سوء ادب :قبرستان میں

ایک شخص قبرستان میں سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک آدمی تین قبروں کے سرہانے اداس شکل بنائے بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے اس سے پوچھا ’’یہ کس کی قبریں ہیں ؟‘‘۔’’یہ میری تین بیویوں کی قبریں ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ۔
ایک شخص قبرستان میں سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک آدمی تین قبروں کے سرہانے اداس شکل بنائے بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے اس سے پوچھا ’’یہ کس کی قبریں ہیں ؟‘‘۔’’یہ میری تین بیویوں کی قبریں ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ۔
’’ان کا انتقال کیسے ہوا ؟‘‘ اس نے دوبارہ پوچھا۔ ’’پہلی نے زہر کھا لیا تھا‘‘ اس نے جواب دیا ۔’’اور دوسری ؟‘‘ اس نے پھر پوچھا ۔’’اس نے بھی زہر کھا لیا تھا‘‘۔ پھر پوچھا ’’اور تیسری ؟‘‘ اس نے پھر پوچھا ’’اس نے زہر کھانے سے انکار کر دیا تھا اور اس کا انتقال سر میں ڈنڈا لگنے سے ہوا تھا‘‘ اس نے جواب دیا ۔
٭٭٭
ایک بوڑھا شام کے وقت قبرستان میں سے گزر رہا تھا کہ اس کا پاوں رپٹا اور وہ ایک بیٹھی ہوئی قبر کے بڑے سے گڑھے میں جا گرا، اس نے باہر نکلنے کی بہت کوشش کی اور ہاتھ پاؤں مارے لیکن وہ باہر نکلنے میں کامیاب نہ ہوا۔
شام گہری ہو رہی تھی اور سردی بھی زور کر رہی تھی اتنے میں اس باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی تو وہ پکار کر بولا :’’کوئی ہے جو مجھے باہر نکالے ؟ سردی سے میرا برا حال ہو رہا ہے‘‘
جس پر جانے والے نے جاتے جاتے یہ جواب دیا :’’سردی سے تمہارا برا حال تو ہونا ہی تھا ، تم پر کسی نے مٹی جو نہیں ڈالی‘‘
کشورِ اطالیہ کی بہار
(اٹلی کا سفر نامہ)
ڈائریکٹر ادارہ تالیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی یہ کتاب ادارہ تالیف و ترجمہ ، پنجاب یونیورسٹی لاہور پاکستان اور نیپلز یونیورسٹی اٹلی کے اشتراک سے شائع کی گئی ہے۔
انتساب: بلبلِ بستانِ فصاحت جناب احمد جاوید کے نام ہے۔ ابتداء عرضِ مسافر کے عنوان سے کی گئی ہے جبکہ پیش لفظ ریکٹر نیپلز یونیورسٹی اٹلی اور دیباچہ اطالوی سفیر نے لکھا ہے چونکہ مصنف ایک عمدہ شاعر بھی ہیں دید گاہِ شاعر کے عنوان سے اٹلی ، فلورنس نیپلز اور ہالاینڈ کا ذکر مختصر نظموں کی صورت میں کیا ہے۔ اس کے بعد ایک طویل فہرست ہے جس میں اطالیہ نامہ کون بہرِ روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا روم میں پہلا قدم روم ایں کے بینم کے عنوان سے ان مختلف جگہوں کا تفصیل سے ذکر ہے، جن کا ذکر اس سفر نامہ میں کیا گیا ہے۔ جن میں روم اطالوی صنم خانے میں اردو کی اذان ، روم یونیورسٹی روم یونیورسٹی میں خطاب کولوسیم مزید کولوسیم ، غم کا فرشتہ تریوی کا فوارا ، ویٹیکن ہی ویٹکن ، روم کا ریلوے سٹیشن ، سویٹ ہوم یا سویٹ روم ،نیپولی کی جانب ، نیپلز کی ایک رات تلاشِ رزق اور مشرق و مغرب نیپلز یونیورسٹی نیپلز کے قلعہ علومِ شرقیہ میں نیپلز یونیورسٹی ایک گفتگو ، نیپلز سے بریشیہ ، فلورنس باغِ اطالیہ میں علالت کے پھول، ترقی یافتہ سماج اور پومپیائی کا عبرت کدا پانی میں سانس لیتا نگر اور تاریخی قردار، میلان اردو اور ٹویرن یونیورسٹی میلان اور اطالیہ میں اردو کا میلان میلان سے ادھورا ملن، گلِ لالہ کا دیس، ایمسٹرڈم، این فرینک کی ڈائری ، معبدِ یہود سے متخف یہود تک شجرِ حیات اور ستنوزہ وغیرہ وغیرہ آغاز فردوسی کے اس شعر سے کی گئی ہے ۔
جہاں کردہ ام از سخن چوں بہشت
ازیں پیش تخمِ سخن کس ناکشت
گیٹ اپ عمدہ ضخامت 214 صفحات، قیمت درج نہیں۔
مذکورہ نظموں میں سے اٹلی
کے عنوان سے یہ نظم
قیصر روم ترے دیس میں ہوں
شاہرا ہیں کہ جنہیں دیکھ کے دل ہل جائے
تیرا وہ شوق بھڑا دے جو درندوں سے بھی انسانوں کو
ایسی تمثالیں کہ بس بول ہی اٹھیں گویا
ایسے ساونٹ کھڑے ہیں جو عمارات اٹھائے سرپر
پانیوں میں وہ روانی جونہیں جینے میں
اک مسافر تجھے ان سارے مظاہر میں کہیں ڈھونڈتا ہے
تو کہاں گم ہے ، کبھی آکے یہ آواز تو سن
آج کا قطع
یوں بھی ہو سکتا ہے یکدم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے