جان و مال کا تحفظ، اخلاق عالیہ کی بنیاد
’’ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو حرام ہے ‘‘(صحیح مسلم) جس نے اپنے کسی مسلم بھائی کیخلاف کی جانے والی غیبت اور بدگوئی کی اس کی عدم موجودگی میں مدافعت اور جواب دہی کی تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ آتش دوزخ سے اس کو آزادی بخشے (شعب الایمان )
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حرام ہے اس کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو(صحیح مسلم)۔ رسول اکرمﷺ جس زمانہ اور علاقہ میں تشریف لائے ان میں ہر انسان کی یہی تین چیزیں غیر محفو ظ تھیں نہ کسی کی جان محفوظ تھی نہ کسی کا مال محفوظ تھا اور نہ کسی کی عزت کی قدر تھی ۔آپ ﷺ نے دوسروں کی ان تینوں چیزوں کی حفاظت کرنے کا حکم فرمایا۔ یہاں تک کہ آپﷺنے خود اپنی ذات کے ذریعہ ان اصولوں کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم فرما دیں۔
حضرت اسید ابن حضیرؓ جو ایک انصاری صحابی ہیں فرماتے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے گفتگو فرما رہے تھے ،مزاح و مذاق ان کے درمیان چل رہا تھاکہ رسول اللہﷺ نے ان کو کوکھ میں لکڑی لگا دی ،تو میں نے کہا کہ میں نے بدلہ لینا ہے،آپﷺ نے فرمایا کہ میں حاضر ہوں بدلہ لے لو ،انہوں نے کہا کہ آپﷺکے جسد اطہر پرکرتہ ہے جبکہ میرے جسم پرکرتہ نہیں تھا ،تو رسول اللہﷺ نے اپنا کرتہ مبارک اٹھایا،تو وہ صحابی آپﷺ سے لپٹ گئے اور جسد اطہر کو چوم لیا اور کہا کہ میرا یہی مقصد تھا۔ (ابودادؤ)
حضرت ابو ذر ؓ روایت کرتے ہیں کہ میرے اور میرے کسی (مسلمان) بھائی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اسے اس کی ماں کے حوالے سے عار دلائی تو اس نے نبی کریم ﷺکے پاس میری شکایت کر دی۔میں نبی کریم ﷺسے ملا تو آپﷺنے فرمایا: ’’ابوذر! تم ایسے آدمی ہو کہ تم میں جاہلیت (کی عادت موجود) ہے‘‘۔ میں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! جو دوسروں کو برا بھلا کہتا ہے وہ اس کے ماں اور باپ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوذر! تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت ہے، وہ (چاہے کنیز زادے ہوں یا غلام یا غلام زادے) تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تم انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان پر ایسے کام کی ذمہ داری نہ ڈالو جو ان کے بس سے باہر ہو، اگر ان پر (مشکل کام کی) ذمہ داری ڈالو تو ان کی اعانت کرو‘‘ (صحیح مسلم)۔
رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرام ؓکی تربیت بھی اس انداز سے فرمائی کہ جب یہی صحابہ کرامؓ مسلمانوں کے سربراہ بنے تو جب بھی جان و مال اور عزت کا خوب خیال رکھا۔ الغرض اسلام نے مسلمانوں کو مکمل طور پر اس بات کی تعلیم دی اور پابند کر دیا کہ ہر انداز سے دوسرے مسلمان کی جان و مال اور اس کی عزت کا تحفظ کیا جائے۔ چنانچہ اسلام نے ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارنے سے منع کیا اور مسلمان کی شان یہ بیان کی کہ مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان سے اور اس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
اسی طرح اسلام نے یہ لازم کر دیا کہ مسلمان اپنے قول اور عمل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دے اور اگر بالفرض دوسرا شخص عزت ،مال اور جان کی حفاظت نہ کرے تو پھر اسلام نے اس کیلئے بھی اخلاقی ضابطے مقرر فرمادیئے جن میں سے کچھ قوانین حاکم وقت کے حوالہ کر دیئے کچھ خود اس انسان کے ذمہ لگا دیئے اور اعلی ترین اخلاقی خوبیوں صبر، عمل اور عفو و درگزر کی تعلیم دی۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو (بے توفیق) مسلمان کسی دوسرے مسلمان بندے کو کسی ایسے موقع پر بے مدد چھوڑ دے گا جس میں اس کی عزت پر حملہ ہو، اور اس کی آبرو اُتاری جاتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی ایسی جگہ اپنی مدد سے محروم رکھے گا جہاں وہ اللہ تعالی کی مدد کا خواہشمند اور طلب گار ہوگا۔ اور جو (با توفیق مسلمان) کسی مسلمان بندے کی ایسے موقع پر مدد اور حمایت کرے گا جہاں اس کی عزت و آبرو پر حملہ ہوتو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر اس کی مدد فرمائے گا جہاں وہ اس کی نصرت کا خواہشمند اور طلبگار ہوگا۔ ( ابوداؤد)
رسول اللہ ﷺ اس طرح آپﷺ سے پہلے تمام انبیاء ؑبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین حق کی دعوت اور ہدایت لے کر آئے تھے جو لوگ ان کی دعوت کو قبول کر کے ان کا دین اور ان کا راستہ اختیار کر لیتے تھے وہ قدرتی طور سے ایک جماعت اور امت بنتے جاتے تھے، یہی دراصل اسلامی برادری اور امت مسلمہ تھی۔
