نئے انتظامی صوبوں کی ضرورت!

تحریر : عدیل وڑائچ


دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کے ایک بڑے انتظامی اور عوامی ایشو پر بڑی نشستوں کا اہتمام ہونے لگا ہے۔حالیہ دنوں دو گول میز کانفرنسوں میں ملک کے پالیسی میکرز ‘ سابق بیوروکریٹس اورسیاستدانوں نے شرکت کی۔ معاملہ تھا ملک میں نئے انتظامی یونٹس بنانے کا، جو اس وقت گورننس معیشت‘ امن و امان‘ تعلیم اورصحت سمیت بیسیوں شعبوں میں اصلاحات کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے تھنک ٹینکس نے اس معاملے پر بات چیت شروع کر دی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اس موضوع پر ایک گول میز کانفرنس منعقد کی جس میں شرکا نے قومی سلامتی اور معاشی استحکام کیلئے نئے صوبوں کی ضرورت پر اتفاق کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کو فوری طور پر پارلیمان میں لایا جائے۔ تجویز دی گئی کہ نئے انتظامی یونٹس کے قیام کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے اپنی تجاویز پارلیمان کو بھجوائے۔ گول میز کانفرنس میں بتایا گیا کہ پاکستان کے موجودہ صوبوں کا ماڈل غیر حقیقی ہے۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے توآبادی کے لحاظ سے پنجاب دنیا کے180 ممالک سے بڑا ہے۔ اسی طرح بلوچستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 130 ممالک سے بڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تقسیم کے ساتھ پاکستان میں گورننس کے مسائل کا حل اور عوام کو ریلیف پہنچانا ممکن نہیں ۔

 اگرچہ پاکستان میں نئے صوبوں کے حوالے سے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں مگر یہ آوازیں لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے سے متعلق ہوتی ہیں، جو پاکستان کے حقیقی مسائل کے حل کی بجائے ایک لسانی اور سیاسی نعرہ دکھائی دیتا ہے، جبکہ ماہرین خالصتاً انتظامی بنیادوں پر انتظامی یونٹس کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی گول میز کانفرنس میں بھی اسی جانب توجہ دلائی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں نئے انتظامی یونٹس سے متعلق میاں عامر محمود کے کانسپٹ پیپر کو بے حد سراہا گیا، جس میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ1972ء کے انتظامی یونٹس کو نئے صوبوں کا درجہ دے دیا جائے۔ اس کانسپٹ پیپر میں  دی گئی تجویز کے مطابق پنجاب کو پانچ ‘ سندھ اور خیبر پختونخوا کو تین تین جبکہ بلوچستان کو دو صوبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔  ان مجوزہ انتظامی یونٹس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ لاہور کے 1972ء کے سول ڈویژن ماڈل، جس میں لاہور قصور‘ شیخوپورہ‘ ننکانہ صاحب‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ نارووال‘ گجرات‘ منڈی بہاؤالدین‘ اور حافظ آباد شامل ہیں، کو صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔یہ کل 28ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل ہو گا اور اس کی آبادی چار کروڑ15 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہو گی۔ 

اس طرح ملتان‘ وہاڑی‘ خانیوال ‘ لودھراں‘ ڈی جی خان ‘ راجن پور‘ لیہ مظفرگڑھ‘ ساہیوال‘ اوکاڑہ‘ اور پاکپتن کے اضلاع پر مشتمل علاقے کو صوبہ بنایا جانا چاہیے جو63951 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ سرگودھا ‘ میانوالی‘ بھکر ‘ فیصل آباد ‘ جھنگ‘ چنیوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع پر مشتمل ایک صوبہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کا رقبہ 44949 مربع کلو میٹر بنتا ہے اورآبادی دو کروڑ 58 لاکھ نفوس پر مشتمل ۔ بہاولپور ‘ بہاولنگر ‘ رحیم یار خان کا رقبہ45346 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جبکہ آبادی ایک کروڑ34 لاکھ سے زائد ۔ان علاقوں کو بھی صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح راولپنڈی ‘ جہلم‘ چکوال اور اٹک کی آبادی ایک کروڑ 14 لاکھ جبکہ رقبہ 22000 مربع کلو میٹر سے زائد ہے۔ 

کراچی ساؤتھ‘ کراچی ویسٹ‘ کراچی ایسٹ‘ کراچی سینٹرل ‘ ملیر ‘ کورنگی ‘ اور کیماڑی پر مشتمل علاقے کو صوبے کا درجہ دیا جانا چاہئے ،جس کی آبادی دو کروڑ 38 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اسی طرح گھوٹکی ‘ خیر پور‘ سکھر‘ سانگھڑ‘ نو شہرو فیروز‘ شہید بے نظیر آباد‘ جیکب آباد‘ کشمور ‘ لاڑکانہ‘ قمبر شہداد کوٹ اورشکارپور کے علاقوں کو الگ صوبے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ بدین‘ دادو‘ جامشورو‘ حیدرآباد ‘ مٹیاری ‘ ٹنڈو اللہ یار ‘ ٹنڈو محمد خان‘ ٹھٹھہ‘ سجاول ‘ میرپورخاص‘ تھرپارکر اور عمر کوٹ کو بھی صوبے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔  خیبر پختونخوا میں تجویز کئے گئے تین انتظامی یونٹس میں مالاکنڈ ‘ چترال ‘ سوات اور دیر پر مشتمل صوبہ مالاکنڈ‘ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان‘ جنوبی وزیرستان‘ ٹانک‘ بنوں‘ لکی مروت‘ شمالی وزیرستان پر مشتمل ڈی آ ئی خان صوبہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس تجویز کے تحت پشاور‘ چارسدہ‘ نوشہرہ‘ ایبٹ آباد‘ ہری پور‘ مانسہرہ‘ کوہستان‘ کوہاٹ ہنگو ‘ کرک‘ کرم‘ اورکزئی ‘ مردان اور صوابی کے  علاقوں پر مشتمل صوبہ بنایا جا سکتاہے۔اسی طرح بلوچستان میں کوئٹہ اور قلات پر مشتمل دو الگ صوبے بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ 

