بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی (ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی ) رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :محمد مہدی۔لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

معیشت کی بہتری کیلئے سود کا خاتمہ ضروری ہے :  احمدعلی صدیقی

اکتوبرتک منی بجٹ متوقع ،حکومت نظرثانی کرے گی:  ڈاکٹر شجاعت مبارک

آئی ایم ایف سے چھٹکارے کیلئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے:  ڈاکٹر حنافاطمہ

بجٹ زمینی حقائق کے برعکس اورکاروباری برادری سے امتیازی سلوک ہے:  محمد ادریس

حکومت تمام لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائے ،کسی کو استثنیٰ نہ دے:  ضیاء خالد

 

 موضوع: ’’بجٹ 2023-24:کیا اہداف پورے ہوسکیں گے؟‘‘

 

 

دنیا فورم میں ماہرین معیشت نے یہ تو حوصلہ دیاکہ پاکستان،سری لنکا نہیں جس کی مثالیں دی جارہی ہیں،ہمارا تو صرف شہر کراچی دنیا کے درجنوں ممالک سے بڑا ہے ،بہرحال یہ حقیقت ہے کہ معاشی صورتحال ہے سخت،پھر میرا سوال تھاکہ آخر اس کا حل کیا ہے کہ ہم معاشی بہتری کیجانب گامزن ہوسکیں؟سینٹر فارایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کے دفتر میں منعقدہ دنیا فورم میں اس سوال کے جواب میں حکومت کو بھرپور تجاویز دی گئیں،بجٹ کو حقیقت کے منافی قرار دیتے ہوئے انتخابی قرار دیاگیا جبکہ یہ دعویٰ بھی کیاگیا کہ اکتوبر نومبر میں منی بجٹ آئے گا۔ماہرین معیشت نے حکومت کو تجاویزدیتے ہوئے کہا کہ ملک کی معیشت کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ ملکی صنعت وپیداوار پر انحصار بڑھایاجائے،عیاشیوں سے پرہیز اور سادگی کو اپنایاجائے،سود کاخاتمہ معیشت کی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔موجودہ حالات میں آئی ایم ایف سے جان چھوٹنا کافی مشکل ہے تاہم مثبت اقدامات کی بنیاد پر بہت سے کام ممکن ہیں۔

مشہور مقولہ ہے کہ جہاں کام کرنے کی خواہش ہو وہاں راستہ نکل آتا ہے ،چین اور عرب ممالک اب بھی پاکستان کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں پاکستان ان کیساتھ مشترکہ صنعتیں لگائے،سی پیک کو مزید بہتر کرے،حکومت طویل المدتی منصوبہ بندی پر توجہ دے ناکہ محض انتخابات جیتنے کیلئے بجٹ پیش کیاجائے،بہرحال موجود ہ بجٹ کو عمومی رائے میں غیرحقیقت پسندانہ قرار دیاگیا تاہم شمسی پینل اور آئی ٹی کے شعبہ جات میں دی گئیں سہولتوں سے کافی امیدیں لگائی گئیں ہیں۔اللہ کرے پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہو اور ملک ترقی کرے۔آپ کی رائے اور تجاویز کا منتظر رہوں گا۔ شکریہ مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ: واٹس ایپ اور فون۔

0092-3212699629,0092-3444473215

ای میل:   mustafa.habib@dunya.com.pk

  شرح سود بڑھانے سے ملک کو فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔ ہم 5فیصد شرح سود کم کریں تو 2 ہزارارب روپے بچاسکتے ہیں۔ اس سے ریونیو نہیں بڑھا سکے تو قیمتیں کم کر دینگے، ڈائریکٹر سی ای آئی ایف ،آئی بی اے

 ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ان پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ ٹیکس دینے والا زیادہ تر تنخواہ دار طبقہ ہے،ڈین سی بی ایم ،آئی او بی ایم

  حکومت اقتدارکیلئے عوام کو مشکلات میں ڈال رہی ہے، غریب عوام کو فائدہ دینے کیلئے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ہمیں قرض اداکرنے کیلئے مزید ادھار لینا پڑے گا ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن فیکلٹی ماجو

 میں خود ایک میٹنگ میں تھا احسن اقبال وزیر تھے ،ایک موبائل کمپنی،فیس بک ،مائیکرو سافٹ او ر دیگر کمپنیاں پاکستان آنا چاہتی تھیں مثبت جواب نہ ملنے پر بھارت چلی گئیں ،سابق صدر ایوان صنعت وتجارت کراچی

 بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد نے ملکی مفاد کی خاطر چیزوں کو کنٹرول کیا اب بنگلہ دیش معاشی طورپر بہتر ہورہا ہے ہمیں بھی ملک کی خاطر آپس کی لڑائیاں ختم کرکے آگے کی طرف سوچنا ہے،سینئر پروگرام منیجر سی ای آئی ایف

 دنیا: بجٹ کے اہداف کیسے پورے ہوسکتے ہیں ؟

احمد علی صدیقی :پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال میں بجٹ دستاویزات بہت اہم ہیں۔یہ جاننا ضروری ہے کہ بجٹ عوام کی معاشی صورت حال اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیاہے یانہیں۔ بجٹ میں حکومت نے بہت اہم ٹارگٹ رکھے ہیں ۔موجودہ صورت حال میں یہ بات بہت اہم ہے کہ کیا ہم اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلارہے ہیں۔ 9ہزار ارب روپے کما کر14 ہزارارب روپے خرچ کریں،کیا یہ اقدامات متوازن ہیں، اس صورت حال میں ہم لگژری چیزوں کو برداشت کرسکتے ہیں؟،ملک میں معاشی استحکام کیلئے مستقل پالیسیوں کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔ ہر آنے والی حکومت اپنی پالیسی لاتی ہے سابقہ جاری پالیسیوں کو روک دیاجاتاہے۔جس سے ترقی کاسفراور فنڈز بھی رک جاتے ہیں۔کاروباری ، مالیاتی اور دیگر متعلقہ شعبہ جات کو بھی طویل مدتی پالیسیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان پراللہ کا کرم ہے تمام چیلنجز کے باوجود ہم چل رہے ہیں ۔خسار ے کی ایک بڑی وجہ سود کی ادائیگی ہے۔خسارہ 7 ہزارٹریلین ہے ،4 سال پہلے یہ خسارہ2ٹریلین تھا۔5ہزار ارب روپے صرف سود کی مد میں ادائیگی کررہے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ شرح سود بڑھائیں گے تومہنگائی کم ہوگی لیکن پاکستان کے تناظر میں یہ پالیسی ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔حقیقت میں شرح سود بڑھانے سے ساری چیزوں کی قیمت اوپر جاتی نظر آرہی ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں 50فیصد چیزیں دستاویز نہیں ہیں ۔

شرح سود بڑھانے سے ملک کو فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔ ہم 5فیصد شرح سود کم کریں تو 2 ہزارارب روپے بچاسکتے ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر ریونیو نہیں بڑھا سکے تو قیمتیں کم کردینگے،ہمیں پالیسی او رسوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 400ارب روپے رکھے گئے جو بڑی رقم ہے۔اس پروگرام کا نام بے نظیر انکم جنریشن پروگرام ہونا چاہیے تھا ۔یہ پیسے خواتین کو چھوٹے کاروبار کیلئے دینے چا ہییں تاکہ پیداواری صلاحیت بڑھائی جاسکے۔بچت کی شرح کی صورت حال بھی خراب ہے۔76 فیصدافراد بینکنگ سیکٹر سے دور ہیں۔میراتعلق اسلامی فنانس بیکنگ سے ہے لوگ سود سے بچنا چاہتے ہیں۔ہمیں معیشت کو بہتر کرنا ہے تو سود کوختم کرنے کے ٹارگٹ کو طے کرنا ہوگا۔اسلامک فنانس کو ترجیح دینا ہوگا۔صنعتوں کو فوائد اور سہولتیں دینی ہوں گی ۔سکوک کے حوالے سے گزشتہ 3 سال سے تجربات سامنے آرہے ہیں کہ حکومت سکوک کے ذریعے سستا فنانس اٹھاتی ہے،ایک سے 2 فیصدکنویشن فنڈ کی نسبت سستا فنڈ مل جاتا ہے۔دوسال پہلے رپورٹ آئی تھی کہ حکومت نے سکو ک کی مدمیں 80ارب روپے کی بچت کی تھی ۔ہم ا س کو ترجیح دینگے تو لوگ بینک کے سیکٹر کے قریب آئیں گے اورصنعت کو بھی فروغ ملے گا ۔معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔

دنیا : بجٹ میں سہانے خواب دکھائے گئے کیا عوام کو فائدہ ہوگا؟

 ڈاکٹر شجاعت مبارک : سوال یہ ہے کہ بجٹ میں دیا گیا ریونیو ہدف کیسے پورا ہوگا؟،پچھلا ہدف ہی ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ بجٹ سے پہلے ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ان پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ ٹیکس دینے والا زیادہ تر تنخواہ دار طبقہ ہے، کئی لوگوں سے بات ہوئی ۔جن کی تنخواہیں 8سے 10لاکھ ہیں وہ ٹیکس نیٹ میں آنے کے بعد اپنے اخراجات کو پورا کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔جس کی تنخواہ 5 لاکھ ہے اس کی تنخواہ سے ایک لاکھ روپے ٹیکس کٹ جاتاہے۔ایک لاکھ تنخواہ والے ٹیکس نیٹ میں آنے کے بعد کیسے اخراجات پورے کریں گے۔ یہ طبقہ کب تک پورے ملک کا بوجھ اٹھاتا رہے گا۔حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ غیر ٹیکس آمدنی کہاں سے آئے گی ۔ بجٹ سے لگتا ہے کہ اکتوبر اور نومبر میں منی بجٹ آئے گا جس میں حکومت چیزوں پر نظرثانی کرے گی ۔حکومت کو پاکستان کی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اخراجات کنٹرول کرنے ہوں گے، جب سے بجٹ آرہا ہے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ میں 900 ارب روپے ہی ہیں۔

دنیا: موجودہ وسائل کیا ہیں جس کی بنیاد پر بجٹ تیارکیا جاتاہے؟

ڈاکٹرشجاعت مبارک: موجودہ وسائل اور خسارے پر شعر یاد آرہاہے ’’ حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے۔۔تمہیں نکال کر دیکھا باقی سب خسارہ ہے‘‘۔ہمارے پاس موجود کچھ نہیں۔ طویل مدتی پالیسیوں کو جاری رکھنا ہوگا۔ ہرآنے والی حکومت اپنی پالیسی لے کر آتی ہے او ر موجود ہ پالیسیوں کو روک دیتی ہے جس سے طویل مدتی پالیسی کے نتائج سامنے نہیں آتے۔ہمیں تنقیدکے بجائے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔موجودہ صورت حال میں اسلامک فنانس کے حوالے سے کئی بینکوں نے شمسی پینل کی اسکیم شروع کی ہے اور بھی کئی چیزوں پرکام ہورہاہے ،حکومت کو اسلامک فنانس بینکنگ کو سہولت دینا چاہیے تاکہ عوام کو فائدہ ہو۔

 دنیا: آئی ایم ایف سے چھٹکارے کیلئے کیا پالیسی اپنانا ہوگی ؟

 ڈاکٹر حنا فاطمہ: کچھ بنیادی چیزیں ہوتی ہیں جنہیں کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔آئی ایم ایف سے اتنی آسانی سے جان نہیں چھوٹے گی ۔چھٹکارے کیلئے سخت فیصلے اور عملدرآمدکرنا ہوگا۔معاشی صورت حال بہتر نہ ہوتوترجیحات اور طریقہ کار تبدیل کرنے پڑتے ہیں ۔موجود ہ معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت کو اپنی ترجیحات اور اہداف تبدیل کرنے چاہئیں۔صرف پالیسیاں دی جاتی ہیں،عملدرآمد نہیں ہوتا۔آئی ایم ایف سے جوقرضہ لیا ہے وہ واپس بھی تو کرنا ہے۔ہمارے پاس اس کو واپس کرنے کی کیا پالیسیاں ہیں ۔ان کو سنجید گی سے لینا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمار ا بجٹ عوامی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں الیکشن او رسیاسی صورت حال کے پیش نظر بنایا جاتا ہے۔  35 فیصد تنخواہوں میں اضافے سے خزانے پرمزید بوجھ بڑھ جائےگا اس کو دینگے کیسے ؟،بجٹ میں دفاع کیلئے بھی قرضہ لیاجائے گا  ۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس شعبے کے ساتھ کیاکررہے ہیں۔ہم قرضوں کی بنیاد پر بجٹ بنارہے ہوتے ہیں۔پاکستان زرعی ملک ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ اور پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ جن افراد کی پنشنزبھی لاکھو ں میں ہیں ان کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایاجائے۔ حکومت اقتدار بچانے کیلئے عوام کو مشکلات میں ڈال رہی ہے حالات بدلنے کیلئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔

حکومت غریب عوام کو فائدہ دینے کیلئے سہولتیں فراہم کرے۔ہمیں قرض اداکرنے کیلئے مزید ادھار لینا پڑے گا ۔ جس سے قرض کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ قرض کی تنظیم نو (Restructuring) کرنے کی اشد ضرورت ہے۔موجودہ معاشی صورت حال میں یہ بات زیادہ پریشان کن ہے کہ مزید قرض لینا پڑرہاہے۔سبسڈی کے عمل کو بہتر کرناہوگا۔ زراعت کو ترقی دینے کیلئے تحقیق پر توجہ دینی ہوگی تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو۔تنخواہوں میں اضافے سے ایک بلین روپے کا بندوبست کرنا ہوگا، کاروبار کیلئے لوگوں کوآسانیاں دینا ہوں گی،جتنا چیزوں کو آسان بنائیں گے چیزیں آگے جائیں گی ،سول سروسز میں بھی اصلاحات لانی ہوں گی ،آسائشوں کو کم کرتے ہوئے طرز زندگی کو تبدیل کرناہوگا۔

 دنیا: معاشی صورت حال کیسے بہتر ہوسکتی ہے حل کیا ہے؟

احمد علی صدیقی:کئی ممالک پاکستان سے کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاملات بہتر ہوں گے توآپ کے ساتھ کام کریں گے،ملکی معاملات میں آئی ایم ایف فیکٹر کے ساتھ جغرافیا ئی سیاست بھی آگئی ہے۔ ملک میں مشکل حالات ضرور ہیں لیکن اچھی اور دوررس نتائج پالیسی کی منصوبہ بندی کی جائے تو ان حالات سے نکل جائیں گے۔حکومت پنشنز ختم کرکے نئے ملازمین کیلئے پنشن فنڈز قائم کرے جس سے ریٹائرڈ ملازمین کو کاروبار کی سہولت ملے اور حکومتی بجٹ سے باہر نکل جائیں ۔دنیا بھرمیں اس طرح کے فنڈز قائم کئے جاتے ہیں جس کے اچھے نتائج آرہے ہیں۔کے پی کے میں اس پر کچھ کام ہوا ہے اس کو پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ہمارا ذہن بن جائے کہ ہمیں چیزیں درآمد نہیں برآمد کرنی ہیں تو معاشی صورت حال بہترہوگی۔کورونا میں کووڈ ٹیسٹ کیلئے مقامی طورپر ٹیسٹ کٹ بنائی گئی اورلوگوں کے کاروبار کا ذریعہ بنا۔اب یہ کاروبار باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کرگیا ہے،کوئی مشکل آتی ہے تو آسانی بھی ہوتی ہیں او ر کئی مواقع میسر آتے ہیں۔ملک میں موبائل اور شمسی پینل بننا شروع ہو جائیں تو پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوسکتاہے ۔ پاکستان میں جو شمسی پینل بنائے گا اس کیلئے خام مال پر ڈیوٹی نہیں ہے اس سے بھی کافی بہتری آئے گی ۔

کوشش کرنی ہے کہ اب گرین توانائی کی طرف جائیں اور تیل کو جتنا کم استعمال کرسکتے ہیں کریں تاکہ روزگار کے ساتھ ماحول بھی بہتر ہو۔اس اقدام سے سولرپینل انڈسٹری کو تقویت ملے گی بجٹ میں آئی ٹی اور فری لانس کام کرنے والوں کو اچھے مواقع ملے ہیں ۔ پاکستان کی معاشی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔دنیا بھر میں زرعی سیکٹرمیں پاکستان کی اجناس اور حلال گوشت کی بہت طلب ہے ،ہم ان چیزوں کو بہتر کرلیں تو پاکستان معاشی طور مستحکم ہوسکتا ہے ۔دبئی حلال فارما پر بہت کام کررہاہے اور دنیا بھرمیں گوشت او ر دیگر حلال اشیاء برآمدکررہاہے ،پاکستان ان چیزوں کی بڑی مارکیٹ ہے کام کریں تو معاشی طورپر مضبوط ہوسکتے ہیں ۔سی پیک کی بحالی سے علاقائی تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔سستی چیزیں دستیاب ہوں گی اور لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ وسطی ایشیا اور تاجکستان سے بھی تجارتی معاہد ہ ہوا ہے ۔سرحدوں سے تجارت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ پاکستان کا مفاد جن چیزوں میں بہتر ہے ہمیں وہ پالیسی لے کر آنی ہے،ہمیں سود سے بچنا ہوگا۔

