ہمدردی:ایک عظیم اخلاقی فریضہ

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


’’ لوگوں سے تم اچھی بات کرو!‘‘ (سورۃ البقرہ) محبت و الفت اور عفو ودرگزر جیسے جذبات کا مظاہرہ کرنا ہمارامذہبی اور معاشرتی فر یضہ ہے ’’آپس میں ایک دوسرے سے نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ موڑو بلکہ آپس میں اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو‘‘(صحیح بخاری )’’اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، برائی کے بعد بھلائی کرنابرائی کو مٹادیتا ہے، اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا‘‘ (جامع ترمذی)

ہمدردی وہ اعلیٰ انسانی قدر ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا، ان کی مشکل کو اپنی مشکل جاننا اور ان کی بھلائی کیلئے بے لوث قدم اٹھانا دراصل وہ اخلاقی فریضہ ہے جس پر انسانیت کی بنیاد قائم ہے۔ آج کے تیز رفتار اور خود غرضی سے لت پت دور میں ہمدردی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ معاشی دباؤ، سماجی بے چینی اور روزمرہ مصائب نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے، ایسے میں ہمدردی کا ایک چھوٹا سا عمل بھی کسی کی زندگی میں امید کی نئی کرن جگا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہبی، اخلاقی اور سماجی اصول ہمیشہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی، خیرخواہی اور تعاون کی تلقین کرتے ہیں۔ ہمدردی نہ صرف ایک عظیم اخلاقی فریضہ ہے بلکہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا بنیادی ستون بھی جس میں ہر فرد دوسرے کیلئے سہارا بن سکے۔

انسانی برادری کی حیثیت سے ایک انسان پر دوسرے انسان کے کچھ حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں جن سے عہدہ برآہونا ہر مسلمان کا مذہبی فرض ہے۔مثلاًعدل و انصاف ، صداقت و سچائی ، محبت و الفت، ہمدردی و خیر خواہی، شفقت و مہربانی اور عفو و درگزر کا مظاہرہ کرنا اور ظلم و ستم ،جھوٹ و فریب، قہر و جبر اور تنگی وسختی سے معاشرۂ انسانی کو پاک و صاف رکھناہمارا قومی ومذہبی فرض ہے۔قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ لوگوں سے تم اچھی بات کرو‘‘ (سورۃ البقرہ)کہ یہ انسانیت کا فرض ہے جس میں کسی دین و مذہب کی تخصیص نہیں ہے تاکہ دین و مذہب اور نسل و قومیت کی اختلاف اس منصفانہ برتاؤ سے باز نہ رکھ سکے۔

 ایک دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’ اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف نہ کرو، تم عدل و انصاف کرو کہ یہ بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘‘(سورۃ المائدہ: 08)۔اِس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ’’جو چیزیں شرعاً مہلک یا کسی درجہ میں مضر ہیں اُن سے بچاؤکرتے رہنے سے جو ایک خاص نورانی کیفیت انسان کے دل میں راسخ ہوجاتی ہے اُس کا نام تقویٰ ہے ۔ تحصیل تقویٰ کے اسبابِ قریبہ و بعیدہ بہت سے ہیں ۔ تمام اعمالِ حسنہ اور خصالِ خیر کو اُس کے اسباب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ’’عدل وقسط‘‘ یعنی دوست و دُشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملہ میں جذباتِ محبت و عداوت سے قطعاً مغلوب نہ ہونا یہ خصلت حصولِ تقویٰ کے مؤثر ترین اور قریب ترین اسباب میں سے ہے۔ اِس لئے ’’ہو اقرب للتقویٰ‘‘ فرمایا (یعنی یہ عدل جس کا حکم دیا گیا تقویٰ سے نزدیک تر ہے) کہ اُس کی مزاولت کے بعد تقویٰ کی کیفیت بہت جلد حاصل ہوجاتی ہے۔(تفسیر عثمانی: ج 01ص 140)

 اس لئے کہ جب انسان دوسرے لوگوں کے حق میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیتا تو پھر اُس کے دل میں اُن لوگوں کے بارے میں حسد و کینہ اور بغض و نفرت کا بیج پڑجاتا ہے اس لئے نبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ حضرت مالک بن انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’آپس میں ایک دوسرے سے نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ موڑو بلکہ آپس میں اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو‘‘(صحیح بخاری: 6065)۔

اس لئے کہ جب انسان دوسرے لوگوں کے بارے میں حسد و کینہ اور بغض و نفرت کا شکار ہوتا ہے تو اُس کے دل میں اُن لوگوں کے بارے میں ظلم و ستم اور قہر و جبر کی آگ بھڑکنے لگتی ہے جس سے وہ اُن پر ظلم و ستم ڈھاتا ہے اور اُنہیں اپنے قہر و جبر سے دوچار کرتا ہے، اس لئے آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ: ’’جو شخص رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘یعنی جو شخص دوسرے لوگوں پر شفقت و مہربانی والا سلوک نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ بھی اُس پر رحم اور شفقت نہیں فرماتے ‘‘(صحیح بخاری:7376)۔

صرف یہی نہیں بلکہ سرور کائنات نبی اکرمﷺنے تو جانوروں کے ساتھ بھی ہمدردی و خیر خواہی کا حکم فرمایا ہے اور اس پر بھی اجر و ثواب کے فضائل بتائے ہیں۔ حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نبی اکرمﷺ حضرت ام مبشر انصاریہ رضی اللہ عنہا کے کھجور کے باغ میں تشریف لائے تو آپﷺ نے اُن سے دریافت فرمایا کہ یہ کھجور کا درخت کس نے لگایا ہے؟ کیا کسی مسلمان نے لگایا ہے یا کسی کافر نے؟ تو اُنہوں نے عرض کیا (کسی کافر نے نہیں) بلکہ ایک مسلمان نے لگایا ہے تو آپﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ جو مسلمان کوئی درخت لگائے گا یا کھیتی بوئے گا اور اُس سے کوئی انسان یاجانور کوئی چیز بھی کھائے گا تو وہ اُس کیلئے صدقہ ہو گا (صحیح بخاری: 1552)۔

 اسی طرح ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ۔ جس نے ایک جانور کے ساتھ نیک سلوک کیا تھا کہ اس کو اس کے کام پر ثواب ملا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! کیا جانوروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں بھی ثواب ملتا ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ ہر زندہ جگر والی چیزکے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے‘‘(صحیح بخاری: 2234)۔

ایک مرتبہ حضور ﷺنے حضرت ابوذر غفاریؓ سے ارشاد فرمایا کہ جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، برائی کے بعد بھلائی کرنابرائی کو مٹادیتا ہے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا‘‘ (جامع ترمذی: 1987)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور پاک ﷺ نے ہمیں پانچ باتیں گنوائیں، جن میں سے ایک یہ تھی کہ: ’’ تم لوگوں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے پسند کرتے ہو تو تم (کامل) مسلمان بن جاؤ گے‘‘ (جامع ترمذی:2305)۔ زکوٰۃ اور واجبی صدقات و خیرات کے ساتھ اسلام نے گو مسلمان فقراء و مساکین کو ہی مخصوص قرار دیا ہے تاہم نفلی و استحبابی صدقات و خیرات میں اسلام نے غیر مسلم فقراء و مساکین کی بھی رعایت رکھی ہے۔

 حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں غیر مسلم فقراء و مساکین کے حقوق و فرائض کا خوب خیال رکھا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک نابینا بوڑھے کو دیکھا کہ وہ ایک دروازے پر کھڑے ہوکر بھیک مانگ رہا ہے، تو حضرت عمر ؓ نے جاکر پیچھے سے اُس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا کہ تمہیں بھیک مانگنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟ اُس نے کہا کہ جزیہ ادا کرنے ، اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی عمر کی وجہ سے بھیگ مانگتا ہوں۔ حضرت عمر ؓنے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے آئے اور اپنے گھر میں سے اس کو کچھ دیا اور پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس یہ کہلواکر بھیجا کہ اس کو اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو دیکھو! اللہ کی قسم! اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی تو کھائیں لیکن اس کے بوڑھا ہونے پر اس کی مدد نہ کریں تو ہم انصاف کرنے والے نہیں ہوسکتے‘‘ (الفاروق299)۔

حضورِ اقدس ﷺنے ایک یہودی خاندان کو صدقہ دیا۔ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دو یہودی رشتہ داروں کو تین ہزار کی مالیت کا صدقہ دیا۔ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے غیر مسلم رشتہ دار کا قرض معاف کرنے کو ثواب کا کام بتایا ہے۔ حضرت ابومیسرہؓ، حضرت عمرو بن میمونؓ اور حضرت عمرو بن شرحبیل رحمہم اللہ صدقہ فطر سے عیسائی راہبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔

 روایات تفاسیر میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب مذہبی اختلافات کی بناء پر غریبوں کی مدد سے کنارہ کشی کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فوراً یہ آیت اتاردی : ’’ترجمہ: ان کو راہ پر لے آنا آپ کے اختیار میں نہیں ، اللہ جس کو چاہتا ہے راہ پر لاتا ہے اور جو بھلائی سے خرچ کرو وہ تمہارے ہی لئے ہے‘‘ (سورۃ البقرہ: 272)یعنی تم جو نیک کام کرو گے اُس کا ثواب بہ ہرحال تمہیں ملے گا۔

