالب علموں کو نہ صرف پڑھایا بلکہ کامیابی کے منازل طے کرائیں۔صرف سزائیں مسائل کا حل نہیں ہو تیں۔ معاملات متوازن رکھناہوتے ہیں۔ہم نے بھی اسی جامعہ کراچی میں پڑھا ہے اس وقت بھی مسائل تھے آج بھی ہیں۔
والدین بچوں کو اعتماد دیں اورتربیت کریں۔1970 ء تک منشیات کا کلچر نہیں تھا۔عام طورپر انسان منشیات اس وقت استعمال کرتا ہے جب وہ نظرانداز ہورہا ہو یا اس کے ساتھ ناانصافیاں ہورہی ہوں۔آج بچے موبائل میں لگے رہتے ہیں ہمیں معلوم نہیں ہوتا اور نہ اس کو چیک کرتے ہیں دیگر ممالک میں بچوں کو اس طرح موبائل نہیں دیا جاتا جس طرح ہم دیتے ہیں۔ بلکہ ٹی وی او رموبائل استعمال کرنے کے وقت مقرر ہوتے ہیں ۔ہر پروگرام بچوں کو دیکھنے نہیں دیتے ،جدید معاشرے میں قوائدو ضوابط ہوتے ہیں ۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بچوں کے ذہن بن چکے ہوتے ہیں تبدیل کرنا آسان کام نہیں ،خود کوشش کرے تو تبدیل ہوسکتاہے۔
دنیا:ایسی صورت حال میں میڈیا کاکردار کیساہوناچاہیے؟
مظہر عباس: ہماری صحافت میں منفی خبریں سب سے اوپر ہوتی ہیں۔معاشرے کا مزاج بن گیا ہم شورشرابے کو پسند کرتے ہیں۔میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا کنٹرول نہیں ہے جس کا جو دل کررہا ہے وہ بول اور لکھ رہا ہے۔میڈیا اور صحافیوں کو اچھے مواد کو ترجیح دینی چاہیے۔اینکر کو ریٹنگ بڑھنے کی فکر ہوتی ہے ۔پروگرام میں لڑائی جھگڑے اور شور شرابے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہاہے اس کی فکر نہیں ہوتی ۔میڈیا وہ کردار ادا نہیں کررہا جو کرنا چاہیے۔ تمام میڈیا نے محض سرکاری بیانات پر اکتفا کرلیا کسی نے یونیورسٹی جاکر اصل خبر پر کام نہیں کیا۔کسی بھی تعلیمی ادارے کے بارے میں خبر سے پہلے اس کے ماضی پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔کئی تعلیمی اداروں میں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں ۔صحافی کو تحقیق کرلینی چاہیے۔ جتنے لوگوں نے اس پر پروگرام یا اسٹوری شائع کی ہے ان میں سے 80 فیصد لوگوں نے بہاولپور یونیورسٹی کا دورہ تک نہیں کیاہوگا۔
دنیا: کیا جامعات میں بے راہ روی ہے ، روک تھام کیلئے کیا اقداما ت کرنے چاہیے؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت : میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں جو قابل اعتراض ہیں۔ ایسے واقعات کلچر اورنہ ہی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں ،کچھ عرصے پہلے ایک اسکول میں بھی بچوں کو منشیات فراہم کی جارہی تھی ۔ تعلیمی اداروں میں جو طلباء منشیات یادیگر نشہ آور اشیاء استعمال کررہے ہیں ا ور جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان میں بچوں کا قصور نہیں ۔وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو مالی فوائد کی خاطر منشیات اور ممنوعہ چیزیں فراہم کررہے ہیں۔حقیقت ہے تعلیمی اداروں میں مسائل ہورہے ہیں ،ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔شعبہ سماجیات کی ذمہ داری ہے وہ ان مسائل کے بارے میں تحقیق کرے اور تعلیمی اداروں میں آگہی فراہم کرے ۔ ملک میں منشیات استعمال کرنے کی سخت سزائیں ہیں۔بلکہ سزائے موت ہے جو صرف ایک شخص کو ملی تھی اس کے بعد کسی کو نہیں دی گئی ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی کہ موت کی سزا ختم کردی جائے،ایک وقت تھا میں خود سزائے موت کے خلاف تھی لیکن اتنے مسائل آتے گئے کہ اب کہتی ہوںاگر معاشرے کو صاف ستھرا ور جرائم سے پاک کرناہے توسخت سزائیں دینی ہوں گی۔افسو س ہے وہ قرارداد قومی اسمبلی نے منظورکرلی ۔
اس کے بعد سینیٹ میں گئی جہاں اس کو مسترد کردیا گیا۔حیرت ہے اتنی بڑی سزاؤں کے باوجود واقعات ہورہے ہیں ؟جو لوگ نوجوان نسل کو غلط کاموں میں لگا رہے ہیں وہ ملک اور معاشرے کے مخلص نہیں ان کوسخت سزادینی چاہیے۔طلباء کے تحفظ کیلئے سخت قوانین ہونے چاہییں ۔سخت سزا ہوگی تو لوگ سدھریں گے۔متعلقہ یونیورسٹی کی انتظامیہ ذمہ دار ہے جس نے غلط شخص کا انتخاب کیا۔جس شخص کو اہم ذمہ داری دی جاتی ہے اس کے متعلق ٹھوس معلومات ہونی چاہیے۔ اس شخص کی وجہ سے بچیوں نے بہت مشکل وقت گزارا ہوگا۔ایسے واقعات ہوں گے تو والدین اپنی بچیوں کو پڑھانے سے گریز کریں گے۔
دنیا : ان واقعات کے نوجوانوں اور گھروالوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں ؟
ڈاکٹر قیصر سجاد :نوجوانوں خاص طور پر طلبا ء اور والدین پر گہر اثر ہوتاہے ۔بدقسمتی سے واقعات کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا جاتا۔بے راہ روی صرف اعلیٰ تعلیمی ادارو ں میں ہی نہیں اسکولوں اور دیگر اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہماری بنیادی تربیت ختم ہوچکی ہے۔کچھ والدین ایسے بھی ہیں جوبچوں کے ساتھ سگریٹ پیتے ہیں۔معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے،معاشرہ کس طرف جارہا ہے،ملک میں قانون تو بہت ہیں عمل نہیں ہوتا۔بچے کی اصل تربیت گھر سے ہوتی ہے۔اچھے لوگ انسان کو اچھا اور برے لوگ انسان کو برا بنادیتے ہیں۔ ملکی صورت حال خراب ہونے کی ایک وجہ کوئی کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ہم بے راہ روی میں لگے ہوئے ہیں ،پہلے والدین بچوں پر نظر رکھتے تھے آج بچے رات دیر گئے گھر آتے ہیں وجہ معلوم نہیں کرتے کہ باہر کیاکررہے تھے جب کچھ ہوجائے توکہتے ہیں میرا بچہ تو ایسا نہیں ہے۔ خاندانی نظا م نہ ہونے کے برابر ہے۔ والدین اور بچوں میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی ہورہا ہے جو تعلق ٹیچر اور طالب علم میں ہونا چاہیے اب وہ نہیں ہے۔ طلباء کے مسائل حل کرنے کیلئے والدین او ر اساتذہ میں ہر ماہ ملاقات ہونی چاہیے ۔والدین او ر اساتذہ وہ کرداراد نہیں کر رہے جو کرناچاہیے،موبائل نے پورا معاشرہ تبدیل کردیا ہے۔
دنیا: طالبات پر ایسے واقعات کے اثرات کی پڑتے ہیں کیا مستقبل میں انہیں مشکل ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹرصائمہ اختر : 5 سال سے دیکھ رہی ہوں کہ والدین اور بچیاں سوال کرتی ہیں کہ کیا ہمیں جامعہ کراچی میں تحفظ حاصل ہے
میڈیا چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اتنا اوپر لے جاتاہے جس سے معاشرے میں منفی سوچ اور مایوسی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