دنیا: حکومت بجٹ سے پہلے معاشی ماہرین سے مدد لیتی ہے؟

ڈاکٹر شجاعت مبارک: پاکستان میں معیشت دانوں کی کمی نہیں ہے۔ پوری دنیا میں ایک پہچان رکھتے ہیں،دنیا بھرمیں حکومتیں ماہرین کی مدد اور مشوروں سے کام کرتی ہیں۔بجٹ سے پہلے ماہرین حکومت کو مشورہ اور تجاویز بھی دیتے ہیں کہ بجٹ صحیح نہیں بن رہا سیاسی ہے ان کی سفارشات اور تجاویز کوایک طر ف رکھ دیا جاتاہے۔سیا سی حکومتوں میں اس طرح کے مسائل آتے ہیں لیکن ان کو متوازن کیا جاتاہے۔دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کی مارکیٹ میں مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔کسی بھی صنعت کو دیکھ لیں ان کا اپنا مارکیٹ اسٹرکچر ہوگاکسی صنعت سے مقابلہ نہیں ہوتا۔جب مارکیٹ سے مقابلہ نکل جاتاہے تو نیا سرمایہ دار بھی نہیں آتا، ایجادات اور معیاربھی نہیں رہتا او ر نہ ہی لوگ ٹیکس دیتے ہیں جس سے صارفین اور ملک متاثرہوتاہے،دنیا میں اداروں کو کنٹرول کرنے کیلئے ریگولیٹری باڈی ہوتی ہے جو چیزوں کو کنٹرول کرتی ہے ،امریکا میں ریگو لیٹری باڈیز فعال کردار ادا کرتی ہیں،وہ ٹیکس کو پروموٹ کرنے میں ٹیکس اداکرنے والوں اور مارکیٹ میں لوگوں کو آگہی دیتے ہیں جس سے ٹیکس میں اضافہ ہوتاہے،اس طرح کے معاشی نظام میں حکومتی ریگولیٹری نظام اہم کردار ادا کرتاہے ، یہاں ریگولیٹری باڈیز ہیں لیکن وہ کردار ادا نہیں کررہی جو کرنا چاہیے،حکومت اپنا کردار کرے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھائے تو بجٹ کا خسارہ کم ہوسکتا ہے۔

 دنیا:بجٹ کیساہے بعد میں کیا صورت حال ہوگی ؟

محمد ادریس:بجٹ زمینی حقائق کے مطابق نہیں ۔ابھی تک سابقہ ریونیو ہدف ہی پورا نہیں ہوا موجودہ کیسے پورا کریں گے۔ حکومت بجٹ ریونیو پورا کرنے کیلئے وہی کرے گی جو پہلے کرتی ہے کہ ریفنڈ روک لیے جائیں گے،پاکستان میں بہت صلاحیت ہے مگر استعمال نہیں کیا جارہاہے۔ہماری عادت ہوگئی ہے کہ جو کام بھی کرناہے ایڈہاک بنیادوں پر کرنا ہے۔ معاشی ماہرین کے مشوروں اور سفارشات پر عمل نہیں کرنا۔حکومت کاروباری برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے۔ پنجاب بڑ اصوبہ ہے اس کی آبادی بھی زیادہ ہے اس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم دالیں ،چینی ،چاول اور دیگر اشیاء درآمد کررہے ہیں۔ہم آئی ٹی ،فر ی لانس اور دیگر شعبوں میں بہت پیسہ کماسکتے ہیں، حکومت اس طرف توجہ دے تو بجٹ کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بجٹ اہداف پورے اور معاشی صورت حال بہتربنانے کیلئے 40لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لاناہوگا۔فائلر اور نان فائلر کو ختم کرنا ہو گا ۔جب تک حقیقت سے منہ موڑیں گے او رزمینی حقائق پر بات نہیں کریں گے مسائل میں اضافہ ہوگا۔بہت سی چیزوں پر کام ہوسکتاہے لیکن شنوائی نہیں ہوتی۔

