پاکستان کودیانتدار اور باصلاحیت لیڈر چاہیے، عوام کردار اداکریں

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :محمد مہدی لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء: ڈاکٹر عصمت آراء،چیئرپرسن شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی۔ڈاکٹر معیز خان ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی ۔ڈاکٹر معروف بن رئوف ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تعلیم اور صدر سوسائٹی فار سوشل سائنسز آف ریسرچ ایسوسی ایشن ۔ نورالعارفین صدیقی ، معروف ٹی وی اینکر ۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے طلباء زیان احمد خان اور جویریہ بنت شاہدطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

لیڈر میں برداشت اورٹیم بنانے کی صلاحیت ہونی چاہیے:  ڈاکٹر عصمت آراء،لیڈر کی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں بہتر ہوتی ہیں:  ڈاکٹرمعروف بن رئوف

عوام جس جماعت کے ووٹرہیں پہلے اس پر تنقید کریں:  ڈاکٹرمعیز خان، عوام میں اجتماعی شعورآنے تک اچھے لیڈر نہیں آئیں گے:  نورالعارفین صدیقی

 

 موضوع: ’’پاکستان کو کیسا لیڈر چاہیے؟‘‘

 

آج ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح بہت یاد آرہے ہیں،اس وقت ملک کو جناح جیسے بردبار،قابل اور دوراندیش رہنما کی اشد ضرورت ہے اور یہی وجہ تھی کہ میں نے جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی چیئرپرسن ڈاکٹرعصمت آراء سے ان کے طلباء کے ساتھ دنیا فورم کی درخواست کی۔ڈاکٹرعصمت آراء اور شعبہ کی لیکچرار مہرا لنساء نے بھرپور تعاون کرتے ہوئے دنیا فورم سجایا۔شعبہ ابلاغ عامہ کے ہال میں ہونے والے دنیا فورم کا مکمل انتظام نوجوانوں نے کیا ،طلبہ وطالبات نے فورم کیلئے مہم چلائی اوردیگر انتظامات کئے جبکہ فورم والے دن بھی مسلسل متحرک رہے۔میں سوچنے لگا کہ اس ملک کے پاس لیڈرز کی تو کوئی کمی نہیں بس اگر کمی ہے تو ان نوجوانوں کو وہ پلیٹ فارم دینے کی جس کے ذریعے یہ ملک وقوم کو لیڈ کرسکیں۔دنیا فورم میں جہاں مہمانوں نے بہت سیرحاصل گفتگو کی وہیں خاص طور پر شعبہ ابلاغ عامہ کے طلباء جویریہ بنت شاہد اور زیان احمد خان سمیت دیگر نوجوانوں کی گفتگو وقت کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے نہایت اہم ہے۔

میری کوشش رہتی ہے کہ نوجوانوں کو زیادہ موقع دیا جائے کیونکہ ان سے ہی ملک کی ترقی ہے اور اکثر دنیا فورم میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ نوجوان بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ملک کے لئے پریشان رہتے ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں۔دنیافورم میں مہمانوں اور نوجوانوں نے ایک بات پر زور دیا کہ عوام خود کو بدلیں ،رہنما منتخب کرتے ہوئے دیانت اور امانت کو مدنظر رکھیں،خود میدان میں اتریں، متوسط اور غریب طبقے سے لوگ باہر نکلیں اور ایوانوں تک پہنچیں ۔سیاسی جماعتیں اپنے بچوں اور رشتہ داروں کے بجائے اہل افراد کو آگے لائیں،عوام ووٹ ڈالنے سے پہلے ہزار بار سوچیں کیونکہ ان کے ووٹ سے ملک کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔بہرحال دنیا فورم کی رپورٹ پڑھیں اور ہمیں آگاہ کریں کہ اس سے کیا فائدہ ہوا،کیا اور ہونا چاہیے اور مزید کون سے ایسے عنوانات اور مسائل ہوسکتے ہیں جن پر فورم کی ضرورت ہے،آپ کی رائے ہمارے لئے بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔شکریہ

(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹرفورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ: ای میل:  mustafa.habib@dunya.com.p k  