خواتین اور لڑکیوں میں تحفظ کی بات بہت اہم ہے۔آج کا نوجوان لڑکا ہویا لڑکی خطرے میں ہے۔گھر میں بچوں کو سوال کرنے پر خاموش کردیتے ہیں۔ایسا نہیں کریں ان کو بولنے دیں اور سنیں بلکہ ان سے سیکھیں۔7سال کی عمر تک بچے کی شخصیت بن جاتی ہے۔نوجوانوں کی عمروں میں کئی خطر ناک موڑ آتے ہیں ۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نوجوان جس عمر میں آتے ہیں ان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں،ٹھوکر کھاکر گرجا تے ہیں یا سنبھل کر اڑجاتے ہیں۔ہمارے پا س نظام او ر احتساب کا قانون ہے عمل نہیں ہوتا ۔طلباء کو صحیح اور غلط کوسمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔پہلے گھروں میں دادا ،دادی اور والدین تربیت کرتے تھے۔ مغرب کے بعد آنے اور میز سے ہٹ کرکھانا کھانے کی اجازت نہیں تھی ۔
ہر چیز کے اوقات ہوتے تھے اور انسان کی اپنی بھی اوقات ہوتی تھی ۔ آج ہماری ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں۔ ہماری ترجیح صرف پیسہ کمانا رہ گیاہے۔بچے ہر چیز میں آسانی چاہتے ہیں۔والدین اپنی آسانی کیلئے حل تلاش کرلیتے ہیں ا ور بچوں کو موبائل اور انٹرنیٹ پر مصروف کردیتے ہیں۔ ہم نے خود فاصلے پیدا کردیئے ہیں ،میرے والدین ایسے نہیں تھے لیکن ہم ایسے ہوگئے ہیں ،ہم خود ایسی راہیں تلاش کررہے ہیں جہاں ہمارے بچے بھٹک رہے ہیں،ا س نقصان کے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔بنا تحقیق چھوٹی سی خبر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے لڑکیوں ہی نہیں لڑکوں کو بھی مستقبل میں مشکل ہوسکتی ہے۔
دنیا: طلباء پر ایسے واقعات کے کیا اثرات پڑتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال: یونیورسٹیوں میں اس طرح کے پروگرام ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ تعلیمی اداروں میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے اصل حقائق معلوم ہوسکیں۔ایسے واقعات نجی جامعات میں بھی ہوتے ہیں لیکن سرکاری جامعات میں زیادہ نمایاں کردیاجاتا ہے ۔ معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ایسے واقعات نسل در نسل ہوتے چلے آرہے ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار کو تباہ کررہے ہیں۔بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔بچوں کے ساتھ والدین کی بھی تربیت کی ضرورت ہے۔یونیورسٹیوں میں آنے والے طلباء بالغ ہوتے ہیں جن کی پہلے سے تربیت ہوچکی ہوتی ہے،بطور ماہر نفسیات یہ بات کہہ سکتی ہوں ہمار ا معاشرہ احساس محرومی کا شکار ہے،ہم محنتی نہیں رہے کاموں میں آسانیاں تلاش کرتے ہیں ۔ بچے محنت نہیں شارٹ کٹ ڈھو نڈتے ہیں۔پڑھائی میں بھی آسانی کو ترجیح دیتے ہیں ۔علم کو ڈگری کے طور پر لیاجارہاہے۔طلباء نے سوال کرنا اور سوال اٹھانا چھوڑ دیاہے۔ہم سوال کرنے پر خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ کہیں شرمندہ نہ ہوجائیں ۔جس معاشرے میں تحقیق اور سوالات کرنے کافن نہیں ہوتاوہ بہتر نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کو بہتر کرنے کیلئے ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔
خیالات اور روئیے بدلنے میں وقت لگتاہے۔ اپنی حقیقت کو چھوڑ دیں گے تو معاشر ہ بہتر نہیں ہوسکتا۔ہم بحیثیت قوم جذباتی ہوگئے ہیں بغیر تحقیق اور معلومات کے فوری طورپر ردعمل دے دیتے ہیں۔واقعات کے اسباب معلوم نہیں کرتے جس کی وجہ سے معاشرے میں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ اپنا مقصد بھول بیٹھے ہیں ۔مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ایسا ماحول بنایا جارہا ہے جس سے امیدیں کم ہوتی جارہی ہیں۔ہم محکوم ہیں وہی کریں گے جو حکم دیا جائے گا۔زندگی روبوٹ کی طرح گزار رہے ہیں ۔نئی نسل میں ناامیدی بہت ہے۔ بات کرنے کا بھی حق نہیں ۔ جب حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں تو ایسے واقعات ہوتے ہیں ۔اس طرح کے فورم اور ٹاک شوز ہوتے رہیں تومعاشرے میں بہتری آسکتی ہے۔
مظہر عباس: پاکستان میں آبادی پر منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی ۔شہر میں 8ہزار کچی آبادیاں ہیں جن میں 60سے 70لاکھ افراد رہتے ہیں ۔بہت تیزی سے آبادی میںاضافہ ہورہا ہے۔والدین بچوںکی تعلیم برداشت نہیں کرپارہے ۔سرکاری اسکولوں اور مدرسوں میں کتنے بچے تعلیم حاصل کریں گے؟،بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہے۔ان آبادیوں میں رہنے والے بچے بغیر تعلیم کے اسی ماحول میں بڑے ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ درمیانہ طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ درمیانے طبقے میں رہنا نہیں چاہتا وہ اوپر جانا چاہتا ہے۔ جب اہلیت پر نوکریاں اور مواقع نہیں ملتے تووہ مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے بعض اوقات نشے کی طرف بھی نکل جاتاہے۔
دنیا:منفی سرگرمیاں روکنے کیلئے کیا اقدامات ہونے چاہیے ؟
ڈاکٹر مانا نوارہ : ہر انسان اپنی سوچ لے کر آتاہے۔آج بچوں کی ترجیحات اور معیار تبدیل ہوگئے ہیں۔قرآن کی آیت کا مفہوم ہے’’اللہ کے جو دوست ہوتے ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم ‘‘جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں ان کے پیچھے خوف یا غم ہوتے ہیں ۔ہمارے والدین اور اساتذہ نے سکھایا ہے کہ علم منزل ہے، تعلیم راستہ ہے اور تربیت اس راستے کو دکھانے والا چراغ ہے۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میںبچے جو تربیت لے کر آرہے ہیں وہ نظر آتی ہے ۔والدین سمجھتے ہیں یونیورسٹی میں داخلہ دلا دیا فیس جمع کرادی اب ہمارا کام ختم ہوگیا۔بدقسمتی سے ہمارے اساتذہ بھی بین الاقوامی اصول وقوانین پر عمل نہیں کرتے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پروجیکٹ تو بہت دیئے جاتے ہیں تربیت نہیں کی جاتی۔کیا سار ی ذمہ داری نظام کی ہے؟،حدیث کا مفہوم ہے ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا‘‘،جب تک علم کی طلب نہیں ہوگی معاشرہ ترقی اور بہتر نہیں ہوگا۔ ہمارے اساتذہ کہتے تھے یونیورسٹی میں وسائل کی کمی ہے لیکن تعلیم آپ کو جتنی چاہیے ملے گی ۔ہم معاشرے کے ٹرینڈ پر چل رہے ہیں کیاہماری اپنی سوچ ختم ہوگئی ہے ؟،ہم خود کو بہتر کرنے پرکام کیوں نہیں کرتے؟۔
دنیا فورم میں فیکلٹی ارکان اور طلبہ وطالبات کے سوالات وتجاویز