بجٹ آنے کے بعد بس آئی ایم ایف کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ 26دن سے پورٹ پر سیکڑوں کنٹینر ز پھنسے ہوئے ہیں اس پر کوئی بات نہیں ہورہی ،جس کے معیشت پر منفی اثرات آرہے ہیں۔حکومت اپنے منصوبوں پر عمل نہیں کرتی ،آئی ایم ایف کو راضی کرنے کیلئے جو اقدا مات کررہی ہے اس سے مشکلات ہوسکتی ہیں۔حکومت کی آئی ایم ایف سے بد عہدی کی وجہ سے معاملات میں رکاوٹیں آرہی ہیں۔جب تک خود انحصاری کی طر ف نہیں جائیں گے معاشی حالات بہتر نہیں ہوں گے،حکومت پر تنقید کے بجائے ہمیں بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ میں خود ایک میٹنگ میں شامل تھا احسن اقبال وزیر تھے ،ایک موبائل کمپنی پاکستان میں فیکٹری لگانا چاہتا تھا،فیس بک ،مائیکرو سافٹ او ر دیگر کمپنیاں پاکستان میں آنا چاہتی تھیں کافی عرصے تک ان کو مثبت جواب نہیں ملا پھر یہ بھارت چلی گئیں ۔

دنیا: لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے کیا طریقہ اختیار کیاجائے؟

ضیا ء خالد : ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے حکومت کو باہمی مشاورت کے ساتھ اسٹیک لڈرز کو ساتھ ملاکر کام کرنا ہوگا۔ متعلقہ سیکٹرز میں فکس ٹیکس ریٹ کو لاگوکرنا چاہیے ۔جن اداروں اور لوگوں کو استثنیٰ ہے ان کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایاجائے ۔ اسیٹیک ہولڈرز کے ساتھ میثاق معیشت ہونا چاہے ۔جس میں حکومت ، اپوزیشن او رمیڈیا کو بھی شامل کیا جائے تاکہ سب مل کر معیشت کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کریں۔بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد کی سیاسی لڑائیوں کی وجہ سے پورا ملک مشکلات کا شکارہورہا تھا۔انہوں نے ملکی مفاد کی خاطر چیزوں کو کنٹرول کیا اب بنگلہ دیش معاشی طورپر بہتر ہورہا ہے ہمیں بھی ملک کی خاطر آپس کی لڑائیاں ختم کرکے آگے کی طرف سوچنا ہے۔پہلے پاکستان میں5 سالہ منصوبے بنتے اورمکمل ہوتے تھے اب بنتے ہیں تو عمل نہیں ہوتا۔ایسے منصوبے دوبارہ شروع کیئے جائیں ،جس طرح سعودی عرب 2030 کے وژن پرکام کررہا ہے ہمیں بھی کسی وژن پرکام کرنا چاہیے اور لوگوں کو آگہی بھی دی جائے تاکہ منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچیں ۔

ایف بی آرمیں اصلاحات لائی جائیں۔اس میں نجی اداروں اور ماہرین کو شامل کیاجائے تاکہ ملکی ترقی میں کردار اداکرسکیں اس سے ایف بی آر پاکستان کا بہترین ادارہ بن کر ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتاہے۔اسی طرح منصوبہ بندی کمیشن اور دیگر اداروں میں بھی ماہرین کوشامل کیاجائے۔دنیا فورم اس کا سہرا اپنے سر لے اورمتعلقہ افراداوراداروں کے ساتھ باقاعدہ فورم کا انعقاد کرے ہمارا ادارہ بھرپو رتعاون کرے گا۔