فون اور واٹس ایپ:0092-3444473215,0092-3212699629      

  ہمارے لیڈروں کے پیچھے ان کے بچے نظر آتے ہیں اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے پیچھے اچھے افرادتیارکرے۔اس کے سامنے اچھی سوچ اور نظریہ ہوتا ہے،صدر سوسائٹی فار سوشل سائنسز آف ریسرچ ایسوسی ایشن

 اچھا لیڈر وہ ہوتاہے جو اپنے ووٹرز کا نہیں قوم کا سپورٹرہو۔اچھا لیڈر گالی اور الزامات لگانے والا نہیں عزت اور اصلاح کرنے والا ہوتا ہے جب تک ہمارا کردار بہتر نہیں ہوگا اچھالیڈر نہیں آئے گا،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ 

رہنماکی ٹیم بھی مخلص،ایماندار اور قابل ہونی چاہیے۔ لیڈر کا ماضی کرپشن اور بدعنوانی میں ہے تو ملک کا بھی یہی حال ہوگا ۔لیڈرکی ٹیم سوچنے او ر اچھا مشورہ دینے والی ہونی چاہیے،،چیئرپرسن شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی

 جب تک ہم اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی نہیں لائیں گے ،اپنے لیڈر کی کرپشن کو کرپشن نہیں مانیں گے حالات بہتر نہیں ہوں گے، سیاسی رہنما مہنگائی پر احتجاج نہیں کرتے،سب کو الیکشن کی تاریخ کی فکر ہے،سینئر اینکر

 اچھی لیڈر شپ کیلئے قابل اور ایماندار افراد کو آگے آناچاہیے۔لیڈر اپنی ٹیم سے قابل افراد کو آگے لائے تاکہ ان کی ذہانت اور قابلیت سے ملکی مفاد میں کام لیا جائے۔درمیانہ طبقے کو اوپر آناچاہیے،طالب علم زیان احمد خان

  پہلے طلباء کیلئے پلیٹ فارم تھا جس سے اچھے طلباء لیڈر سامنے آ تے تھے، طلباء کو اچھا لیڈر بننے کیلئے یونین پلیٹ فارم ملنا چاہیے جب تک یہ نہیں ہوگا طالب علم ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکتا،طالبہ جویریہ بنت شاہد

 دنیا: لیڈر شپ کیاہوتی ہے؟

 ڈاکٹر عصمت آراء: دنیا فورم کا شکریہ ادا کروں گی جس نے جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طلباء کیلئے ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جو طلباء باقاعدہ اس کو پڑھتے ہیں اس سے طلباء کی حوصلہ افزائی اور مستقبل میں رہنمائی ہوگی ۔پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ ملک کی باگ دوڑ بھی انہیں ہی نے سنبھالنی ہیں ان کی صحیح تربیت اور رہنمائی ہوگی تو ملک ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔ سب سے بہتر لیڈر وہی ہوتا ہے جوصادق اور امین ہو۔لیڈر کا ماضی پاک دامن ہونا چاہیے،لیڈرکے پاس پورا ملک امانت ہوتا ہے ،یہ مخلص اورایماندار ہوگا تو ملک میں عدل و انصاف ہوگا اور ملک ترقی کرے گا۔ملک کو چلانے کیلئے رہنماکی ٹیم بھی مخلص،ایماندار اور قابل ہونی چاہیے۔ اگر لیڈر کا ماضی صحیح نہیں ،کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث ہے تو ملک کا بھی یہی حال ہوگا جیسی اس کی سوچ ہوگی۔ لیڈر کے پاس سوچنے او ر اچھا مشورے دینے والے افراد ہو نے چاہییں۔

لیڈر میں دوسروں کو سننے، برداشت اور بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہو،حضور ﷺ باہمی مشاورت سے کام کرتے تھے ہمیں بھی نبی اکرمﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔رہنما کا ماضی بے داغ ہونا چاہیے ۔امریکا میں بل کلنٹن کے اسکینڈل کا معاملہ سامنے آیا تو ان کوسب کے سامنے معافی مانگنی پڑی ۔وہ لوگ اپنے لیڈر کا ماضی بے داغ دیکھنا چا ہتے ہیں ۔آج ہمارے رہنمائوں کا کیا حال وہ سب کے سامنے ہے ۔لیڈرٹیم بناتا اور اس کو لے کرچلتاہے۔ہم صرف میڈیا ہی نہیں پوری زندگی کے حوالے سے اخلاقیات او رادب کی آگہی دیتے ہیں۔آج نوجوانوں کے پاس سوشل میڈیا ہے اسے مثبت استعما ل کیا جائے تو معاشرے میں بہتری آسکتی ہے،نوجوانوں میں بہت ٹیلنٹ او ر جذبہ ہے صرف ان کو صحیح راستہ دکھانے کی ضرورت ہے۔صبر محنت او رلگن کیساتھ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے کام کریں کامیابی آپ کے قدم چومے گی ۔

دنیا:لیڈر کا کردارکیسا ہوناچاہیے تربیت کون کرے گا؟

 ڈاکٹر معروف بن رؤف : لیڈر شپ مکمل پیکیج ہوتاہے،جس میں ساری چیزیں ہوتی ہیں تمام مسائل کا حل اس لیڈر شپ میں ہونا چاہیے  ۔ حضورﷺ ہمارے بہترین آئیڈیل ہیں، جن کی ز ندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ہماری ذاتی زندگی اجتماعی زندگی سے مختلف ہوتی ہے ہم جو نظر آتے ہیں وہ ہوتے نہیں ہیں۔اچھے لیڈر کی انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگیاں بہتر ہوتی ہیں۔ ہمارے لیڈروں کے پیچھے ان کے بچے نظر آتے ہیں اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے پیچھے اچھے افرادتیارکرتا ہے۔اس کے سامنے اچھی سوچ اور نظریہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اپنی قوم کی بہتری کیلئے منصوبہ بندی کرتا ہے۔

دنیا : اچھے اور ایماندار رہنما سامنے کیوں نہیں آتے؟

معروف بن رؤف:جو افراد صلاحیت رکھتے ہوں ان کو آگے آنا چاہیے، ملک میں لیڈر منتخب کرنے کا عجیب ہی انداز ہوتاہے ، بڑی شخصیت ہو،انتخاب جیتتا آرہا ہو،اثرو رسوخ ہونا چاہیے بولنا جانتا ہو اسے لیتے ہیں ،چاہے وہ اس کا ماضی خراب او ر کرپٹ ہو ،جس جماعت کو ووٹ دیں اس کا احتساب بھی کریں اسی پر تنقید کریں تاکہ وہ سیدھے راستے پر چلے،میڈیا اور نظام تعلیم عوام کو شعور دینے میں ناکام رہا ہے ،سیاستدانوں کو عوام کے مسائل کا ادراک ہی نہیں،لیڈرز کا احتساب ہوناچاہیے ،بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر بھی احتساب کاعمل نہیں ہوتا،اچھالیڈر بننے کیلئے صارفین سوسائٹی بنائیں،بحیثیت مسلمان اچھے لیڈر میں صالحت ااور صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔

دنیا: پاکستان کا لیڈر کیسا ہونا چاہیے؟

ڈاکٹر معیز خان : لیڈر قوم کا آئینہ ہوتاہے، لیڈرباہر سے نہیں آتے ہم میں سے ہی ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کیسے بہتر 