دنیافورم کے دوران فیکلٹی ممبران ،اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے سوالات کیئے اور تجاویز بھی دیں ۔شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی پروفیسر ڈاکٹر تہمینہ نے کہا کہ پاکستان کی سرکاری جامعات میں غیرنصابی سرگرمیوں کو سوشل میڈیا پر بے راہ روی میں شمار کیا جاتا ہے کیاا س سے یونیورسٹی کا تشخص خراب اور طلباء کا مستقبل داؤپر نہیں لگ رہا ؟، نجی یونیورسٹیوں کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ ریاست تعلیمی اداروں کے تحفظ اور تشخص بہتر کرنے کیلئے کردار دا کیوں نہیں کرتی؟چین اور دیگرترقی یافتہ ممالک میں ریاسست ان چیزوں کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ہم ساری تربیت والدین پر کیوں ڈال دیتے ہیں کیا ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں ؟۔سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ چین کی تاریخ دیکھیں آپ حیرت زدہ ہوجائیں گے ۔ چین میں سب منشیات کے عادی نوجوان ہوتے تھے۔پوری قوم افیون کی شکار ہوگئی تھی ، ان میں انقلابی سوچ دی گئی ۔عوام نے اتنا بڑا لانگ مارچ کیاجو تاریخی ہے۔اس انقلاب نے چین کو تبدیل کردیا۔سوچنا یہ ہے ہم نے معاشرے کو کیا دیا۔
ریاست تعلیم اور صحت کے شعبے میں وہ ذ مہ دار ی ادا نہیں کررہی جوکرنی چاہیے۔شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے طالب علم ارحم عبداللہ نے کہا کہ یونیورسٹی میں اکثر طلباء کلاسوں کے بعد کسی جگہ جمع ہوکر سگریٹ پیتے ہیں انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔دوستوں سے کہتا ہوں سگریٹ چھوڑ دو کہتے ہیںاب تو عادت بن گئی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ ان چیزو ں کو کنٹرول کیوں نہیں کررہی ؟۔ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ بچے کی تربیت گھر سے مضبوط ہوگی تو ایسے واقعا ت نہیں ہوںگے۔کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ ،ٹیچرز ،طلباء اور والدین کی ہرماہ مشترکہ میٹنگ ہونی چاہیے جس طرح اسکولز میں والدین ٹیچرز میٹنگ ہوتی ہیں ۔ میڈیکل کے طلباء کو بھی مسائل تھے میڈیکل کالج میں تجاویز دیں والدین اور طلباء میں ہر ماہ میٹنگ کی جائے اس سے کئی مسائل حل ہو ئے ۔والدین یونیوسٹی جاکر طلباء کے حوالے سے معلومات رکھیں انہیں چھوڑیں نہیں ۔
بدقسمتی سے آج والدین اور اساتذہ کی ترجیحات بھی تبدیل ہوگئی ہیں۔آج وہ اساتذہ بھی نہیںہیں جو کلاس میں آخری لڑکے کو نام لے کر پکارا کرتے تھے ۔انہیں بچوں کے رویئے ،سرگرمیاںسمیت ساری معلومات ہوتی تھی ۔ہمارا معاشرہ تباہی کی طرف جارہا ہے ہم لوگ کسی کی عزت نہیں کرتے ۔ شعبہ ایم پی اے کی استاد ڈاکٹرغزل خواجہ نے بتایا کہ جامعہ کراچی میںضرورت کے مطابق مختلف کورسز کرائے جاتے ہیں ۔دنیا فورم کے توسط سے تعلیمی اداروں کو پیغام دینا چاہوں گی جامعات کے نصا ب میں والدین ،اساتذہ اور طلباء کے کردار اورذمہ داریوں کے حوالے سے کورسز شامل کئے جائیں تاکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بے راہ روی ختم ہوجائے۔
طالبہ ندا نے کہاکہ بے راہ روی سرکاری اور نجی دونوں یونیورسٹیوں میں پائی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ معاشرے سے اخلاقی اقدار ختم ہوگئے ہیں ؟۔طالب علم معاذ نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے متعلق اسلام کیا کہتاہے؟۔طالبہ مجاد علی نے کہا کہ والدین تربیت کرتے ہیں ہم ان کی تربیت پر ہرجگہ عمل بھی کرتے ہیں لیکن معاشرے کا ماحول بہتر کرنا ہمارے بس میں نہیں۔اس کو بہتر کرنے میں حکومت کردار ادا کیوں نہیں کرتی؟۔طالبہ زینب نعیم نے کہا کہ والدین اور اساتذہ کے درمیان فاصلے ہیں ۔بچوں سے غلطی ہوجائے تو ٹیچر والدین کو بتاتے نہیںہیں۔ طلباء میں ڈر کو کیسے ختم کیا جائے ؟۔طالبہ حفصہ حنیف نے کہا کہ یونیورسٹی میں داخلے کے وقت بہت خوش ہوتے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ اور بڑی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیاہے ۔پڑھا ئی کا اچھا ماحول ملے گا لیکن آنے کے بعد صورت حال دیکھ کر ناامید ہوجاتے ہیں ایسا کیوں ہے؟۔طالبہ عالیہ کنول نے کہا جامعہ کراچی ملک کی اعلیٰ اور بڑی درسگا ہ ،نصاب میں وہ چیزیں پڑھائی جارہی ہیں جو عملی میدان میں موجود نہیں ان کی اہمیت ختم ہوگئی ہے لیکن پھربھی پڑھایاجارہا ہے،ہم چاہتے ہیں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کریں جس طرح دیگر ترقی یافتہ ممالک کررہے ہیں ۔ پرانی چیزیں پڑھ کر کیسے ترقی کرسکتے ہیں ؟ یہ چیزیں بہتر کیوں نہیں ہورہیں ؟۔
سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے تاکہ صحیح فیصلے کرکے معاشرے اور اپنے معاملات کو بہتر کرے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ والدین ،اساتذہ اور میڈیا معاشرے کو بہتر کرنے میں کردار ادا کرے۔ معاشرے کے بگاڑ کو درست کرنے کے سب سے پہلی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔پاکستان میں 1947 سے قائداعظم کی رحلت کے بعد کوئی لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا۔75سال سے سمت کا تعین ہی نہیں کرپائے۔ہر کوئی اپنی سمت میںجارہاہے۔سمت ریاست طے کرتی ہے۔ہم آج تک اسی الجھاؤ کا شکار ہیں کہ کون سا نظام چلائیں ۔قانون کی بالادستی نہیں ہیں۔اسکولوںکے نصاب میں جنگوں کے واقعات اور جنگی علامات پڑھائی جاتی ہیں،ان ہیرو ز کے متعلق نہیں بتایا جاتا جنہوں میں معاشرے کی بہتری کے لئے بہت کام کیا اور معاشرہ تبدیل کردیا ۔عبدالستار ایدھی ،ادیب رضوی او ر بھی بہت نام ہیں جن کے کارنامے بتائے جاسکتے ہیں ۔ریاست اور معاشرے نے ایسے لوگوں کی قدر نہیں کی۔
ڈاکٹر قیصرسجاد نے کہا کہ پاکستانی عوام بد قسمت ہیں جسے آج تک قائد اعظم کے علاوہ کوئی مخلص لیڈ ر نہیں ملا ۔لیڈر وہ ہوتاہے جس نے عوام کی خاطر کام کیئے ہوں۔آج اسپتالوں میں واش روم کی حالت دیکھ لیں فوری واپس آجائیں گے۔پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا۔یہ چیزیں کون بہتر کرے گا۔معاشرے کی بہتری کیلئے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتاہے۔عوام وہی دیکھتے ہیںجو میڈیا دکھاتاہے۔شعبہ ایم پی اے کی پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال نے کہا کہ قانون پرعمل کرانا ریاست کا کام ہے لیکن سڑک پر مخالف سمت سے جا کر اور ہیلمٹ نہ پہن کر قانون کو توڑنے والے ہم ہی ہوتے ہیں ،ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی سربراہ ڈاکٹرصائمہ اختر نے کہا ملک کی دیگر جامعات کی نسبت کراچی یونیورسٹی میں کوئی واقعہ یا غلط بات ہوتی ہے تواس کو پھیلنے میں مشکل ہوتی ہے جو ظاہر کرتا ہے یہاں ابھی شعور زندہ ہے۔