دنیا فورم میں شرکاء کے سوالات اور تجاویز

 دنیا فورم میں سید حسان علی نے کہا کہ جو سرکاری ادارے کافی عرصے سے  خسارے میں چل رہے ہیں ۔عوام کو فائدہ بھی نہیں ہورہا حکومت ان کو پرائیویٹائز کردے اس سے معیار بہتر ہوگا، آمدنی میں اضافہ ہوگااو ر حکومت کو ٹیکس بھی ملے گا۔ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس،آئی بی اے احمد علی صدیقی نے کہا کہ بدقسمتی سے سرکاری اداروں میں اس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہوتاہے،سرکاری ادارو ں میں کام نہ کرنا او رسہولتیں اٹھانا ہماری عادت بن گئی جس کی وجہ سے وہ نتائج سامنے نہیں آتے جو نجی اداروں میں آتے ہیں، حکومت ایسے اداروں کو پرائیویٹائز کردے تاکہ ان کامنفی تاثر ختم ہواور عوام کو فائدہ ملے۔لندن سے ایل ایل بی کرنے والی طالبہ البینا شاہین نے کہا کہ پاکستان میں جو چیزیں بنائی جاتی ہیں ان کی باہر ممالک میں ڈیمانڈ نہیں ہوتی ،ہم دنیا بھر سے قرضہ لیتے ہیں یہ پیسہ کہاں جارہاہے،ہم ان پیسوں سے آج تک کوئی صنعت نہیں بناسکے،زرعی ملک ہونے کے باوجودبرآمدنہ ہونے کے برابرہے،ہماری چیزوں کوپروموٹ کیوں نہیں کیاجاتا،حکومت لوگوں کو آگہی کیوں نہیں دیتی۔ہمارا بجٹ صرف ووٹ کو دیکھتے ہوئے بنایاجاتاہے۔تعلیمی ادارے کاروبار بن گئے ہیں،جو کام حکومت کے کرنے کے ہوتے ہیں وہ فلاحی ادارے کررہے ہیں ۔اندرون سندھ جاکر دیکھو لگتاہے یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ہمار ا ملک کس طرف جارہا ہے، آخر یہ مسائل کب حل ہوں گے؟۔

ایڈیٹرفور م نے کہا کہ ہمارے تعلیمی ادارے اور میڈیا لوگوں کی رہنمائی کریں اور آگہی دینے میں ناکام نظر آرہے ہیں ،تعلیمی ادارے بچوں کواعلیٰ تعلیم تو دے رہے ہیں لیکن ان کو معاشرے کے چیلنجز سے نمٹنے کی تربیت نہیں کررہے۔محمد علی جناح یونیورسٹی شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈین ڈاکٹر حنا فاطمہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہرچیز منفی ہو،مثبت چیزیں بھی ہوتی ہیں،ہمیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے چیزوں کو بہتر کرنا ہے ۔ہم ہر چیز حکومت اور اداروں پر نہیں ڈال سکتے ۔ان مسائل کو پیدا کرنے میں ہم بھی ملوث ہوتے ہیں ہمیں اپنا کردار بھی بہترکرناہوگا آہستہ آہستہ چیزیں بہتر ہونا شروع ہوجائیں گی ،ادارے بھی ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہوتے ہیں۔معاشی بہتری کیلئے خود کو بہترکرناہوگا۔کون سا ایساملک ہے جہاں مسائل نہیں،مسائل ہرجگہ ہوتے ہیں، حکومت کو مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا او ر ہمیں نجکاری کی طرف جانا پڑے گا۔پاکستان میں فری مارکیٹ کانظام لاناہوگا۔

بچوں کو کاروبار کے ساتھ اخلاقیات بھی سکھانی ہوں گی۔تعلیمی اداروں کو تعلیم کے ساتھ باصلاحیت افراد(Skill Development)اور تربیت پر بھی توجہ دینی ہوگی تاکہ طلباء کو عملی میدان میں جانے کے بعد پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ہمارے بچے آسان زندگی سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ، سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے احمد علی صدیقی نے کہا کہ پاکستان بہت بہتر ہے سب کچھ اچھا اور سب کچھ خراب نہیں ہوتا،ملک میں بہت سی چیزیں بہتر ہورہی ہیں پاکستان میں 60فیصد نوجوانوں کی آبادی ہے یہ خصوصیات ہر ملک کومیسر نہیں ،ہمارانوجوان ملک کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ہمارا نوجوان دنیابھر میں جارہا ہے تو فخر کی بات ہے نوجوان اس قابل ہے توجارہا ہے،وہاں جاکر ملک میں زرمبادلہ بھی بھیجے گااور اپنی ذہانت سے ملک کا نام بھی روشن کریگا۔ہمارا ملک سری لنکا نہیں ہے،ہمار ا جی ڈی پی آج بھی کئی جی سی سی ممالک سے زیادہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

پاکستان کودیانتدار اور باصلاحیت لیڈر چاہیے، عوام کردار اداکریں

شرکاء: ڈاکٹر عصمت آراء،چیئرپرسن شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی۔ڈاکٹر معیز خان ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی ۔ڈاکٹر معروف بن رئوف ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تعلیم اور صدر سوسائٹی فار سوشل سائنسز آف ریسرچ ایسوسی ایشن ۔ نورالعارفین صدیقی ، معروف ٹی وی اینکر ۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے طلباء زیان احمد خان اور جویریہ بنت شاہدطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