ہوگا۔ہم تنقید ان پر کرتے ہیں جن کے ووٹر نہیں ہیں ہماری تنقید ان پر ہونی چاہیے جن کے ہم ووٹر ہیں، اچھا سیاسی نظام وہ ہوتا ہے جہاں لیڈروں پر کھل کر تنقید کی جاسکے اسی سے سیاسی نظام بھی مضبوط ہوتاہے۔ہم دوسرے لیڈروں پر فوری تنقید کردیتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کی خامیوں پر خاموش رہتے ہیں بلکہ دفاع کرتے ہیں ایسے عمل سے جمہوری نظام کمزور اور حالات بہتر نہیں ہوتے ۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما منتخب ہونے کے بعد صرف اپنے ووٹرز کے نمائندے نہیں رہتے بلکہ وہ سارے عوام کے نمائندے ہوجاتے ہیں ۔ جب وزیراعظم بنتے ہیں تو صرف اپنے ووٹرز کے نہیں پورے ملک کے وزیراعظم ہوتے ہیں۔ قائد اعظم رول ماڈل تو ہیں لیکن ہم ان کے قول و فعل پر عمل نہیں کرتے ۔میرا تعلق تاریخ کے شعبے سے ہے۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتاہے ،قائداعظم محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے ۔پاکستان بننے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی دو شاخیں ہوگئیں ۔ایک انڈیامیں رہ گئی اور دوسری پاکستان میں آل پاکستان مسلم لیگ بنی جس کے قائد اعظم صدر تھے اور گورنر جنرل پاکستان بھی بنے ۔

قائد اعظم نے فوری یہ بات کہی کہ میں مزید مسلم لیگ پاکستان کا صدر نہیں رہ سکتا کیونکہ میں گورنر جنرل پاکستان ہوں۔مجھے اس عہدے سے ہٹاؤ،اورفروری 1948 میں پاکستان مسلم لیگ کا پہلا اجلاس ہوتاہے جس میں سب نے متفق ہوکر کہا آپ استعفیٰ نہ دیں ۔قائداعظم نے کہا یہ ممکن نہیں میں پاکستان مسلم لیگ کا صدر رہوں میں عوام کا نمائندہ ہوں پاکستان مسلم لیگ کا نہیں ہوں،ہم جب تک عمل نہیں دیکھیں گے پاکستان میں بہتری نہیں آئے گی۔ملک میں لیڈر شپ کا نہیں عوام کا قصور ہے ۔لیڈر ایسا ہونا چاہیے جوقوم اور ملک کا سوچے ۔اچھا لیڈر وہ ہوتاہے جو اپنے سپورٹر کا نہیں بلکہ قوم کا سپورٹرہو۔اچھا لیڈر گالی اور الزامات لگانے والا نہیں عزت اور اصلاح کرنے والا ہوتا ہے جب تک ہمارا کردار بہتر نہیں ہوگا اچھالیڈر نہیں آئے گا۔فورم کے توسط سے طالب علموں سے درخواست کروں گا آپ جس کے بھی ووٹر یا نمائندے ہیں ان سے بات کریں کہ ہم پارٹی کے منشور اور صحیح عمل کے ساتھ ہیں ہر عمل کے ساتھ نہیں ہیں،ایسا ممکن نہیں جو آپ کا لیڈر کررہاہے وہ ٹھیک ہے،یہ رویئے تمام جماعتوں میں موجو د ہیں۔ہمار ے سیاسی شعور میں یہ بات نہیں آرہی کہ سیاسی نظام بہتر کرنے کیلئے سوال و جواب کرنے ہوں گے۔اپنی اصلاح اور احتسا ب کریں گے تو  معاشرہ اور نظام بہتر ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران اپنے ووٹر کو تو سپورٹ کرتے ہیں لیکن حکومت میں آکر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ صرف اپنے ووٹر کے نہیں پوری قوم کے نمائندہ ہیں،یہ رویئے ترقی میں رکاوٹ ہیں۔

دنیا: نوجوان اچھے لیڈر کیسے بن سکتے ہیں؟

سینئر اینکرنور العارفین صدیقی :

’’ ہم اسیروں کو جو کہتے ہو رہائی ہوگی۔۔یہ خبر جھوٹ ہے دشمن نے اڑائی ہوگی۔ہم غریبوں کاامیروں پر ابھی تکیہ ہے۔ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہوگی‘‘۔

جیسی قوم ہے ویسے لیڈر آرہے ہیں ،ہمیں گاڑی پارک کرنی نہیں آئی ،کسی کو غلط گاڑی پارک کرنے پرکچھ کہہ دو تو جواب میں ہمیں غلط ثابت کرنے پر تل جاتاہے اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔پاکستانی سیاست اس جگہ سے ہوتی ہے جہاں کہاجاتا ہے سیاست نہیں کرنی ہے۔ملک میں سیاست اور صحافت اس وقت کی جاتی ہے جب اجازت مل جائے۔ کارروائی اس بات پرکی جاتی ہے کہ الیکشن اس تاریخ کو کرانے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی ،آٹا،چینی ،تیل سبزیاں اور پیٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے پر کارروائی نہیں ہوتی۔اس پر ہمارے لیڈر شور اور احتجاج نہیں کرتے۔جیسے ہمارے رویئے ہیں ویسے لیڈر مل رہے ہیں۔ہر آنے والا لیڈر پچھلے لیڈر کو چو ر اور کرپٹ کہہ رہاہوتا ہے ۔ المیہ ہے اپنے لیڈر کی کرپشن کو اس کا حق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،عوام اپنے رویوں کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں۔ رہنماؤں کو عوام کے مسائل سے غرض نہیں صرف ا پنی سیاست کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں،جب تک عوام میں اجتماعی شعور نہیں آئے گااچھے لیڈر نہیں آئیں گے۔

ہمارا کردار اور عمل بہتر نہیں ہوگا اچھے لیڈر اور معاشرہ بہتر نہیں ہوگا۔جب تک اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی نہیں لائیں گے، اپنے لیڈر کی کرپشن کو کرپشن نہیں مانیں گے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔معاشرے میں حیاء اور شرم ختم ہوتی جارہی ہے،جو لوگ صحافت میں قربانی دیتے ہیں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دنیا فورم میں نوجوان طالب علم زیان احمدخان اور طالبہ جویریہ بنت شاہد نے طلباء کی نمائندگی کرتے ہوئے گفتگو کی ۔

 طالب علم زیان احمد خان نے کہا کہ رہنماؤں کی کرپشن پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا،عوام کو ان کے خلاف آواز اٹھانے کا شعور او ر آگہی نہیں ہوتی جبکہ دیگرممالک میں عوام باقاعدہ کرپٹ لوگوں کے خلا ف احتجاج کرتے ہیں۔اچھی لیڈر شپ کیلئے قابل اور ایماندار افراد کو آگے آناچاہیے۔لیڈر اپنی ٹیم سے قابل افراد کو آگے لائے تاکہ ان کی ذہانت اور قابلیت سے ملکی مفاد میں فائدہ اٹھایا جائے۔درمیانہ طبقے کو اوپر آناچاہیے ۔ تعلیمی سیکٹر سے لیڈر شپ پیدا ہونی چاہیے۔

 دنیا: طالبات سے لیڈر شپ سامنے کیوں نہیں آرہی کیا وجوہات ہیں ؟ 

طالبہ جویریہ بنت شاہد : لیڈر شپ میں اہم کردار ادا نہ کرنے کی مختلف وجوہات ہیں،طلباء کو متحرک رکھنے اور صلاحیتوں کو استعمال کرنے کیلئے پلیٹ فارم مہیا نہیں کیا جارہاہے۔ یہ پلیٹ فارم پہلے تھا جس سے یونیورسٹی اور کالجوں سے اچھے طلباء لیڈر سامنے آئے جو آج بھی حکومتی اور نجی اداروں میں قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ذمہ داری نبھا رہے ہیں ۔فورم کے توسط سے درخواست ہے طلباء کو اچھا لیڈر بننے کیلئے یونین پلیٹ فارم ملنا چاہیے جب تک یہ نہیں ہوگا طالب علم ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکتا۔لیڈر کی شخصیت ایسی ہو جس پر لوگ تنقید نہ کریں،اس کی شخصیت متاثر کن ہونی چاہیے تاکہ لوگ اس کی بات مانیں اوراسے عوام کو ساتھ لے کر چلنا آتاہو او ر صحیح فیصلہ کرنے کی قوت اور صلاحیت ہونی چاہیے۔قائد اعظم کی بات کریں تو ان کی شخصیت ایسی تھی ان کو مسلمان اور ہندو دونوں پسند کرتے تھے جس کی وجہ ان کا کردار اور گفتار پر اثرتھا،لیڈر کا ایک نظریہ ہونا چاہیے جس پر وہ عوام کو لے کرچلے۔

