پناہ گاہ
مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔
مون گڑیا یہ کہہ کر گھر کے اندر چلی گئی۔ چند لمحوں بعد مون اپنی بڑی رین کوٹ پہنے مونا گڑیا کے ساتھ چلتی ہوئی نشیبستان کی طرف جا رہی تھی۔ مونا نے بھی ایک موٹی، بھورے رنگ کی اونی جرسی پہن لی تھی جو مون گڑیا کی خالہ نے خود بُنی تھی۔
وہ دونوں بہت مشکل سے نشیبستان میں داخل ہوئیں، اس وقت پگڈنڈی بہت خراب تھی اور ہلکی بارش کی وجہ سے پھسلن بھی ہو گئی تھی۔ ویسے بھی یہ تنگ وادی کا علاقہ تھا جہاں عام جانوروں کیلئے چلناآسان نہ تھا، مگر مون گڑیا اور مونا کو ان راستوں پر چلنے کی عادت ہو چکی تھی۔
ارے وہ دیکھو مون گڑیا! مونا کے اشارے پر اس نے دیکھا کہ سیاہ عقاب شدید سردی کی وجہ سے ادھر ادھر محفوظ جگہ تلاش کر رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر بندر راجہ بھی کانپتے دکھائی دیے اور چیتا بھی گھنی جھاڑی میں منہ چھپائے نظر آیا۔ شدید دھند اور بارش نے مل کر عجیب، بھیانک سا سماں پیدا کر دیا تھا۔سب جانوروں کو سردی آنے سے پہلے ہی اپنا اپنا ٹھکانہ بنانا چاہیے تھا۔ یہ دیکھ کر مونا نے افسوس سے کہا۔
یہ تو ٹھیک ہے مونا، لیکن اب تو جان بچانے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہو گا، مون گڑیا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور پھر نشیبستان میں اپنے لیے بنائے گئی چھوٹی پناہ گاہ کی طرف بڑھ گئی، جہاں اس نے اپنے کچھ اوزار اور سامان رکھا ہوا تھا۔ دونوںنے مل کر سوکھی گھاس اور لکڑیاں جمع کر کے الاؤ جلا یا۔ کچھ گرمی ہوئی تو دوسرے پرندے اور جانور بھی وہاں آکر آگ کے گرد بیٹھ گئے۔
سردی کی شدت میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی لپیٹ میں اب پورا نشیبستان آگیا ہے۔ چنانچہ اب ہمیں مل کر سوچنا ہے کہ اس سے نمٹنے کیلئے کیا کریں۔ مون گڑیا نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مون گڑیا! تم ٹھیک کہہ رہی ہو، ہمیں پہلے ہی کوئی انتظام کرنا تھا، لیکن اب مزید نقصان سے بچنے کیلئے جلدی کچھ کرنا ہو گا، ریچھ استاد نے اپنی بھاری آواز میں کہا۔
ہم سب تیار ہیں مون گڑیا! بندر راجہ نے اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا تو پھر مون گڑیا نے ان سب کو ایک تجویز دی اور کہا: تم سب آج ہی سے یہ کام شروع کر دو، تاکہ مزید سردی سے بچا جا سکے۔ کچھ ہی دیر میں نشیبستان میں کام شروع ہو گیا۔ ریچھ استاد اور جنگلی بیل نے قریبی چٹان سے پتھر لانے شروع کیے، زیبرے اور بندر راجہ نے مون گڑیا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ایک بڑا شیلٹر بنانا شروع کیا، دوسری طرف سیاہ عقاب اور بگلا نے مل کر درخت کی چھوٹی ٹہنیاں اور پتے جمع کئے ۔ شام تک ایک مضبوط پناہ گاہ بن چکی تھی۔
مونا اور مون گڑیا نے اس دوران پناہ گاہ کے قریب چھوٹے پرندوں کیلئے ایک بڑا گھونسلا بنایا۔ جس میں نرم گھاس اور پر بھی رکھ دیے، تاکہ وہ سردی سے بچ سکیں۔ جب شیلٹر میں الاؤ جلایا جاتا تو اس کی گرمی گھونسلے تک بھی پہنچتی۔ شیلٹر کے اندر چیتا کی لائی ہوئی موٹی گھاس کی چٹائیاں بچھا دیں اور اس میں ایک طرف آگ جلانے کیلئے جگہ بھی بنادی اور ہوا کی نکاسی کیلئے سوراخ بھی بن گیا، تا کہ دھواں اندر جمع نہ ہو۔
مون گڑیا اور مونا نے پناہ گاہ میں جا کر سب کی محنت کو سراہا اور شاباشی دیتے ہوئے ان سے وعدہ لیا کہ وہ اس سرد موسم میں ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے۔ ننھے پرندوں کی ذمے داری ریچھ استاد کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ تم ہر روز ان کی خبر گیری کرو گے، جس پر اس نے خوشی سے سر ہلایا۔
اب سب پرندے اس بڑے گھونسلے میں بیٹھ کر مون گڑیا اور مونا کا شکر یہ ادا کر رہے تھے۔ چیتا ایک بار پھر الاؤ جلانے کی تیاری میں لگ گیا۔ پھر سب نے مل کر یہ گیت گایا: ’’ موسم سرما شور مچاتا آیا‘‘۔ جنگل میں منگل کا سماں پیدا ہو چکا تھا۔