مسائل مل بیٹھ کر حل کرنا ہوں گے
پاکستان تحریک انصاف سخت مشکلات کا شکار نظرآرہی ہے۔ مالی مشکلات ہوں یا تنظیمی، ہرطرف سے قیادت کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے۔ پارٹی کے اندرٹوٹ پھوٹ دو سال قبل شروع ہوچکی تھی، اب یہ نقطہ عروج پر پہنچتی نظرآرہی ہے۔
سیاسی قیادت بے بس ہے، کوئی بڑالیڈر نہیں جومعاملات کو سنبھال سکے، قیادت کے مابین رابطوں کا فقدان ہے۔ سیاسی قیادت کے ساتھ وکلا ونگ بھی کشمکش کاشکار ہے، جس کی مثال قاضی انور ایڈووکیٹ کا استعفیٰ ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پارٹی کے مالی معاملات چلانے کیلئے ارکان اسمبلی کو اپنی تنخواہوں میں سے حصہ دینے کا کہاگیاہے۔کہاں وہ دن کہ کروڑوں روپے کی فنڈنگ ہوتی تھی اور کہاں یہ حالت کہ ارکان اسمبلی سے چندے مانگے جا رہے ہیں۔ وجوہات کیا ہیں، یہ دیکھنا ضروری ہے۔
بتایاجاتا ہے کہ پارٹی کو جس طریقے سے گزشتہ چند سال کے دوران چلانے کی کوشش کی گئی یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ کوئی پارٹی سٹرکچر نہیں بنا،پارٹی انتخابات ہوئے بھی تو برائے نام۔ صوبائی حکومت پارٹی کے معاملات پر غالب رہی۔سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پارٹی معاملات میں دخیل رہے۔ تمام فیصلے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوتے تھے۔جلسوں اوردھرنوں کا اعلان بھی وہیں سے ہوتاتھا۔پارٹی قیادت پس منظر میں چلی گئی اور وزیر اعلیٰ ہرمنظر پر چھائے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ناکامی کا سارا بوجھ بھی انہیں ہی اٹھانا پڑا اور اسی کے ساتھ وہ رخصت ہوئے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے حاضردماغی سے کام لیا اور وہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے سے انکار کردیا جس کی ذمہ داری پارٹی پر بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سہیل آفریدی کوئی بڑا نعرہ یا دعویٰ کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان پر پارٹی کارکنوں کی جانب سے دباؤ ہے مگر وہ یہ برداشت کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے جلسوں کے ذریعے عوامی رابطہ مہم شروع کررکھی ہے۔ کوہاٹ جلسہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔یوں لگ رہا ہے کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی ان جلسوں کے ذریعے نہ صرف ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ وہ کچھ وقت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکومتی امور کو سمجھا جاسکے،پارٹی معاملات پر گرفت مضبوط کی جاسکے،حکومت اور پارٹی کے مابین اچھاورکنگ ریلیشن شپ بنایا جاسکے، جو معاملات پارٹی کے ہیں وہ پارٹی کے سپرد کئے جاسکیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ نومئی اور 26 نومبر جیسے واقعات سے بھی بچا جاسکے۔ یہ ایک اچھی حکمت عملی لگ رہی ہے، بظاہر فائدہ مند بھی نظرآرہی ہے لیکن اس میں ایک نقص ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز ایسی حکمت عملیوں کے عادی نہیں۔ اس کا عملی مظاہر کوہاٹ جلسے کے دوران بھی کیاگیاجب پی ٹی آئی کی قیادت کی تقاریر کے دوران پارٹی کارکنوں کی جانب سے ’اڈیالہ جیل چلو‘ جیسے نعرے لگائے گئے۔ کارکنوں کو گزشتہ دو سال سے یہ پیغامات دیئے جاتے رہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، عدالتوں سے انصاف ملنا مشکل ہے اور بانی پی ٹی آئی کو باہرلانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے اسلام آبادپر چڑھائی۔تاہم پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے اب یہ حکمت عملی بدلتی نظرآرہی ہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی تو دی جاتی ہے لیکن کوئی تاریخ نہیں دی جارہی۔ آخری مہم جوئی کے جو نتائج سامنے آئے تھے اس سے پارٹی کی مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ ان میں خاصا اضافہ ہوا۔ نئے کیسز بنے، عدالتوں کے ذریعے بھی گھیرا تنگ کیاگیا اور صوبائی حکومت کو پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے باقاعدہ ہدایت کی گئی کہ کسی جلسے جلوس کیلئے سرکاری وسائل کا استعمال نہیں کیاجائے گا۔اس سے قبل علی امین گنڈاپور حکومت کی جانب سے جلسے جلوسوں اور دھرنوںمیں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔
پی ٹی آئی کی سرکاری اداروں کو سیاسی اثر ورسوخ سے پاک کرنے کی پالیسی بھی اس دوران شدید متاثر ہوئی۔ چیف سیکرٹری کو باقاعدہ حکمنامہ جاری کرنا پڑا کہ سرکاری اہلکار کسی جلسے جلوس میں شرکت نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی اب اگر کسی بھی احتجاجی جلسے یا دھرنے کیلئے اسلام آباد کا رخ کرتی ہے تو اسے وفاق کی جانب سے سخت ردعمل کاسامناکرناپڑے گا،دوئم وہ وسائل بھی پیداکرنے ہوں گے جن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو باہرنکالاجاسکے اور اسلام آبادتک پہنچایاجاسکے، سوئم اسلام آبادمیں نومبر 2024 ء میںہونے والے احتجاج کے بعد جو حالات بنے ان سے کارکنوں کا اعتمادمجروح ہوا، اس اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے لانگ مارچ یا احتجاج یا مذاکرات کی ذمہ داری علامہ راجہ ناصرعباس اور محمود خان اچکزئی کو سونپ دی گئی ہے۔یہ بوجھ صوبائی حکومت کے کندھوں سے اتار کر پارٹی کے کندھوں پر ڈال دیاگیا ہے۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نہ صرف سیاست میں نوآموز ہیں بلکہ حکومتی امور بھی ان کیلئے نئے ہیں، اتنے بڑے فیصلے وہ نہیں کرسکتے۔ علی امین گنڈاپور کی حکومت اورپارٹی معاملات پر گرفت مضبوط تھی، یہی وجہ ہے کہ احتجاج کرنے یا نہ کرنے یا منسوخ کرنے کافیصلہ وزیراعلیٰ ہاؤس سے ہی آتا تھا،لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ سہیل آفریدی اتنے بڑے فیصلے کرنے کی اہلیت فی الوقت نہیں رکھتے اورشاید وہ کرنا بھی نہیں چاہتے۔ ویسے بھی اس وقت صوبے میں گورننس کی حالت بہتر نہیں۔وزیراعلیٰ کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت پی ٹی آئی مفاہمت کی پالیسی پر چل رہی ہے۔ نئی سیاسی کمیٹی میں بہت سے ایسے نام شامل نہیں جو متنازع ہوچکے تھے۔
آنے والا سال پی ٹی آئی کیلئے سخت ہوسکتا ہے۔ اگرخیبرپختونخوا میں تیسری بار حکومت بنانے والی جماعت چاہتی ہے کہ اسے اگلی بار بھی حکومت ملے تو گورننس کے مسائل کی طرف توجہ دینی ہوگی۔فی الوقت توان کے ووٹرز ان سے اڈیالہ جیل جانے کے مطالبات کررہے ہیں لیکن ایک سال بعد یہی ووٹرارکان اسمبلی سے کارکردگی کا پوچھیں گے،اداروںکی تباہ حالی کا ذکرکریں گے،ہسپتالوں کی حالتِ زار کارونا روئیںگے، امن وامان کی صورتحال کا بھی پوچھا جائے گا۔وفاقی حکومت کے پاس گورنر راج کا آپشن تو موجود ہے لیکن ابھی وہ اسے استعمال نہیں کرناچاہتی۔ نومئی اور26 نومبر کے کیسزبھی عدالتوں میں ہیں اور پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے سروں پر لٹکتی تلواریں ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ صوبائی حکومت اپنے معاملات کی طرف توجہ دے اور احتجاج وجلسے جلوسوں کاکام پارٹی پر چھوڑ دیاجائے ورنہ جہاں پارٹی کے معاملات مزیدبگڑ سکتے ہیں وہیں پی ٹی آئی کو صوبائی حکومت کے ساتھ اپنے ووٹرز سے بھی ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ضروری ہے کہ آئندہ انتخابات میں جانے کیلئے موجودہ ارکان اسمبلی کے ہاتھ میں عوام کو دکھانے کیلئے کچھ تو ہو۔