دنیا: تعلیمی نظام لیڈر شپ پیدا کیوں نہیں کرپارہا؟

ڈاکٹرمعروف بن رؤف: تعلیمی نظام میں ایجوکیشن کو تما م مضامین کی ماں کہتاہوں ،ایجوکیشن سے ہی افراد نکلتے ہیں، تعلیمی نصاب میں کچھ خامیاں ہیں ہم ایک کتاب میں محمد بن قاسم کو ہیرو اور ایک کتاب میں زیر و بتاتے ہیں ،جب ایک ہی کلاس میں دو مکتبہ فکر نکلیں گے توآگے جاکر ہماری قوم کا کیاحال ہوگا؟،تعلیمی نظام وہ کردار ادا نہیں کررہا جو کرنا چاہیے،جب تک ہم میں شعور نہیں ہوگا ہم تعلیمی نظام اور معاشرے کو بہتر نہیں کرسکتے ،طلباء یونیورسٹی میں رہتے ہوئے یاجاکربھی شعور نہیں لاسکے توانہیں سوچنا چاہیے وہ کہاں کھڑے ہیں۔جامعات ہمیں شعور کے ساتھ معاشرے میں رہنے کے طریقے بھی سکھاتی ہے۔

دنیا فورم میں طلبہ وطالبات کے سوالات اور تجایز

فورم کے دوران طلباء سے سوال و جواب اور تجاویزکا سیشن شروع ہوا۔شعبہ ابلاغ عامہ کی طالبہ طیبہ سعید نے کہا کہ ہمارے لیڈروں کو عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے زمینی حقائق معلوم ہونے چاہیں۔انتخابات میں حصہ تو لیتے ہیں جہاں سے کھڑے ہوتے ہیں انہیں ان علاقوں کے مسائل معلوم نہیں ہوتے ۔انتخابات کے دوران تقاریر میں جھوٹے وعدے کر کے چلے جاتے ہیں۔ان لیڈروں کو اپنے گفتار اور کردار پر غور کرناچاہیے ۔ وہی بات کریں جو کرسکیں ۔بڑی گاڑیوں میں رہنے والے لیڈروں کو غریب عوام کے مسائل سے دلچسپی نہیں جب تک علاقوں سے غریب لیڈر نہیں اٹھیں گے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ہم لوگ خود الیکشن کے وقت لیڈر کو منتخب کرتے ہیں او ر بعد میں شکایات کرتے ہیں،ووٹ دیتے وقت فیصلہ کرنا ہے کہ کس کو لیڈر منتخب کرنا ہے جب تک ووٹ کی طاقت کا صحیح استعمال نہیں کریں گے معاشرے میں اچھے لیڈر نہیں آئیں گے۔شعبہ ابلاغ عامہ کی طالبہ فضاء نے کہا کہ جب تک خاموش رہیں گے اورر حق کیلئے آواز نہیں اٹھائیں گے ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا، لیڈروں کو عوام کی بے بسی اور بے حسی کا انداز ہ نہیں اسی لیے مسائل حل نہیں کرتے ۔

مسائل کے حل کیلئے عوام کو خود کو بدلنا اور نکلنا ہوگا۔عوام لیڈر منتخب کرنے سے پہلے دیکھیں کہ یہ پارٹی اس قابل ہے کہ اس کو ووٹ دیا جائے فیصلہ عوا م کے ہاتھ میں ہے۔شعبہ کرمنالوجی کی طالبہ ثوبیہ اخترخان نے کہا کہ لیڈروں او ر معاشرے کو تبدیل کرنے سے پہلے ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہوگا تب ہی بہتری لاسکتے ہیں ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے ۔دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔عوام متحد نہیں اسلئے لیڈر بھی اچھے نہیں آرہے ہیں۔شعبہ کرمنالوجی کے طالب علم محمد عمر خان نے کہا کہ ہم امید تو کرتے ہیں ہمیں عمر بن خطاب جیسا لیڈر چاہیے لیکن ان کے دورکے عوام بننے کو تیار نہیں ،ہم خود چورہیں لیکن لیڈر ستھرا چاہیے ۔ پاکستان کیلئے آئیڈیل لیڈر وہی ہوسکتا ہے جو نیچے سے اوپر آئے وہی غریبوں کے مسائل حل کرسکتاہے ۔لیڈر کیلئے سب سے اہم ریاست پاکستان مقدم ہونی چاہیے ۔طالبہ سیدہ تحریم خالق نے کہا کہ ہم ہیں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان لیکن پسند مغربی ثقافت کو کرتے ہیں۔

پاکستان میں غربت کی زندگی گزار نے والوں کی ایک تعداد ہے،ان کی سوچیں بہت محدود ہوتی ہیں ایسے لوگ انقلابی اقدامات کی طرف نہیں جاتے ۔درمیانہ طبقہ کسی حد تک معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کی مددکرسکتاہے۔ اعلیٰ کلاس کے لوگ اتنی آسائشوں میں ہوتے ہیں انہیں معاشرے کے وہ مسائل درپیش ہوتے ہیں نہ ہی ان کو فکر ہوتی ہے وہ اپنی زندگی میں مگن ہوتے ہیں ۔معاشرے کو تبدیل صرف متوسط طبقے میں رہنے والا کرسکتاہے۔شعبہ پولیٹیکل سائنس کی طالبہ عروبہ اسد نے کہا کہ بچوں کی ذہنی تربیت اسکولوں سے شروع ہوتی ہے ۔انسان اسوقت سے سوچنااور سمجھنا شروع کرتاہے،نویں اور میٹر ک کی کلاسوں میں بچوں کی ذہنی تربیت نہیں ہوتی ۔نصاب میں نظم کی صحیح ترتیب نہیں ہوتی جس سے ذہنی تربیت ہو۔علامہ اقبال کی شاعری کے بجائے غالب کی شاعری پڑھائی جارہی ہے۔رومی کے بجائے میر تقی میر کو پڑھایا جارہا ہے،تعلیمی نظام میں انتخاب کا معیار صحیح نہیں ہے۔جب تک یہ چیزیں درست نہیں ہوں گی ہماری ذہنی تربیت نہیں ہوسکتی ۔شعبہ پولیٹیکل سائنس کے طالب علم کاظم قریشی نے کہا کہ ملکی فیصلے حکمران نہیں بند کمروں میں موجود طاقتیں کرتی ہیں ۔ملک میں بہتری صرف جمہور ی نظا م سے ہی آتی ہے اس کو طاقتور کیوں نہیں بنایا جاتا؟۔شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم عبدالصمد نے کہا کہ ہم کہتے ہیں اچھا لیڈر سیاست سے ہی آتاہے لیکن معاشرے میں سیاست کوبہت برا سمجھا جاتا ہے والدین اور گھر والے نہیں چاہتے ہم سیاست میں قدم رکھیں بلکہ دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے،اس صورت حال میں پاکستان کو اچھا لیڈر کیسے ملے گا؟۔

شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم عبدالولی نے کہا کہ اچھے لیڈر کیلئے سب سے پہلے خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔طالبہ شمائلہ خادم حسین نے کہا کہ موضوع ہے پاکستان کوکیسالیڈر چاہیے ،پاکستان میں موجودکمرے میں چند لوگ نہیں آتے باہر موجود لوگ بھی پاکستان کا حصہ ہیں،وہ علاقے بھی آتے ہیں جو درمیانہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،ہمیں ان کی سوچ کے متعلق بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انہیں پاکستان کا کیسا لیڈر چاہیے؟۔ایک سروے کے دوران کچھ خواتین سے بات ہوئی ان سے پوچھا الیکشن میں کس کو ووٹ دی گے انہوں نے کہاکہ جوہمیں ماہانہ خرچے کے پیسے دیتے ہیں ہم انہی کو ووٹ دیں گے۔ان خواتین نے ووٹ دینے والے کی صداقت اوردیانت نہیں دیکھی بس پیسے ملنے پر ووٹ دے رہے ہیں۔ان کی نظر میں پاکستان کو ایسا لیڈر چاہیے جو ان کو پیسے دے۔کچھ خواتین نے کہا ہمیں دوسری سیاسی جماعت سے پیسے ملتے ہیں ہم ان کو ووٹ دیں گے۔ ایسے فورم ان لوگوں کے درمیان بھی ہونے چا ہئیں تاکہ انہیں ووٹ کامقصد معلوم ہواو رسیاسی شعور میں اضافہ ہو کہ ہمیں کیسا لیڈر چاہیے۔پورے پاکستان کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کیسا لیڈ ر چاہیے۔’’ خودبخود ٹوٹ کر گرتی نہیں زنجیر کبھی ۔۔بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیرکبھی ‘‘۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم دانیال صدیقی نے کہا کہ جامعات سیاست کی نرسریاں ہوتی ہیں ان کو سیاسی لیڈر لانا اور سیاست کرنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ ملک کی باگ دوڑاچھے طریقے سے سنبھال سکیں،ملک میں وکلاء ،صحافی ،ڈاکٹر،انجینئرز سب کوسیاست کرنے کی آزادی ہے لیکن ملک کا باشعور طبقہ طلباء کوسیاست کی اجازت نہیں۔

طلباء کو بھی اظہار رائے کا اختیار ہونا چاہیے۔  طالب علم رحمان صدیقی نے کہا کہ لیڈر کیسے بن سکتے ہیں ؟جو بھی بننے کی کوشش کرتا ہے اسے دھمکیاں ملتی ہیں او ر کئی تو علاقے چھوڑ کر چلے گئے ہم کیسے لیڈر بنیں ؟۔شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم شاہ زیب شیخ نے کہا کہ غلطیاں ہم میں موجود ہیںہم نظام کو فالو نہیں کرتے۔ سگنل بند ہونے پر نہیں رکتے ۔ہمارا ووٹ بریانی کے ایک ڈبے پر بک جاتا ہے۔قصور ہمارا ہے نظام بہتر کرنے کیلئے اپنی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑرہا ہے یہاں تعلیم بھی لوگوں کونہیں بدل رہی ۔خودکو بدلنے کیلئے کیا کریں؟۔ طالب علم وہاب نے کہا ہمیں لیڈر کو اپنی شخصیت میں دیکھنا چاہیے، حقیقت میں پاکستان کو کیسا نہیں بلکہ ابھی تو لیڈر چاہیے۔طالبہ شاہینہ نے کہاکہ لیڈر شپ سب کچھ نہیں ہوتی اور نہ ہی لیڈر سب کچھ کر سکتا ہے؟ہرشخص سے اس کے متعلق سوال کیا جائیگا، دوسروں پر تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے ،ہم مغرب پر بہت تنقید کرتے ہیں لیکن خود اسلام کو کتنا فالو کررہے ہیں ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ مسلمان سے پہلے انسانیت ضروری ہے لگتا آج ہم میں انسانیت مرچکی ہے،ہمارے سامنے کوئی بھوک سے مرجائے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔پڑوسیوں کے حالات کا معلوم نہیں ہوتا،میرے گھر میں کھانا آرہا ہے بس کافی ہے۔کوئی بھوکا سوئے مجھے فرق نہیں پڑتا۔ ہم کس معاشرے میںرہ رہے ہیں جہاں دوسروں کا خیال اور انسانیت نظر نہیں آتی۔ہمیں ان چیزوں پر بھی غورکرناچاہیے۔ 

طلباء کی گفتگو کے بعد شعبہ ابلاغ عامہ کی چیئرپرسن ڈاکٹر عصمت آراء نے کہا کہ تعلیمی نظام میں لیڈر شپ کے حوالے سے آگہی نہیں دی جاتی ،جب اچھالیڈر نہیں ہوگا تو جمہوری نظام نہیں چل سکتا۔شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معیزخان نے کہا کہ عوام لیڈر کو منتخب کرتے ہیں،اچھا لیڈر قوم سے مخلص اور اپنے ووٹر کا سپورٹر ہوتاہے۔ تعلیمی نظام میں شہری کو باشعور بنانے کا نظام نہیں ۔ طالب علم سب کچھ بن رہے ہیں لیکن با شعور نہیں بن رہے۔ہمارے نظام میں اخلاقیات، ادب نہیں اور نہ ہی انسانیت پڑھائی جاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