لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے افضل شب

’’جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘(صحیح بخاری و مسلم شریف)
ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کو بڑی فضیلت و اہمیت حاصل ہے۔ عشرہ اخیرہ جہنم سے آزادی کا ہے، اسی عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات شبِ قدر، یا لیلۃ القدر کہلاتی ہے۔ شبِ قدر یا لیلۃ القدر بڑی بابرکت اور فضیلت و اہمیت والی رات ہے۔ اس رات کی فیوض و برکات کثرت سے کتب احادیث سے ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں ایک سورت نازل فرمائی ہے اور اس سورۃ میں اس رات کی اہمیت اور فضیلت کو بیان فرمایا ہے۔ اس سورۃ کا نام سورۃ القدر ہے۔
شب قدر کا مطلب ہے کہ وہ رات جس کی اللہ کے نزدیک قدر و منزلت ہو۔ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں۔ اس رات کو لیلۃ القدر (شبِ قدر) کہنے کی وجہ اس رات کی عظمت وشرف ہے۔ ابو بکر وراق ؒنے فرمایا کہ اس رات کو لیلۃ القدر اس وجہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے سبب کوئی قدر وقیمت نہ تھی، اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادت کے ذریعہ وہ صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے۔ (معارف القرآن 8/791)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپﷺ کو اپنی امت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔ آپ ﷺ نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے (موطا امام مالک ص 260)
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور کریمﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار ماہ تک راہ خدا کے لئے ہتھیار اٹھائے رکھے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس پر تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی اور ایک رات یعنی شب قدر کی عبادت کو اس مجاہد کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قرار دیا (سنن الکبری، بیہقی جلد 4، ص 306، تفسیر ابن جریر)
شب قدر احادیث کی روشنی میں
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب شب قدر ہوتی ہے، جبرائیل امین علیہ السلام ملائیکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کیلئے) دُعا کرتے ہیں‘‘ (بیہقی)
نبی کریمﷺنے فرمایا کہ ’’جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شب قدر میں قیام کیا (عبادت کی) تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘(بخاری شریف و مسلم شریف)
شب قدر کو کن راتوں میں تلاش کریں؟
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو(بخاری، مشکوۃ)
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29 کی رات میں ہے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے ان راتوں میں عبادت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیتا ہے۔
اس رات کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ یہ رات کھلی ہوئی اور چمکدار ہوتی ہے۔ صاف و شفاف گویا انوار کی کثرت کے باعث چاند کھلا ہوا ہے۔ یہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل ہوتی ہے۔ اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد صبح کو سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے۔ بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح جیسا کہ چودھویں کا چاند کیونکہ شیطان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اس دن سورج کے ساتھ نکلیں(مسند احمد، جلد 5ص 324، مجمع الزوائد)
شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں حکمتیں
علماء کرام نے شب قدر کے پوشیدہ ہونے کی بعض حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
(1)۔ اگر شب قدر کو ظاہر کر دیا جاتا تو کوتاہ ہمت لوگ اسی رات کی عبادت پر اکتفا کر لیتے اور دیگر راتوں میں عبادات کا اہتمام نہ کرتے اب لوگ آخری عشرے کی پانچ راتوں میں عبادت کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔
(2)۔ شب قدر ظاہر کردینے کی صورت میں اگر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن و ملال ہوتا اور دیگر راتوں میں وہ دلجمعی سے عبادت نہ کر پاتا۔ اب رمضان کی پانچ طاق راتوں میں سے دو تین راتیں اکثر لوگوں کو نصیب ہو ہی جاتی ہیں۔
(3) ۔اگر شب قدر کو ظاہر کر دیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ ہے، اسی طرح اس رات میں گناہ بھی ہزار درجہ زیادہ ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ اس شب میں عبادت کریں وہ ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ اجر و ثواب پائیں اور اگر اپنی جہالت و کم نصیبی سے اس شب میں بھی گناہ سے باز نہ آئیں تو انہیں شب قدر کی توہین کرنے کا گناہ نہ ہو۔
(4)۔ شب قدر کا پوشیدہ رکھنا اسی طرح سمجھ لیجئے جیسے موت کا وقت نہ بتانا۔ کیونکہ اگر موت کا وقت بتا دیا جاتا تو لوگ ساری عمر نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرتے اور موت سے عین پہلے توبہ کرلیتے۔ اس لئے موت کا وقت پوشیدہ رکھا گیا تاکہ انسان ہر لمحہ موت کا خوف کرے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیکی میں مصروف رہے۔ اسی طرح آخری عشرے کی ہر طاقت رات میں بندوں کو یہی سوچ کر عبادت کرنی چاہئے کہ شاید یہی شب قدر ہو۔ اسی طرح شب قدر کی جستجو میں برکت والی پانچ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
حکمتیں اور مصلحتیں
بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کے باعث بہت سی اہم چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ رکھا ہے۔چنانچہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ :
(1) اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کو عبادت و اطاعت میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں۔
(2)۔ اس نے اپنے غصہ کو گناہوں میں مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ ہر قسم کے گناہوں سے بچیں۔
(3۔اپنے اولیا ء کو مومنوں میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ سب ایمان والوں کی تعظیم کریں۔
(4)۔ اسم اعظم کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہر نام مبارک کی تعظیم کریں۔
(5)۔صلو ۃالوسطی (درمیانی نماز)کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ سب نمازوں کی حفاظت کریں۔
(6)۔ موت کے وقت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ہر وقت خدا سے ڈرتے رہیں۔
(7)۔ توبہ کی قبولیت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ جس طرح ممکن ہو، توبہ کرتے رہیں۔
(8)۔ ایسے ہی شب قدر کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں۔
شبِ قدر کی دعا
شبِ قدر میں کیا کرنا چاہیے اور کونسی دعا مانگی چاہیے؟ اس حوالے سے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بتلائیں کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ(فلاں رات)شبِ قدرہے تو میں اپنے رب سے کیا مانگوں اور کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: (یہ) دعا مانگو!
اللہم ِنک عفو تحِب العفو فاعف عنِی۔ (شعب الایمان، حدیث:3427)، ترجمہ: اے اللہ!آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور آپ معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں لہٰذا مجھے معاف کر دیجیے!
قارئین کرام اللہ تعالیٰ کا کروڑ مرتبہ شکر کہ جس نے ہمیں شب قدر جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم رات کی قدر کرنے کی اور سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں مغفرت کا پروانہ نصیب فرمائے (آمین یارب العالمین)