جب تک رسول اللہﷺ اس دنیا میں رونق افروز رہے، یہی برادری اور یہی امت آپ ﷺکا دست و بازو اور دعوت و ہدایت کی مہم میں آپ کے رفیق و مدد گار تھی اور آپ کا اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد قیامت تک آپ ﷺ کی نیابت میں اس مقدس مشن کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ اس کیلئے جس طرح ایمان و یقین تعلق مع اللہ اور اعمال و اخلاق کی پاکیزگی اور جذ بہ و دعوت کی ضرورت تھی اس طرح دلوں کے جوڑ اور شیرازہ بندی کی بھی ضرورت تھی۔ اگر دل پھٹے ہوئے ہوں، اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف و انتشار اور خود آپس میں جنگ و پرکار ہو تو ظاہر ہے کہ نیابت نبوت کی یہ ذمہ داری کسی طرح بھی ادا نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے رسول اللہﷺ نے اسلامیت کو بھی ایک مقدس رشتہ قرار دیا۔ اور اُمت کے افراد اور مختلف طبقوں کو خاص ہدایت و تاکید فرمائی کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھیں اور با ہم خیر خواہ اور معاون و مددگار بن کے رہیں۔ ہر ایک دوسرے کا لحاظ رکھے اور اس دینی ناطہ سے ایک دوسرے پر جو حقوق ہوں ان کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔
اس تعلیم و ہدایت کی ضرورت خاص طور سے اس لئے بھی تھی کہ امت میں مختلف ملکوں اور نسلوں اور مختلف طبقوں کے لوگ تھے، اور جن کے رنگ و مزاج اور جن کی زبانیں مختلف تھیں اور یہ رنگا رنگی آگے چل کر اور بڑھنے والی تھی۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے اہم ہدایات ارشاد فرمائیں۔ جیسا کہ حضرت جابرؓروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان بندے کو کسی ایسے موقع پر بے مدد چھوڑ دے گا جس میں اس کی عزت پر حملہ ہواور اس کی آبرو اتاری جاتی ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو ایسی جگہ اپنی مدد سے محروم رکھے گا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہش مند اور طلب گار ہو گا۔ اور جو مسلمان کسی مسلمان بندے کی ایسے موقع پر مدد اور حمایت کرے گا جہاں اس کی عزت و آبرو پر حملہ ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر اس کی مدد فرمائے گا جہاں وہ اس کی نصرت کا خواہش مند اور طلب گار ہوگا۔
حضرت معاذ بن انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺنے ارشاد فرمایا جس نے کسی بددین منافق کے شرسے بندہ مومن کی حمایت کی (مثلاً کسی شریر بددین نے کسی مومن بندے پر کوئی الزام لگایا اور کسی با توفیق مسلمان نے اس کی مدافعت کی تو اللہ تعالیٰ قیامت میں ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جو اس کے جسم کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا اور جس نے کسی مسلمان بندے کو بد نام کرنے کیلئے اس پر کوئی الزام لگایا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کے پل پر قید کر دے گا اس وقت تک کیلئے کہ وہ اپنے الزام کی گندگی سے پاک صاف نہ ہو جائے (سنن ابو داؤد)۔
مطلب یہ ہے کہ کسی بندہ مومن کو بد نام اور رسوا کرنے کیلئے اس پر الزام لگانا اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ایسا سنگین اور سخت گناہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا اگر چہ مسلمانوں میں سے ہو، جہنم میںاس وقت تک قید میں رکھا جائے گا جب تک کہ اپنے اس گناہ کی گندگی سے پاک وصاف نہ ہو جائے۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گناہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابل معافی ہے لیکن آج ہم مسلمانوں کا یہ پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔
حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلم بھائی کی آبرو پر ہونے والے حملہ کا جواب دے اور اس کی طرف سے مدافعت کرے تو اللہ تعالیٰ کایہ ذمہ ہو گا کہ وہ قیامت کے دن دوزخ کی آگ کو اس سے دور رکھے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِین (اور ہمارے ذمہ ہے ایمان والوں کی مدد کرنا)۔ (شرح السنہ)
اسی طرح حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس بندے نے اپنے کسی مسلم بھائی کے خلاف کی جانے والی غیبت اور بدگوئی کی اس کی عدم موجودگی میں مدافعت اور جواب دہی کی تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ آتش دوزخ سے اس کو آزادی بخشے۔ (شعب الایمان للبیہقی)۔ مذکورہ احادیث مبارکہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک بندہ مسلم کی عزت و آبرو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی قدر محترم ہے اور دوسرے مسلمانوں کیلئے اس کی حفاظت و حمایت کس درجہ کا فریضہ ہے اور اس میں کوتاہی کس درجہ کا سنگین جرم ہے۔ افسوس ہے کہ ہدایت محمدیﷺ ملنے کے بعد اس اہم باب کو امت نے بالکل ہی فراموش کر دیا ہے۔ بلاشبہ یہ ہمارے اُن اجتماعی گناہوں میں سے ہے جن کی پاداش میں ہم صدیوں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہیں ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ذلیل ہو رہے ہیں۔