یہ شہر کب ٹھیک ہوگا؟
صوبائی اسمبلی کے سابق سپیکر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آغا سراج درانی کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے الیکشن میں مرحوم سراج درانی کے صاحبزادے آغا شہباز درانی نے شکار پور سے ضمنی الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔
غیرسرکاری غیر حتمی نتیجے کے مطابق انہوں نے 73ہزار 554ووٹ حاصل کیے، ان کے قریب ترین حریف جمعیت علمائے اسلام ف کے رشد اللہ شاہ صرف نوہزار 412ووٹ حاصل کرپائے۔ اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار آغا امتیاز کی جانب سے الیکشن کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔دوسری جانب کراچی کے سابق میئر اور موجودہ وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے ایک تقریب میں شہر کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر رہائش کیلئے بدترین ہوچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ شہر دودھ دینے والی گائے ہے لیکن اسے چارا تو کھلاؤ۔ یہی وہ شہر ہے جو ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتا ہے۔ ہر شخص کہتا ہے کہ کراچی کو ٹھیک کرنا ہوگا، کوئی بھی انکار نہیں کرتا لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ شہر کب ٹھیک ہوگا۔ لائنوں کا پانی چوری کرکے اسی شہر کے باسیوں کو بیچا جارہا ہے،بڑے بڑے لوگ اس میں ملوث ہیں، انہی کے واٹر ٹینکر چلتے ہیں۔ شہر کے 90فیصد لوگ پانی خرید کر پیتے ہیں۔گھروں میں لائن سے پانی نہیں آتا، ٹینکر سے فوری آجاتا ہے۔ ایم کیو ایم کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی نے بھی کراچی کی صورتحال پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جماعت اسلامی ای چالان اور حادثات کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے نمائش چورنگی پر دھرنا دیا اور رہنماؤں نے شرکا سے خطاب کیا۔کراچی کے امیر جماعت اسلامی منعم ظفر کا کہنا تھا کہ ای چالان کے نام پر لوٹ مار کسی طور قبول نہیں، چالان کے نام پر بھتہ فوری بند کیا جائے، صوبائی حکومت بے حس ہوچکی ہے، ڈمپر اور ٹینکر مافیا کو شہریوں کے قتل کا لائسنس دے رکھا ہے،عوام کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں، شہر کا انفراسٹرکچر تباہ حال ہے، حکمران جان لیں مسائل حل نہ ہوئے تو شہر خاموش نہیں رہے گا، شہری گھروں سے نکلیں گے اور اپنے مسائل حل کروائیں گے۔میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کہاں چپ بیٹھنے والے تھے۔ کہا، کراچی والوں کو ماضی میں مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ جماعت اسلامی پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عوام نے جماعت اسلامی کو کام کرنے کیلئے ووٹ دیے تھے دھرنے اور احتجاج کیلئے نہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو یاد کیا اور کہا کہ اسی شہر کے گٹروں کو بند کرنے کیلئے بوریاں ڈالی جاتی تھیں۔ میئر کراچی نے کہا کہ شہر کا فائدہ چاہیے تو ہم سب کو رسہ کشی ختم کرنا ہوگی۔
کراچی میں ٹریفک حادثات سے شہریوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ گو حادثات میں کچھ کمی آئی ہے لیکن بھاری گاڑیاں عوام کیلئے بدستور عذاب بنی ہوئی ہیں۔ کبھی واٹر ٹینکر کسی کو کچل دیتا ہے، کبھی ٹریلر یا ڈمپر۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ تیرہ ہزار سے زائد بھاری گاڑیوں میں ٹریکر لگ چکے ہیں لیکن ان کا استعمال نظر نہیں آرہا۔ کسی بھی سڑک پر کھڑے ہوجائیں، آپ کو واضح نظر آئے گا کہ بھاری گاڑیاں نہ رفتار کی پابندی کر رہی ہیں اور نہ ان پر واضح طور پر نمبر پلیٹ لگی ہوئی ہے۔ اسی طرح بہت سی گاڑیوں کے اشارے بھی کام نہیں کررہے۔ اگر یہ ٹریکر لگے ہیں تو ان کا کیا مصرف ہے؟ حکومت کو یہ بات واضح طور پر بتا دینی چاہیے تاکہ اگر کسی کے دماغ میں کوئی سوال ہے تو اس کا جواب مل جائے۔
صوبائی حکومت اور پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیاںجاری ہیں لیکن جب بھی انہیں موقع ملے کوئی نہ کوئی واردات کر گزرتے ہیں۔ پیر کی شب دو درجن سے زیادہ ڈاکوؤں نے گھوٹکی کی تحصیل اوباڑو میں مسافر بس کو نشانہ بنایا اور 19افراد کو اغوا کرلیا۔ بس صادق آباد سے کوئٹہ جارہی تھی۔ ڈاکوؤں نے اندھا دھند فائرنگ بھی کی۔ پولیس اور رینجرز نے بروقت کارروائی کرکے مغوی مسافروں کو بازیاب کرالیا تاہم ایک شخص دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا۔ حکومت کو آپریشن میں مزید وسعت اور تیزی لانی چاہیے اورکچے میں موجود ڈاکوؤں کا قلع قمع کیا جائے تاکہ عوام سکھ کی سانس لے سکیں۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں بڑے اہم فیصلے کیے گئے۔ سندھ پولیس کیلئے اسلحہ اور گولہ بارود کی خریداری کے لیے پانچ ارب 84 کروڑ روپے اور عوامی بسوں کی خریداری کے لیے 96کروڑ روپے منظور کیے گئے۔ کراچی میں آئی ٹی ٹاور بھی بنایا جائے گا۔ نجی کمپنی کی عمارت خریدنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اس عمارت کی قیمت ڈیڑھ ارب روپے کے قریب ہے۔ منصوبوں کی منظوری جتنی اہم ہے اتنی ہی اہمیت خریداری میں شفافیت کی بھی ہے۔ اب آپ کو ایک انوکھی خبر سے آگاہ کرتے ہیں جو صرف ہمارے ہاں ہوسکتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں پولیس نے نیوز کانفرنس میں 28 کروڑ روپے مالیت کی منشیات پکڑنے کا دعویٰ کیا، لیکن چند روز بعد خبر آئی کی جن سے منشیات برآمد کی گئی تھی انہی کو پانچ کروڑ روپے میں فروخت کردی گئی۔ یہ کام کسی اور نے نہیں کیس کے تفتیشی افسر نے کیا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم، لیکن کیا واقعی تفتیشی افسر میں اتنی ہمت ہوسکتی ہے کہ وہ یہ کام کر گزرے؟ یقینی طور پر پس پردہ کچھ اور ہاتھ بھی ہوسکتے ہیں جن کا سامنے آنا ضروری ہے تاکہ اس قسم کی کارروائیوں کو مستقبل میں روکا جاسکے۔ اب تو یہ مطالبہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ ماضی میں جتنی منشیات، گاڑیاں اور دیگر چیزیں پکڑی گئی ہیں ان کا مکمل ریکارڈ سامنے لایا جائے۔ کیا پتہ ریکارڈ میں موجود اشیا اپنی جگہ پر ہیں بھی یا نہیں۔ہو سکتا ہے وہ بھی کب کی ٹھکانے لگائی جاچکی ہوں۔