خادمِ خاص (آخری قسط )
سید نا انس رضی اللہ عنہ نے سینکڑوں احادیث بیان کی ہیں۔ آپؓ صرف وہی حدیث بیان کرتے تھے جس کے صحیح ہونے پر انہیں پختہ یقین ہوتا تھا۔
اس قدر احتیاط اور یقین کے باوجود حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے: ’’اَوْ کَمَا قَالَ نَبِیّ ﷺ‘‘یعنی جس طرح اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ صرف اس خوف کی بنا پر کہ ہو سکتا ہے ان سے کوئی بات رہ گئی ہو، شاید ان سے بھول ہو گئی ہو۔آیئے! چند احادیث کا مطالعہ کریں جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہیں اور ان کی مدد سے اپنی زندگی کے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں۔
سیدناانس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے اور پانی طلب کیا۔ ہمارے پاس ایک بکری تھی، اس کا دودھ دوہا۔ پھر میں نے اس میں پانی ملا کر آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ سید نا ابو بکر رضی اللہ عنہ آپﷺ کے بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور سید نا عمر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ایک دیہاتی آپﷺ کے وائیں طرف بیٹھا ہوا تھا۔ جب آپ ﷺ دودھ پی کر فارغ ہوئے تو کچھ دودھ پیالے میں باقی بچ گیا۔ سید نا عمرؓ نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ اسے ابو بکرؓ کو دے دیجئے۔ لیکن آپﷺ نے اسے دیہاتی کو عطا فرمایا کیونکہ وہ دائیں طرف تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا دائیں طرف بیٹھنے والے، دائیں طرف بیٹھنے والے ہی حق رکھتے ہیں۔ پس خبر دار دائیں طرف ہی سے شروع کیا کرو۔ پھر انس رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ فرمایا: یہی سنت ہے۔
انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا’’ اگر ایک کام کرنے کی تجھ میں طاقت ہو تو ضرور کرو۔ جب تو صبح یا شام کرے تو تیرے دل میں کسی کے متعلق کچھ نہ ہو( یعنی کسی کے خلاف کینہ، حسد اور بغض وغیرہ نہ ہو)‘‘۔سیدناانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے۔
سیدناانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کو دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ پوری زندگی چوڑی پتلی روٹی میسر نہ ہوئی۔حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ صفوں کو درست کرو صفوں کے درست ہونے ہی سے نماز ہوتی ہے‘‘۔
سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اے آدم کے بیٹے، تو نے مجھے پکارا نہیں، میری طرف تو نے رجوع ہی نہیں کیا۔ میں تیرے گناہ معاف کر دیتا خواہ وہ کتنے بھی زیادہ ہوتے۔ مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں، مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمانوں کے کناروں تک بھی جا پہنچیں اور تو مجھ سے معافی مانگ لے تو میں تیرے تمام گناہ معاف کر دوں گا، مجھے ایسا کرنے میں کسی کی کوئی پروا نہیں۔اے آدم کے بیٹے! اگر تو زمین بھر کے گناہ لے آئے، اور تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو میں تیرے تمام گناہوں کو معاف کر دوں گا‘‘۔
سیدنا انس ؓ فرماتے ہیں کہ ابو طلحہ ؓ مدینہ منورہ کے انصار میں سب سے زیادہ مالدار صحابی تھے۔ ان کے پاس کھجوروں کے باغات بھی تھے۔ ابو طلحہؓ کو اپنے تمام مال میں سب سے زیادہ پیارا باغ ’’بیرحاء‘‘ تھا جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ اس باغ میں جاتے وہاں میٹھا پانی پی کر اللہ کا شکر ادا کرتے۔ اس باغ کا پانی بہت مزیدار اور خوشبو والا تھا۔ ابو طلحہ ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب مال ’’بیرحاء‘‘ باغ ہے۔ میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اللہ سے اس کے بدلے ثواب کا طلب گار ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ جس طرح چاہیں اس کو تقسیم کر دیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ابو طلحہؓکی ایمان افروز بات سن کر فرمایا:’’ بہت خوب یہ بہت نفع بخش مال ہے، یہ بہت نفع بخش مال ہے‘‘ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے محبت کے ساتھ کہا: ’’ ابو طلحہ (رضی اللہ عنہ) میرا خیال ہے، آپ اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کر دیں‘‘ ابو طلحہ ؓنے عرض کیا ’’ اللہ کے رسول ﷺ جس طرح آپؐ پسند فرمائیں‘‘۔ پھر ابو طلحہؓ اس باغ کو اپنے عزیز و اقارب کے درمیان تقسیم کر دیا۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ جب جہاد کیلئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوتے تو اللہ کے حضور دعا کرتے: ’’ اے میرے پروردگار! تومیرا حامی و ناصر ہے، تیری رضا کیلئے، میں میدان جنگ میں کود پڑتا ہوں۔ تیرے دین کی خاطر میں جگہ جگہ گھومتا ہوں اور تیر رضا کیلئے ہی جہاد کرتا ہوں‘‘۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کثرت سے یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ’’رَبَّنَااٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘،ترجمہ: ’’اے اللہ ہم کو دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا لینا۔