محمد حسن عسکری ،رجحان ساز تنقید نگار

تحریر : ڈاکٹر غلام عباس


محمد حسن عسکری (15 نومبر 1919ء تا 18ر جنوری 1978ء) اردو ادبیات کے انتہائی اہم اور لائق توجہ ادیب تھے۔ بلاشبہ اردو تنقید ان کی پہچان ہے۔ انہوں نے نقد ادب میں نمایاں کارنامے سر انجام دیے اور تنقید کا رخ متعین کیا۔

 انہیں  رجحان ساز تنقید نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ تنقید کے نظریاتی مباحث، اردو کی ادبی روایت، مشرق اورمغرب کی آویزش، جدیدیت اور مغرب کی گمراہیاں جیسے مباحث پر اپنا مخصوص نقطہ نظر پیش کیا، اور اس بھر پورطور سے کیا کہ اس کی باز گشت تمام ادبی حلقوں میں گونجی اور اب تک گونج رہی ہے۔ ان سے اختلاف کیجیے، اتفاق کیجیے مگر انہیں نظر اند از قطعاً نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اپنے مخصوص ذہنی امیج کی بنا پر وہ ہر دور کے معاصر نقاد کے طورپر جانے گئے ہیں۔ اردو تنقید پر غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے عسکری صاحب کی تنقید بیسویں صدی کے اردوادب میں گہرے علمی انہماک اور غیر معمولی تنقیدی بصیرت کی نادر مثالیں فراہم کرتی ہے۔ ان کی تنقید کے موضوعات کا پھیلاؤ دیدنی ہے۔

روایت کے متعلق جب عسکری صاحب کے خیالات دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ مغرب کے تصورِ روایت کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور اپنا مشرقی روایت کا تصور پیش کرتے ہیں، لیکن اس کی بنیاد بھی وہ ایک مغربی مفکر لارنس کے ان نکات پر رکھتے ہیں :اول مشرق مغربی ادب کو جذب کرلے پھر اپنا راستہ خود ڈھونڈے۔ مغرب کا نیا جاندار ادب انسان اور خدا کے باہمی رشتے کے بارے میں پید ا ہو گا۔ اور یوں مغرب پھر مشرق کی طرف واپس لوٹے گا جسے آپ مشرق کی بازیافت بھی کہہ سکتے ہیں۔عسکری صاحب نے بھی مذکورہ بالا تین نکات سے کام لیا ہے ۔آپ پہلے مغربی ادب کو بڑے غور و خوض سے زیر مطالعہ رکھتے ہیں، وہاں سے ایک فرانسیسی ادیب رینے گینوں سے اتنی شدت سے متاثر ہوئے ہیں کہ گینوں کے تصورات کو ہی حقیقی روایت کے تصورات قرار دیتے ہیں جبکہ باقی مغرب کو روحانی طور پر پست سمجھتے ہیں۔ یہاں مغرب سے مراد جدید مغربی تہذیب ہے جسے عسکر ی صاحب پستی کا حامل گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عہد جدید سے قبل تو مغرب سمیت پوری انسانیت کا اجتماعی سفر پستی سے بلندی کی طرف مائل تھا لیکن جوں ہی مغرب نے اپنارشتہ ماضی کی روایت سے توڑنا شروع کیا اور مادیت کا غلبہ اس پر حاوی ہو گیا تو وہ روحانی پستی کا شکار ہوا۔عسکری صاحب کا خیال ہے کہ اگر ہم نشاۃ ثانیہ کے بعد سے مغربی تہذیب کی ان ساری تبدیلیوں کو اپنے یعنی مشرقی نقطہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ جب سے انہوں نے مادی دنیا اور انسان کو اہم ترین حقیقت سمجھنا شروع کیا تواس وجہ سے بہ لحاظ مدارج حقیقت مغربی تہذیب نیچے گرتی چلی گئی اور بلا ٓخر غیر نامیاتی مادے تک پہنچ کے اپنے ’دوخدا ‘مطلب انسان اور حیات کو بھی مسترد کر چکی ہے۔ اسی طرح اگر ہم مشرقی تصور کو تو ہم پرستی سمجھتے بھی ہیں تواسے تنزلی کیوں کہیں، اسے بھی ہم ترقی کہہ لیں جیسے مغربی تہذیب کے کبائر علما نے اپنے معاشرے کی ہر بڑی تبدیلی کا خلاصہ بھی کچھ ایسے ہی پیش کیا۔

عسکری صاحب اس کی مثال کے لیے انیسویں صدی کے آخر میں نطشے کو پیش کرتے ہیں۔ 1925ء کے قریب ڈی ایچ لارنس کا یہ اعلان کہ ’’انسانی تعلقات کا ادب مرگیا‘‘ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ 1945ء کے بعد مالرو کا اعلان بھی اس کی ایک اور گواہی ہے کہ جب اس نے کہاکہ ’’انسان مر گیا ‘‘۔ مغربی تہذیب کی ترقی یا تنزلی ان اعلانات کے بعد بڑی واضح ہے لیکن عسکری صاحب کہتے ہیں کہ اس کو چھوڑیے۔ اب آیئے اپنے ادب کے مسئلے پر تو اس کا قطعی فیصلہ دیتے ہوئے عسکری صاحب کہتے ہیں کہ حقیقت کے مشرقی تصور کو قائم رکھے بغیر ادب کی مشرقی روایت بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ہم حقیقت کا مغربی تصور شعوری یا غیر شعوری ارادی غیر ارادی طور پر قبول کر لیں گے تو ہمارا ادب بھی مغربی انداز کا ہو جائے گا اور ذوق شاعری کو مستقل چیز سمجھ کے یہ کہنا بھی زیادہ صحیح نہیں کہ مشرقی ادب پر مغربی ادب کے معیار عائد نہیں ہوتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

31ویں برسی:ظہیر کاشمیری،ترقی پسندی کی سچی تصویر

ان کی لڑائی ان تمام دانشوروں کی لڑائی ہے جو اقتصادی اور تہذیبی طور پر انسان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا