پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات
چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔
قانون کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا التوا صرف دو صورتوں میں ممکن ہے، یا تو عدالت سے حکمِ امتناع مل جائے یا حکومتِ پنجاب کوئی نئی قانون سازی کرے۔10 جنوری کی تاریخ اب زیادہ دور نہیں۔ بظاہر نئی قانون سازی کا امکان کم دکھائی دیتا ہے البتہ عدالت کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ ایسے میں یہ سوال شدت سے ابھر رہا ہے کہ پنجاب حکومت انتخابی تیاریوں کی طرف بڑھے گی یا عدالت سے وقتی ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کرے گی؟ یہ فیصلہ محض انتظامی نہیں بلکہ گہرے سیاسی اور آئینی اثرات کا حامل ہوگا کیونکہ بلدیاتی نظام براہِ راست آئین میں درج جمہوری تقاضوں سے جڑا ہوا ہے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے واضح طور پر متحرک نظر آتی ہیں۔ پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کے ذریعے پنجاب میں اپنے لیے سیاسی جگہ بنانا چاہتی ہے جبکہ جماعتِ اسلامی بھی بلدیاتی سطح پر اپنے وجود کو منوانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ دونوں جماعتیں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ قومی اور صوبائی سطح پر سیاست کی بحالی کا مؤثر راستہ نچلی سطح کی جمہوریت سے ہو کر گزرتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا حالیہ دورہ لاہور محض ایک رسمی سیاسی سرگرمی نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک واضح انتخابی حکمتِ عملی کارفرما ہے۔ پیپلز پارٹی بخوبی جانتی ہے کہ پنجاب کی سیاست میں دوبارہ قدم جمانے کابہتر ذریعہ بلدیاتی الیکشن ہے۔ نچلی سطح پر عوامی رابطہ، بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے سیاسی نیٹ ورک کی بحالی اور مقامی مسائل کے حل کا بیانیہ پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر پنجاب کی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات کے فوری انعقاد پر زور دے رہی ہے۔جماعتِ اسلامی بھی اس موقع کو ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں۔ بلدیاتی سیاست وہ میدان ہے جہاں جماعتِ اسلامی ماضی میں اپنی تنظیمی طاقت کا عملی مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ اس بار بھی جماعت کی کوشش ہے کہ شہری اور دیہی سطح پر متحرک ہو کر اپنے ووٹ بینک کو منظم کیا جائے۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو یہ ماضی میں بھی بلدیاتی انتخابات کرواتی رہی ہے اور بلدیاتی سطح پر اس کی جڑیں نسبتاً مضبوط سمجھی جاتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اس وقت صوبے میں خاصی متحرک اور فعال دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہو چکا ہے اور انتظامی سطح پر ایک واضح تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال مزید اہم ہو جاتا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں کسی بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں تو پھر بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کیوں؟
الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تیار ہے تو پنجاب حکومت کی جانب سے گریز کیوں؟ کیا یہ خدشہ ہے کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے سے صوبائی حکومت کا کنٹرول کمزور ہو جائے گا یا بلدیاتی نظام کے ذریعے ابھرنے والی نئی قیادت مستقبل کی سیاست میں کسی غیر متوقع دباؤ کا باعث بن سکتی ہے؟ یہی وہ سیاسی مصلحتیں ہیں جن پر کھل کر بات نہیں کی جا رہی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بلوچستان میں بھی حکومتی ٹال مٹول کے باوجود الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے پرعزم دکھائی ہے۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تیار ہے، رکاوٹ کہیں اور ہے۔ اگر بلوچستان میں انتظامی مشکلات کے باوجود بلدیاتی انتخابات ممکن ہیں تو پنجاب میں تاخیر کا جواز کیاہے۔
اسی تناظر میں اسلام آباد کی صورتحال کو دیکھا جائے تو وہاں بلدیاتی سیاست ایک مختلف مگر اہم رخ اختیار کر چکی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد ریجن کے سٹیک ہولڈرز کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ریجنل سیکرٹری اور چیئرمین بلدیات کمیٹی سمیت پارٹی کی مرکزی اور علاقائی قیادت نے شرکت کی۔پی ٹی آئی قیادت نے واضح کیا کہ بلدیاتی ایکٹ میں متنازع ترامیم کے باوجود پارٹی انتخابات میں حصہ لے گی۔ اسی مقصد سے بلدیات کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ، جس کے تحت مشترکہ انتخابی منشور اورانتخابی مہم کے لیے ٹیم تشکیل دی جائے گی۔ انتخابی مہم اور کاغذاتِ نامزدگی کے لیے ایک لیگل ٹیم کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ بلدیاتی سیاست اب محض مقامی حکومتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ قومی سیاست کی سمت متعین کرنے کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔ نچلی سطح پر سیاسی قوت کا مظاہرہ مستقبل کی بڑی سیاسی صف بندیوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔اگرچہ پی ٹی آئی کی مشکلات اور مقدمات کا سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔پی ٹی آئی کیلئے اب بڑا ایشو صرف بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور ان سے ملاقات ہے اور پارٹی کے ذمہ داران اس حوالے سے بڑے جذباتی نظر آ رہے ہیں۔ اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی کی جانب سے دھرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے تقریباً35ذمہ داران سمیت 400 افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے،ان میں بانی پی ٹی آئی کی تینوں بہنیں بھی شامل ہیں۔ یہ اقدام احتجاجی طریقہ کار اختیار کرنے کے خلاف ہے جسے افسوسناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ بانی پی ٹی آئی ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے غم و غصہ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ ان کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔ یہ عمل نہ قانونی ہے نہ سیاسی ۔پی ٹی آئی کے مظاہرین پر پانی پھینکنے اور مقدمات بنانے سے پاکستان کی اچھی تصویر دنیا کے سامنے نہیں جا رہی لہٰذا اس مسئلہ کا حل نکالا جائے اور مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے لیکن اس کیلئے دونوں طرف سے لچک کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں جس کا حل ممکن نہیں۔