اِس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب آپ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مسلمانوں کے سوا اوروں پر صدقہ کرنے سے روکا اور اِس میں یہ مصلحت تھی کہ مال ہی کی غرض سے دین حق کی طرف راغب ہوں ، آگے یہ فرمادیا کہ یہ ثواب جب تک ہی ملے گا کہ اللہ کی خوشی مطلوب ہوگی تو یہ آیت نازل ہوئی اور اِس میں عام حکم آگیا کہ اللہ کی راہ میں جس کو مال دوگے تم کو اُس کا ثواب دیا جائے گا، مسلم غیر مسلم کسی کی تخصیص نہیں ، یعنی جس پر صدقہ کرو اُس میں مسلم کی تخصیص نہیں البتہ صدقہ میں یہ ضرور ہے کہ محض لوجہ اللہ (خالص اللہ کی رضا کیلئے) ہو‘‘ (تفسیر عثمانی: ج 01ص58 )۔

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کو کسی شخص نے بکرے کی سری ہدیہ کے طور پر دی، اُنہوں نے خیال فرمایا کہ میرے فلاں ساتھی زیادہ ضرورت مند ہیں۔کنبہ والے ہیں اور اُن کے گھروالے زیادہ محتاج ہیں اس لئے اُن کے پاس بھیج دی،اُن کو ایک تیسرے صاحب کے متعلق یہی خیال پیدا ہوااور اُ ن کے پاس بھیج دی،غرض اس طرح سات گھروں میں پھر کر وہ سری سب سے پہلے صحابی کے گھر لوٹ آئی۔ (کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال : ج 03، ص176)

حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں ،اتفاق سے وہ ایک جگہ ایسی حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جاں کنی شروع تھی۔ میں نے پوچھا : ’’ پانی کا گھونٹ دوں ؟ ‘‘ انہوں نے اشارے سے ہاں کی ، اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے، آہ کی ، میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا ، میں ان کے پاس پانی لے کر گیا ، وہ حضرت ہشام بن ابی العاص ؓتھے، ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حالت میں پڑے دم توڑ رہے تھے، انہوں نے آہ کی ، حضرت ہشام ؓنے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کردیا ، میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا دم نکل چکا تھا۔ حضرت ہشام ؓ کے واپس آیا تو وہ بھی جاں بحق ہوچکے تھے ، ان کے پاس سے اپنے چچا زاد بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

جان و مال کا تحفظ، اخلاق عالیہ کی بنیاد

’’ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو حرام ہے ‘‘(صحیح مسلم) جس نے اپنے کسی مسلم بھائی کیخلاف کی جانے والی غیبت اور بدگوئی کی اس کی عدم موجودگی میں مدافعت اور جواب دہی کی تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ آتش دوزخ سے اس کو آزادی بخشے (شعب الایمان )

دل کا سکون: انسان کی سب سے بڑی خواہش

’’آگاہ رہو اللہ کی یاد سے دلوں کو اطمینا ن نصیب ہوتا ہے‘‘(سورہ رعد) دنیا سے محبت کی دوڑ میں انسان سکون کیلئے بے قرار ہے لیکن اطمینان قلب کو دولت سے نہیں خریدا جا سکتا

مسائل اور ان کا حل

خلع کی شرائط اور عدالتی خلع کی شرعی حیثیت سوال :شرعاًخلع کی شرط کیا ہے ؟کیا اس میں شوہر کی اجازت ضروری ہے ؟اگر ہاں تو ایسے میں یکطرفہ عدالتی خلع کی شرعی حیثیت کیاہے؟اور عدالت میں ہونے والا خلع شرعا ًدرست ہوتا ہے یا نہیں ؟(قادرعلی ،ملتان)

ہمارے کھانے کی عادات کے صحت پر منفی اثرات

ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ برسوں میں کھانے پینے کی عادات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ دودھ، تازہ سبزیوں اور کم تیل والے گھریلو کھانوں کی جگہ اب چکنائی سے بھرپور فاسٹ فوڈ، زیادہ نمک اور چینی پر مبنی ڈبہ بند اشیا، سوفٹ ڈرنکس اور تلی ہوئی نمکین غذاؤں نے لے لی ہے۔

کینو،سردیوں کا سنہری تحفہ

سردیوں کے موسم میں بازاروں کی رونق، ٹوکریوں کی بہار اور فضا میں گھلی ہوئی میٹھی مہک کینو کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ یہ ترش مگر شیریں پھل نہ صرف پاکستان کی زرعی شان ہے بلکہ غذائیت اور صحت کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔

سیاسی کشیدگی میں اضافہ ، اہم فیصلے متوقع

ملک میں ایک اور سیاسی بھونچال آتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی گرما گرمی بڑھ رہی ہے۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی توپوں کا رُخ ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف اور اس کے بانی کی جانب ہو چکا ہے۔