 اس گول میز کانفرنس میں شرکا نے بتایا کہ گورننس کے مسائل کے حل کیلئے درکار نئے صوبوں کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی اشرافیہ ہے کیونکہ نئی حد بندیاں ان کے سیاسی ماڈل کیلئے نقصان دہ ہیں، مگر پاکستان کے 25 کروڑ عوام کیلئے نئے انتظامی یونٹس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اگر ہم ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی اس عوامی مسئلے میں دلچسپی دیکھیں تو کسی نے اس کے قابل عمل حل کیلئے کچھ نہیں کیا۔پیپلز پارٹی صرف جنوبی پنجاب کی حد تک بات کرتی دکھائی دیتی ہے، سندھ میں مزید صوبے بنانے کے حق میں دکھائی نہیں دیتی۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب کے مسائل کے حل کیلئے مزید انتظامی یونٹس کے قیام میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف کی ترجیحات میں بھی گورننس کے مسائل کے حل کیلئے اس آپشن پر جانا نظر نہیں آتا، مگر اس میں خوش آئند بات یہ ہے کہ اچھی ساکھ اور اثر رکھنے والے تھنک ٹینکس نے اس اہم ترین معاملے پر بات کرنا شروع کر دی ہے۔ اسی طرح کے ایک بڑے ادارے، ایس ڈی پی آئی نے بھی اسلام آباد میں آج ایک اہم نشست رکھی ہے۔ اس کے بعد امید پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر اس اہم معاملے پر کم از کم بات تو ہونا شروع ہو ئی ہے۔ ان اداروں کو اس بات چیت کو جاری رکھتے ہوئے اہم سٹیک ہولڈرز یعنی عوامی نمائندوں کو اس بات  چیت میں شریک کرنا ہو گا کیونکہ اس کا حل بالآخر پارلیمان نے ہی نکالنا ہے جس کیلئے آئین میں ترمیم کرنا لازم ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

عید الفطر:خوشیوں اور محبت بھرا اسلامی تہوار

دُنیا کی ہر قوم اپنا ایک تہوار رکھتی ہے۔ان تہواروں میں اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ اپنے جدا گانہ تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی عید دیگر مذاہب و اقوام کے تہواروں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہے۔

عید کا روز اور معمولات نبویﷺ

اچھالباس پہنناعید کے روز اچھے کپڑے پہننے کے متعلق امام شافعیؒ اورامام بغویؒ نے امام جعفربن محمد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ ہر عیدکے موقع پر دھاری دار یمنی کپڑے کا لباس زیب تن کیاکرتے تھے۔

نماز عید الفطر کا طریقہ اور احکام

عید الفطر تو رمضان المبارک کی عبادات کی انجام دہی کیلئے توفیق الٰہی کے عطا ہونے پر اظہار تشکر و مسرت کے طور پر منائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور انجام پانے کی خوشی کوئی دنیوی خوشی نہیں ہے جس کا اظہار دنیاوی رسم و رواج کے مطابق کر لیا جاتا ہے۔

تیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ النباء:’’نبا،، خبر کو کہتے ہیں۔ سورت کے شروع میں فرمایا گیا ہے کہ لوگ ایک عظیم خبر کے متعلق، جس کے بارے میں یہ باہم اختلاف کر رہے ہیں، ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں، یعنی قیامت، اس کے وقوع اور حق ہونے کے بارے میں کچھ لوگوں کو اختلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عنقریب قیامت برپا ہوگی تو انہیں معلوم ہو جائے گا۔

تیسویں پارے کاخلاصہ

تیسویں پارے میں چونکہ سورتوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے تمام سورتوں پر گفتگو نہیں ہو سکے گی بلکہ پارے کے بعض اہم مضامین کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔

انتیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الملک : حدیث پاک میں سورۃ الملک کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں، اسے ’’المنجیہ‘‘ (نجات دینے والی) اور ’’الواقیاہ‘‘ (حفاظت کرنے والی) کہا گیاہے۔ اس سورۂ مبارکہ کی تلاوت عذاب قبر میں تخفیف اور نجات کا باعث ہے، اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا مقصد بندوں کی آزمائش ہے کہ کون عمل کے میزان پر سب سے بہتر ثابت ہوتا ہے۔اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمانوں کی تخلیق کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی تخلیق میں تمہیں کوئی عیب یا نقص نظر نہیں آئے گا، ایک بار پھر نظر پلٹ کر دیکھ لو، کیا اس میں تمہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے، پھر بار بار نظر اٹھا کر دیکھ لو (اللہ کی تخلیق میں کوئی عیب یا جھول تلاش کرنے میں) تمہاری نظر تھک ہار کر ناکام پلٹ آئے گی۔