مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار
میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔
انہوں نے یک بابی اور یک منظری ڈراموں کے ذریعے، افسانے اور ڈرامے کے تشکیلی عناصر کی باہمی مماثلت اور وحدت تاثر کو بھی نمایاں کیا جو فکشن کے فن پر ان کی مکمل دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اُن کے ڈراموں کے دس مجموعے، کتابی صورت میں شائع ہوئے ۔ ان کے مطبوعہ ڈراموں کے سرمایے میں 88 ڈرامے شامل ہیں۔میرزا ادیب کے ڈراموں میں رومانویت سے حقیقت نگاری کا سفر ملتا ہے۔ ان کے ڈراموں کی ابتدارومانی موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ مرد اور عورت کی محبت ، مرد اور عورت کی بے وفائی، محبت کی ناکامی میں بدگمانی و غلط فہمی کا کردار،شوہر اور بیوی کی محبت، ماں بیٹے اور بہن کی بہن سے محبت، احساسِ تنہائی تخیلی محبوب اور یادِ ماضی جیسے موضوعات ان کے رومانوی تخیل کے کینوس کی تشکیل کرتے ہیں۔ اُن کا بنیادی موضوع انسان اور اس کے عمومی و معمولی مسائل کی غیر معمولی پیشکش ہے۔ وہ عام آدمی کے ڈراما نگار ہیں۔ ان کے ڈراموں میں متوسط اور زیریں متوسط طبقے کے کردار، معاشرے میں اپنے معاشی اور نفسیاتی مسائل کے ساتھ اظہار پاتے ہیں۔ معاشرتی مسائل اور ان کی گرہ کشائی اُن کی انسان دوستی کو مہمیز کرتی ہے۔ حرص، لالچ، خوشامد ، خود غرضی، طاقتور کا قانون، رشتہ داروں کی مفاد پرستی، اقدار کی شکست و ریخت، اونچے طبقے کی ظاہری شان و شوکت اور سیاہ باطنی ان کے ڈراموں کے موضوعات کا حصہ بنتے ہیں۔
میرزا ادیب کے ڈراموں میں نو آبادیاتی سامراج کے خلاف بغاوت، آزادی کی خواہش، غلامی سے نفرت، مسلم سپہ سالاروں کی جرأت، بہادری اور غداروں کا طرز ِعمل نمایاں ہے۔ ان کے تاریخی شعور کے بیانیے میں برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے سپہ سالار،مشرق وسطیٰ کے مسلم تاریخی کردار اور واقعات، سپین ، الجزائر کے فاتح مسلم سپہ سالاراہم ہیں۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات کے اثرات جیسے موضوع کو بھی ڈرامے کا قالب پہنایا ہے۔ سرمایہ دارانہ چالوں، اشتراکیت اور ترقی پسندانہ نقطہ نظر جن ڈراموں میں واضح ہے ان میں ’دروازہ‘ ، ’سحر سے پہلے‘ ،’ اجالوں کی گود میں‘ اور’ لہو اور قالین‘ اہم ہیں۔ ڈراما ’دروازہ‘ میں ایک خاندان ایک مثالی شہر میں داخل ہوتا ہے۔ ہر سہولت اور آسائش کا آدرش لیے وہ اس شہر سے تمام مطالبات کرتے ہیں لیکن اُن کے خوابوں کا محل شہر والوں کے طرز عمل اور سرمایہ دارانہ چالوں کا شکار ہو کر دھڑام سے گرتا ہے۔ وہ اس مقدس شہر کو فریب ، رشوت ، حق تلفی اور لوٹ کھسوٹ سے پاک خیال کرتے ہیں اور بظاہر پاک شہر باطن میں جو فریب رکھتا ہے، وہ آہستہ آہستہ ظاہر ہوتا ہے۔ امیروں کو ٹینڈر کے اجرا، غریب بستیوں کو پلازے میں تبدیل کرنے کے لیے رشوتوں کا استعمال ، مل مالکان کی بیویوں کا غریبوں کے لیے خیراتی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں چلانے کا عمل ان پر سرمایہ دارانہ حکمتوں کو واشگاف کرتا ہے۔
ڈراما ’ سحر سے پہلے ‘میں بھی اشتراکیت کا نقطہ نظر نمایاں ہوتا ہے۔ ایک چور ایک بوڑھی طوائف کے گھر چوری کے لیے آتا ہے۔ ایک خالی گھر میں ایک بوڑھی طوائف زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ چور کے باطن میں موجود انسانیت بیدار ہو جاتی ہے۔ وہ اُس سے اس کی زندگی کے حالات دریافت کرنے لگتا ہے۔ بوڑھی طوائف بھی چور کے موجودہ روپ اختیار کرنے کے محرکات دریافت کرنے لگتی ہے۔ دونوں باہم گفتگو سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسانوں کے گناہوں کے کنوئیں میں چھلانگ لگانے کی وجہ معاشرے کا موجودہ نظام ہے۔ اگر ہر شخص کو اُس کا جائز حق ملے اور ہر شخص عزت کی زندگی بسر کرے تو جرم کا نام و نشان بھی مٹ جائے۔ ہر کوئی مجرم کے جرم کو دیکھتا ہے مگر اُس کے پیٹ کی خواہش مٹانے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ اگر معاشرہ کسی سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لے گا تو پھر زندہ رہنے کے لیے کوئی راستہ تو اختیار کرنا پڑے گا۔ ان دونوں کے نزدیک ظالم معاشرے کا ظالم نظام ختم کر دینا بہت ضروری ہے۔