31ویں برسی:ظہیر کاشمیری،ترقی پسندی کی سچی تصویر

تحریر : سعید واثق


ان کی لڑائی ان تمام دانشوروں کی لڑائی ہے جو اقتصادی اور تہذیبی طور پر انسان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

مختصر سوانح

ظہیر کاشمیری 21 ستمبر،1919ء کو امرتسرمیں پیدا ہوئے۔اصل نام پیرزادہ غلام دستگیر تھا۔ انہوں نے میٹرک ایم اے او ہائی سکول امرتسر سے، بی اے ایم اے او کالج امرتسر سے کیا اور ایم اے (انگریزی) خالصہ کالج امرتسر سے کیا ۔ زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔گیارہ برس کی عمر سے شعر گوئی کی ابتدا ہوگئی تھی۔تقسیم ہند سے قبل ہی لاہور آگئے تھے۔ابتدا میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی خدمات انجام دیں۔1959،میں روزنامہ ’’احسان‘ ‘میں ’مجنوں‘کے نام سے کالم لکھتے رہے۔ ’’سویرا‘‘ کی ادارت کی۔فلم ’’تین پھول‘‘ کی کہانی لکھی اور ہدایت کاری بھی کی۔ روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور سے بھی وابستہ رہے۔12دسمبر1994ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ظہیر کاشمیری کا شمار اُردو کے ان چند قد آور شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اُردو شاعری خصوصاً غزل کو نیا رنگ دیا۔ہم عصر تاریخ کا کوئی واقعہ یا کوئی ایسی جدو جہد نہیں جس نے ان کے فکر و جذبہ کو تحریک نہ دی ہو اور جسے انہوں نے فن کے سانچے میں نہ ڈھالا ہواُن کی تصانیف میں ’’عظمتِ آدم‘‘، ’’تغزل‘‘، ’’چراغِ آخرِ شب‘‘، ’’رقصِ جنوں‘‘، ’’جہانِ آگہی’’، ’’ حرفِ سپاس‘‘، ’’اوراق ِمصو‘ر‘ اور تنقیدی مضامین کامجموعہ’’ادب کے مادی نظریے‘‘شامل ہیں۔

 

ظہیر کاشمیری کی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1936سے ہوا،جب وہ میٹرک  میں تھے۔ اُس وقت تک ان کی زندگی کم و بیش ان تمام تلخیوں سے دو چار ہو چکی تھی جن سے ایک نچلے درمیانہ طبقے کا فرد گریز کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا۔ جہالت، مفلسی اور تشدد ان کے ماضی کا اثاثہ تھے جنہوں نے ذہن پر اثر انداز ہو کر موت، ہراس اور بداعتمادی کی صورت اختیار کرلی تھی۔ان حالات میں ظہیر نے شعر کہنا شروع کئے تو انہیں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی فرار کا راستہ مل گیا۔ انہوں نے خارجی ٹہوکوں سے بچنے کیلئے شاعری میں پناہ ڈھونڈلی اور زندگی کی تلخ حقیقتوں سے بچنے کیلئے اپنے گرد ’ ’بے کار‘‘ رومان کے دائرے بننا شروع کردیئے۔

وہ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ اُس وقت میرے خیالوں میں زندگی کی کوئی گہرائی یا پیچیدگی نہ تھی۔ میں ابھی زندگی اور کائنات کے عقلی تجربوں سے کوسوں دور تھا۔ میرے کچے جذبوں میں تفکر کی کمی تھی۔ اس لئے کہ تفکر سن رسیدگی اور مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ میں ہلکی ہلکی بحروں میں روایتی عشقیہ مضامین باندھتا اور انہیں مقامی مشاعروں میں جا کر تحت اللفظ سنا آتا۔میرا ابتدائی فن اس طالب علم کی شاعری کا ذہنی عکس ہے جو عام درمیانہ طبقہ میں پیدا ہوا، جس نے گھریلو تشدد کا تجربہ کیا، جسے گستاخی اور بغاوت سے بچنے کیلئے روایت اور منقولیت کے منتر یاد کرائے گئے اور جو ماضی اور گرد و بیش کی المیہ کیفیت سے متاثر ہو کر غم جاناں میں لذت مرگ کو تلاش کرنے لگا‘‘۔

انہی دنوں ہندوستان کے گوشے گوشے میں انجمن  ترقی  پسند مصنفین کے یونٹ بننا شروع ہو گئے؛ چنانچہ ظہیر جو مکمل طور پر او ڈی پس بن چکے تھے سچائی کی کھوج میں ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر اس کے بھی ممبر بن گئے۔ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مقامی دائرہ مطالعہ سے وہ مستقلاً عمرانی اور سماجی مسائل کے متعلق تعلیم حاصل کرتے رہے، کانگرس کی تاریخ کو سمجھا، برطانوی سامراج کی نیچر سے واقفیت حاصل کی۔ اشتمالیوں کی عالمگیر جدوجہد پر لیکچر سنے، ٹریڈ یونینوں اور کسان سبھائوں کے انقلابی کارناموں سے واقف ہوئے، اس خیال انگیز تعلیم نے ان میں خود اعتماد پیدا کر دی اور نامواقف حالات کو بدل دینے کا عزم بیدار کردیا۔ یوں ظہیر نے پہلی بار زندگی کو زندہ حقیقت جاننا شروع کر دیا۔ظہیر 1945ء کے وسط تک مقامی، صوبائی اور کل ہند مزدور تنظیموں میں کام کرتے رہے۔ اس عرصہ میں نقص امن اور بلوے کے الزام میں دوبار گرفتار بھی کیا گیا۔ والدین ان کی سیاسی سرگرمیوں سے خائف ہو کر 1946ء ہی میں گھر سے نکال چکے تھے اس لئے مزدور  سرگرمیوں کا سارا زمانہ انہوں نے ایک تنگ و بوسیدہ کمرے میں بسر کیا۔ اس کمرہ کے بیرونی دروازے کا بالائی حصہ بالکل کھلا تھا اور تالہ لگانے کے باوجود دو موٹے تازے آدمی بیک وقت کمرہ میں داخل ہو سکتے تھے۔ اس کمرہ سے کئی بار ان کی کتابیں چوری ہوئیں۔ 

اسی دور میں کل ہند بھکنہ کسان کانفرنس ظہیر کاشمیری کے ادبی شعور کیلئے تازیانہ ثابت ہوئی۔ اس کانفرنس میں ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس مشاعرے میں ایک خالص سیاسی نظم پڑھی۔ کانفرنس کے خاتمہ پر قریباً 500 مندوبین اور مقامی کارکنوں کے سامنے خود تنقیدی کرتے ہوئے پنجاب کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری سوہن سنگھ جوش نے مذکورہ نظم پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا کہ شاعر کیلئے بہتر تھا کہ  وہ یہ نظم لاہور کے کسی گرلز کالج میں سنا آتا۔ اس فقرے سے ظہیر کے فنی غرور کو بہت ٹھیس لگی۔ وہ اس فقرہ کا اصل مفہوم تو نہ سمجھ سکے لیکن انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ مار کسی طرز تنقید سے ضرور واقفیت حاصل کریں گے؛ چنانچہ انہوں نے مار کسی تنقید کو اپنے مطالعہ کا مستقل موضوع  بنا لیا۔مار کس اور اینگلز کی جمالیاتی تصریحات کو سمجھا، لینن کے نظریہ عکس سے فیض حاصل کیا، گور کی سے اکتساب فن کیا ،اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور روس کے جدید ناقدوں جیمزٹی فیرل، ایلک ویسٹ، رالف فوکس، کڈویل، میکائل لفٹز اوروی کیمی نوف وغیرہ کو بھی جستہ جستہ دیکھ ڈالا۔ وہ جس تنقیدی کتاب کا مطالعہ کرتے اس کے اقتباسات باقاعدگی سے محفوظ کرتے۔ اور پھر ان اقتباسات سے تنقیدی مضمون مرتب کر لیتے۔  یہ تنقیدی مضمون عدیم الفرصتی کے باعث اگرچہ کہیں کہیں تشنہ اور نامکمل رہ جاتے۔ اس کے باوجود ملک کے ادبی حلقوں نے انہیں بہت پسند کیا اور یوں ظہیر نے ادبی تنقید کے موضوع پر لکھنا شروع کر دیا۔

1947ء کے وسط میں ظہیر نجی معاملے اس طرح الجھ گئے کہ انہیں اکتساب فن نہیں اکتسابِ زر کیلئے لاہور آنا پڑا۔ یہاں وہ ادبی صلاح کار  کی حیثیت میں فلم کمپنیوں سے منسلک ہو گئے۔ اس ماحول میں آکر انہیں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی سپاہی لینن گراڈ کا مورچہ چھوڑ کر ہالی وڈ میں گھٹیا قسم کا عشق فرمانے چلا آیا ہو۔ اب ان کے ارد گرد مزدور نہ تھے۔ شہرہ آفاق سٹہ باز تھے۔ یہاں بحثوں کا موضوع، انسانی ارتقا یا فلسفہ اجتماع نہ تھا،۔ پروڈکشن کے میزانئے تھے یا نگار خانوں کے رومان۔لاہور میں اس وقت حلقہ اربابِ ذوق کے علاوہ اور کوئی ادبی ادارہ نہ تھا؛ چنانچہ وہ ایک مدت تک اس ادارہ کے محفلوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے رہے۔تقسیم ہند کی خبر  سُن کر ظہیرکاخاندان امرتسر سے بھاگا لیکن لاہور صحیح و سالم نہ پہنچ سکا۔ راستہ میں ان کے ایک چچا اور دو جوان چچیرے بھائی قتل کردیئے گئے۔ ادھر لاہور میں فلمی صنعت پر بحران چھا چکا تھا۔ وہ اقتصادی اور سماجی رشتے جو انہیں سالوں سے ایک خاص انداز میں ڈھال رہے تھے۔ آناً فاناً ٹوٹ گئے۔ ماحول یکسر بدل گیا۔اب ان کے ذہن کے نچلے خانوں میں وہ تمام انسانیاتی علوم آہستہ آہستہ ابھرنا شروع ہو گئے جنہیں کچھ عرصہ کیلئے وہ بالکل فراموش کر چکے تھے۔ظہیر  کاشمیری نے دوبارہ سیاسی لٹریچر پڑھنا شروع کر دیا اور دوسری عالمگیر جنگ سے پیدا ہونے والے قومی اور بین الاقوامی سیاسی محرکات کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنا لیا۔ا س مطالعہ سے وہ اپنے آپ کوقوی اور تازہ دم محسوس کرنے لگے اور پھرانہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین میں کام کرنا شروع کر دیا۔اس دور میں ظہیر کاشمیری کی نظمیں زیادہ واضح ہو گئیں ، ان کا انداز تحریر زیادہ تیز ہو گیا اور ان کی تخلیقی رفتار میں عددی اضافہ ہوا۔ اس دور میں انہوں نے سہل زبان کے سیاسی گیت بھی لکھے، جن میں مقامی اور وقتی موضوعات شامل تھے۔ ان کی غزل جو کم و بیش عشقیہ مطالب کے گرد بھی گھومتی تھی لیکن اس دور میں انہوں نے خارجی غزلیات کو پوری طرح اپنانے کی کوشش کی اور اسلوب یہ رکھا کہ علامتیں تو کلاسیکی ہی رہیں لیکن جدید موضوعات کے مطابق انہیں نئے مطالب اور نئے تلازموں کے ساتھ پیش کیا جائے۔ظہیر کی لڑائی ان ہزار ہا دانشوروں اور فنکاروں کی لڑائی ہے جو اقتصادی اور تہذیبی طور پر انسان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔

عملی زندگی میں آ نے کے بعد انہوں نے سمجھاکہ 

ترقی پسندی کا تصور مقامی اور وقتی نہیں بلکہ ہمہ گیر 

اور عمومی ہے،اس کا تعلق اولاً انسانی ارتقاء سے ہے

غزلیں

موسم بدلا رت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے

فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے

گل بوٹوں کے رنگ اور نقشے اب تو یوں ہی مٹ جائیں گے

ہم کہ فروغِ صبح چمن تھے پابندِ فتراک ہوئے

مہرِ تغیر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا

صدیوں کے افتادہ ذرے ہم دوشِ افلاک ہوئے

دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا

پہلے پلکیں پر نم تھیں اب عارض بھی نمناک ہوئے

کتنے الھڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے

کتنے ہنس مکھ چہرے فصل بہاراں میں غم ناک ہوئے

برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعل خانہ دور نہ تھی

ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے

…………………

لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا

ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخ رو ہوئے

اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا

ہوتی نہ ہم کو سایہ دیوار کی تلاش

لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا

سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط

خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا

اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے

جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا

کتنے ہی انقلاب شکن در شکن ملے

آج اپنی شکل دیکھ کے میں دنگ رہ گیا

تخیل کی حدوں کا تعین نہ ہو سکا

لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا

کل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی

انساں مثالِ دست تہ سنگ رہ گیا

ہم ان کی بزم ناز میں یوں چپ ہوئے ظہیر

جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا

منتخب اشعار

آہ یہ مہکی ہوئی شامیں یہ لوگوں کے ہجوم

دل کو کچھ بیتی ہوئی تنہائیاں یاد آ گئیں

………………

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

………………

سونے پڑے ہیں دل کے در و بام اے ظہیر

لاہور جب سے چھوڑ کے جان غزل گیا

………………

سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط

خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا

………………

کوئی دستک کوئی آہٹ نہ شناسا آواز

خاک اڑتی ہے درِ دل پہ بیاباں کی طرح

………………

عشق جب تک نہ آس پاس رہا

حسن تنہا رہا اداس رہا

………………

اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے

جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا

………………

ظہیر کاشمیری کا منفرد کلام

تیری چشمِ طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پرُنم بھی

محبت خندۂ بے باک بھی ہے گریۂ غم بھی

تھکن تیرے بدن کی عُذر کوئی ڈھونڈ ہی لیتی

حدیثِ محفلِ شب کہہ رہی ہے زلفِ برہم بھی

بقدرِ دل یہاں سے شعلۂ جاں سوز ملتا ہے

چراغِ حسن کی لوَ شوخ بھی ہے اور مدھم بھی

میری تنہائیوں کی دل کشی تیری بلا جانے

میری تنہائیوں سے پیار کرتا ہے تیرا غم بھی

بہاروں کے غزل خواں آج یہ محسوس کرتے ہیں

پسِ دیوارِ گل روتی رہی ہے چشمِ شبنم بھی

قریب آتے مگر کچھ فاصلہ بھی درمیاں رہتا

کمی یہ رہ گئی ہے باوجودِ ربطِ باہم بھی

ظہیر، ان کو ہمارے دل کی ہر شوخی گوارا تھی

انہیں کرنا پڑے گا اب ہمارے دل کا ماتم بھی

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

محمد حسن عسکری ،رجحان ساز تنقید نگار

محمد حسن عسکری (15 نومبر 1919ء تا 18ر جنوری 1978ء) اردو ادبیات کے انتہائی اہم اور لائق توجہ ادیب تھے۔ بلاشبہ اردو تنقید ان کی پہچان ہے۔ انہوں نے نقد ادب میں نمایاں کارنامے سر انجام دیے اور تنقید کا رخ متعین کیا۔

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا