تکبر کا انجام

تحریر : سائرہ جبیں


اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریبوں سے بات تک کرنا بُرا جانتا تھا۔ اس لئے اکثر لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے۔

ایک دن بادشاہ شکار کے تعاقب میںاتنی دور نکل گیا کہ تمام نوکر و وزراء بچھڑ گئے اور بادشاہ اکیلا رہ گیا۔ اتنے میں ایک کسان نے بادشاہ کی رکاب پکڑ لی۔ اس کسان کی شکل ہو بہو بادشاہ سے ملتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریبانہ تھے۔

کسان نے عرض کی۔ بادشاہ سلامت! میں تین دن سے حضور کی ڈیوڑھی پر بھوکا پیاسا چلا رہا ہوں مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا۔

بادشاہ نے غریب پر کوڑابرسایا اور کہا چل دور ہو، ہم ذلیل آدمیوں سے بات نہیں کرتے‘‘۔

غریب کسان کوڑا کھا کر ہٹ تو گیا مگر پھر بھی آہستہ آہستہ گھوڑے کے پیچھے چلتا رہا یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑے سے اترا۔ باگ ڈور ایک درخت سے اٹکائی۔ تاج اور کپڑے اتار کر ایک طرف رکھے اور نہانے کیلئے تالاب میں اتر گیا۔

 یہ تالاب ایسے نشیب میں تھا کہ نہانے والے کو اوپر کا آدمی نظر نہیں آ سکتا تھا۔ جب بادشاہ تالاب میں اتر چکا تو غریب کسان نے اپنے میلے کپڑے اتارے اور بادشاہ کے کپڑے پہن کر تاج سر پر رکھ لیا۔ اور بادشاہی گھوڑے پر سوار فوراً رفو چکر ہو گیا۔

کسان بادشاہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے شاہی نوکر چاکر مل گئے، جنہوں نے اسے بادشاہ سمجھ کر ادب سے سلام کیا اور یہ بھی بے جھجک شاہی محل میں جا پہنچا۔

اصلی بادشاہ نہا کر تالاب سے باہر نکلا تو کپڑے تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔ وہ بہت گھبرایا مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ ناچار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے جھیلنے اور ادھر ُادھر پھرنے کے بعد شہر پہنچا۔ 

اب اس کی یہ حالت تھی کہ جس سے بات کرتا کوئی منہ نہ لگاتا۔ جب وہ یہ کہتا کہ میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔

دو تین ہفتے اسی طرح گزر گئے اور بادشاہ سخت پریشان ہو گیا کہ اتنے میں اس پاگل کا قصہ بادشاہ بیگم نے بھی سنا اور جب بلوا کر اس کے کپڑے اتروائے تو سینے پر تل کا نشان دیکھ کر اس کی سچائی کی تصدیق کی۔

 کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہا ’’کیا تم وہی شخص ہو جو دولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریاد نہ سنتے تھے؟ اسی کی سزا دینے کیلئے میں نے یہ سوانگ بھرا تھا۔ اگر تم وہ گھمنڈ چھوڑ کر رحم و انصاف کا اقرار کرو تو میں تمہارا تاج و تخت واپس دینے کو تیار ہوں۔ ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں‘‘۔

 یہ سن کر بادشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور کسان اسے تخت و تاج دے کر چلا گیا۔ بادشاہ نے اپنی عادتوں کی اصلاح کر لی اورجلدوہ نیک نام مشہور ہو گیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