5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

تحریر : پروفیسر صابر علی


جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مختصرحیات نامہ 

شمس الرحمن فاروقی  30ستمبر 1935ء کو ضلع پرتاپ گڑھ میں پیدا ہوئے ۔الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور اس شان سے کہ یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ایم اے کے بعد تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے مگرساتھ ہی مقابلے کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔ 1957ء میں یہ امتحان پاس کیا ۔ ان  کی پوسٹنگ مختلف شہروں اور ملکوں میں ہوتی رہی جس سے انہیں سفر کے بھی بہت مواقع میسر آئے۔انہوں نے انگریزی اور اردو زبان میں تنقید، شاعری، تراجم، عروض و ابلاغ کے حوالے سے متعدد کتابیں لکھیں۔ کئی ناول اور افسانے لکھے۔ ایک ادبی جریدہ ’’شب خون ‘‘جاری کیاجو چار دہائیوں تک شائع ہوتا رہا۔ان کی کل کتابوں کی تعداد تقریباً 40 سے 50 کے درمیان ہے جبکہ زیادہ تر تنقید کی کتابیں ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی تنقید میں کلاسیکی شاعر میر تقی میر کے حوالے سے لکھی گئی کتاب ’’شعر شور انگیز‘‘کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ چار جلدوں پر مشتمل یہ تنقید کا توانا کام پاکستان سے بھی شائع ہوا۔ انہوں نے منٹو پر بھی ایک کتاب جبکہ غالب کے علاوہ اردو کی تفہیم، مغربی ادب، عروض، لغت نویسی سمیت تدریسی و نصابی و دیگر کتب بھی لکھیں۔ان کی لکھی ہوئی کتابوں میں سب سے زیادہ مشہورِ زمانہ کتاب، ان کا ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ ‘ہے جو سب سے پہلے پاکستان سے جنوری 2006ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کا انگریزی ترجمہ بھی فاروقی صاحب نے خود کیا۔ لغت نویسی کے حوالے سے بھی  کافی تحقیق کی۔ اس سلسلے کی کئی جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی ثقافت کے تناظر میں دلی اور لکھنو کی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھتے ہوئے فکشن نگاری میں نئی جدت طرازی پیدا کی اور نئے در وا کیے۔ شمس الرحمٰن فاروقی 25 دسمبر 2020ء کو 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

شمس الرحمن فاروقی کی ادبی فتوحات کا سلسلہ بہت طویل ہے اور اس طویل سلسلہ میں کہیں ایک شاعر بھی موجود ہے جس پر گفتگو کم کم ہی ہوتی ہے۔ تنقید اور فکشن کے علی الرغم فاروقی کی شاعری کے تعلق سے منفی تاثرات کثرت سے ملتے ہیں۔فاروقی کی شاعری میں تجرید، تعقل، تفکر، گہرائی، داخلیت، مابعدالطبیعیاتی اور ماورائی جہتیں، اسلوب اور ڈکشن کی پیچیدگی، یہ ساری چیزیں مل کر اپنے پڑھنے والوں سے خاصی علمیت اور غور و خوض کا تقاضا کرتی ہیں۔شمس الرحمن فاروقی کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے جدید رویوں اور جدید اسلوب اظہار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اردو میں جدیدیت کی بحث میں موضوع کو عملی طور پر خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور موضوع کے اظہار میں اسلوب اور رویے کی کار فرمائی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا اور انہوں نے اس کیلئے جو وسیلہ اپنایا ،چاہے وہ تنقید کا ہو یا شاعری کا، اس میں بہر طور کامیاب رہے ۔ یہ سچ ہے کہ اردو میں شعوری سطح پر جس ادبی انقلاب کے خدو خال سن60 ء کے بعد نمایاں ہوئے اسے تحریک کی شکل دینے میں فاروقی کی شاعری نے جو اہم کارنامہ انجام دیا وہ اظہر من الشمس ہے۔ انہوں نے آنے والوں کیلئے اظہار کے نئے وسیلے اور وژن کے نئے سلسلے وضع کئے اور زبان کو نئی روح اور نیا جسم دیا۔ زبان کے نئے رویے اور نئے آہنگ کی بازیافت کرکے انسان کے نئے ذہنی اور فکری جغرافیے میں پیدا ہونے والی صورت حالات کو شاعری میں ڈھالا۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری پژمردہ اور پامال دکھائی نہیں دیتی۔ وہ جس تجربے کو ،جس احساس کو، جس خیال کو بھی چھو لیتے ہیں اس میں اپنے معافی کی حرارت ڈال دیتے ہیں۔ نئی شاعری کی معنوی تفہیم کیلئے ان کی شاعری نے اہم رول ادا کیا اور اس شعری تحریک کو جہاں پہنچنا تھا وہاں پہنچی۔ انہوں نے ٹھوس شاعرانہ تحریک کے ذریعے نیا شعری نظریہ وضع کیااورنئی نفطیات سے واضح شعری کائنات تریب دی۔ شاعری کے ساتھ ان کے اسی برتائو نے ان کی شاعرانہ دروں بینی کو بین الاقوامی معیار کے برابر لا کھڑا کیا۔

نئی شاعری کے ساتھ جو مظاہر و عوامل جڑے ہوئے ہیں وہ ہمارے ماضی قریب کی دریافت ہیں۔ نئے شعرا کی شعری تربیت، نئے شعری مزاج اور ذہنوں کی تشکیل ایسے خطوط پر ہوتی ہے جو ایک طویل عرصے تک مخصوص نظریات و افکار کی حدود کو توڑنے، نعرے بازیوں کو فرسودہ اور کھوکھلا ثابت کرنے میں اپنی ساری علمی و فکری قوت صرف کرتے رہے ہیں۔ آرٹ کے بجائے پروپیگنڈا تخلیق کرنے والوں، معاشرے کو غیر صحت مند کہنے والوں اور اقدار کی فرسودگی کا رونا رونے والوں کے خلاف صدائے احتجاج ہی بلند نہیں کی بلکہ سوچ کے رخ کو بدلنے کیلئے نئے شعری طورو طریق سکھائے۔ اس سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی کے شعری کارناموں سے نئی شعری تاریخ، نئی شعری روایت کی دریافت ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے عہد کے آشوب کو اپنے وجود کی گہرائیوں میں اتارا، انہیں محسوس کیا اور اس آشوب میں  فن کی معنویت کا ایک رخ دکھایا۔ ان کا یہ فن کسی نہ کسی انداز میں انسانی تقدیر کے مسائل سے الجھتا رہا ہے۔ ان کی شاعری زندہ رہنے کے لمحات تخلیق کرتی ہے، نا معتبر حرف تسلی سے گریز کرتی ہے، ان کی شاعری اعتراف کی شاعری ہے، خود کلامی کی شاعری ہے، ہزار رخی زندگی کی تفسیر و تعبیر کی شاعری ہے۔

شاعری الفاظ سے برسرپیکار ہونے کا عمل ہے اور جب تک شاعر میں الفاظ سے روبرو ہونے کی سکت نہیں صحیح معنوں میں مؤثر شاعری کی تخلیق ناممکن ہے کیونکہ حقیقت کی مختلف اشکال ہیں اور ان کے اظہار کے بے شمار طریقے۔ اس لئے حقیقت کی تعبیر و شرح کیلئے الفاظ پر قدرت کا حاصل ہونا پہلی شرط ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی الفاظ شناسی، آہنگ کے شعور اور ان کی سخن فہمی پر کسی کو شک  نہیں ہو سکتا، یہی سبب ہے کہ وہ کلاسیکی اردو شاعری کا اعلیٰ درجہ کا مزاج شناس بننے کے بعد اپنی شاعری میں لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے اس قدر سنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ شعروں میں کئی ان دیکھے گوشے سامنے آتے ہیں اور نئے نئے معنی کے دریچے کھل جاتے ہیں صرف اس لئے کہ ان کی شاعری کلاسیکیت کے ساتھ تیزی سے بدلتے ہوئے لسانی اور فکری تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

شمس الرحمن فاروقی کے یہاں بھی تنہائی، بے یقینی، نا طاقتی، الجھن، غصہ، شناخت کی گمشدگی، اپنے جواز کی تلاش اور اس سے ملتی جلتی نراجیت ہیں لیکن انہوں نے دوسرے شاعروں کے مقابلے میں اپنے موضوعات کے انتخاب میں ماہرانہ شعری کارکردگی سے کام لیا ہے، انہوں نے اپنے عہد کی سائیکی اور روح کو اپنی شاعری میں سمو کر جدید شاعری کو فکری اور فنی جواز مہیا کیا۔ان کی غزل کو بلاشبہ دوحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ غزلیں ہیں جن میں فاروقی نے موضوعات کے اظہار میں جن استعاروں، تمثالوں اور علامتوں کا استعمال کیا ہے وہ عام قاری کی سمجھ سے دور ہیں۔ ایسے اشعار بہت کم لوگوں کے گلے اتر سکتے ہیں۔ یہ ان کی فنی پختگی اور اظہار پر قدرت کا کمال ہے کہ روایتی اسلوب اظہار سے سرموانحراف کرتے ہوئے ایک ایسا طریقہ کار اپنایا جو کم سواد قارئین کے نزدیک مشکل پسندی کہی جائے گی لیکن واقعتاً شعر و ادب کا بلیغ وبسیط ذوق رکھنے والے فاروقی کے اس شعری برتائو کا دم بھریں گے۔ ان کی شاعری کا دوسرا رخ وہ ہے جس میں وہ سہل زبان میں اشعار کہتے ہیں اور انہیں بھی بلندی پر پہنچا دیتے ہیں۔ ایسے اشعار پڑھ کر روحانی مسرت کا احساس ہوتا ہے۔

شمس  الرحمن فاروقی کی شاعری میں ’’آسمان‘‘ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ آسماں بلندی، روشن خیالی اور پرسکون حالت زندگی کی بھی علامت ہے۔ اس لفظ کو انہوں نے اپنے اشعار میں کئی معنوں میں استعمال کیا ہے اور اس کی معنویت کا پھیلائو یقینا ایک اہم شاعرانہ افق دکھاتا ہے۔ دھرتی کی وسعتوں اور آسمان کی پہنائیوں کے درمیان سرگرداں وہ اس مرکزی نقطے کے حوالے سے اپنی دنیا کی معنویت کو دریافت کرنے کے عمل میں کوشاں ہیں۔اردو شاعری میں داخلیت کی جس دھیمی ، پرسوز، لچکدار اور موسیقی آمیز آواز کو میرا جی نے فروغ دیا تھا اسے پروان چڑھانے اور ترویج و ترسیل کرنے میں شمس الرحمن فاروقی نے بالخصوص اہم حصہ لیا۔ انہوں نے شاعری کو مقصدیت سے گراں بار کرنے کے بجائے روح کو سبکسار کرنے پر زور دیا۔ فاروقی کی خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کو کسی ایک زاویے سے دیکھنے کے بجائے متعدد زاویوں سے دیکھتے ہیں اور مرکزی موضوع کی وحدت کو ہی سامنے نہیں لاتے بلکہ مختلف زاویوں سے اس کی معنویت ابھارتے ہیں۔ انہوں نے شاعری میں علائم و رموز کا نیا قرینہ پیدا کیا اور گردو پیش کی زندی سے نادریافت استعارے اخذ کئے لفظوں کی کفایت اور خیال کی گہرائی کی مثال میں فاروقی کی شاعری کو فوقیت حاصل ہے۔

شمس الرحمن فاروقی کی نظموں کا لینڈ  سکیپ پھیلا ہوا ہے اور ان کا فیبرک جن استعاروں اور علامتوں کی مدد سے بنا گیا ہے وہ خواہش کی لذت اور خواب کی کیفیت سے معمور بھی ہیں اور داخلی شدت کے ذہنی دبائو میں بھی ہیں، ان کی نظمیں ایک رخے معنی سے تبدیل ہو کر کثیر الجہت تخلیقی سطح حاصل کر لیتی ہیں۔ جب قاری ان نظموں کی تہداری اور ان کے معنویت پر غور کرتا ہے تو وہ خود کو دو دنیائوں میں پاتا ہے۔ ایک دنیا جو لفظوں کی لذت سے آشنا کرتی ہے، دوسری دنیا جو لمحہ فکریہ عطا کرتی ہے۔ ان دنیائوں کی سیاحت سے طمانیت کا ایک احساس جاگتا ہے جو ان نظموں کی کامیابی کی دلیل ہے۔ ان نظموں میں زندگی کایک رخا پن نہیں بلکہ کئی سمتوں کا ظہور ملتا ہے اور جب سمتوں کی تلاش میں قاری خود کو گم پاتا ہے تو تخلیق شناس ہوتا ہے۔ اس طرح فاروقی کی نظموں کے ذریعے قاری مختلف النوع تجربات سے آشنا ہوتا ہے، کیونکہ یہ تجربے قارئین کے بھی ہو سکتے ہیں۔جنہیں فاروقی نے اپنے تجربوں کے روپ میں اپنایا ہے۔ یہ سارے تجربے وسیع فکری مطمح نظر سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف زاویوں سے رونمائی کرتے ہیں کیونکہ فاروقی کی نظموں کی اساس شعور و تجربات پر ہے۔ان کی نظموں میں ذات و کائنات کی گفتگو ملتی ہے۔ مظاہر فطرت کے حوالے سے انسانی مسائل کا بیان ملتا ہے، جانوروں اور پرندوں کے استعاراتی اظہار میں معاشرتی زوال کی نوحہ گری ملتی ہے۔ باطل قوتوں کی جفا گری اور اس کے خلاف بغاوت ملتی ہے، سیاسی اور معاشی صورتحال میں انسانی تقدیر کی عارفانہ آگہی کی کمی کا شکوہ ملتا ہے۔

منتخب اشعار

کرب کے ایک لمحے میں لاکھ برس گزر گئے

مالکِ حشر کیا کریں عمرِ دراز لے کے ہم

…………

ڈوب کر آنکھوں میں تیری بے کراں تک گھومتا

جسم سے اپنے نکل کر آسماں تک گھومتا

…………

سرحدِ آسماں کے پاس جال بچھے تھے ہر طرف

کس نے کیا ہمیں اسیر شوقِ شکار کس کو تھا

…………

اس دل کے دشتِ شورہ پہ ٹکتا نہیں ہے کچھ

حیراں ہوں تیرے قصر یہاں کس طرح بنے

…………

عدم میں کچھ نہ خبر تھی کہ کون ہوں کیا ہوں

کھلی جو آنکھ تو پہلی نظر اسی سے ملی

…………

یہ کس بدن کا تصرف ہے روئے صحرا پر

لگائی پیٹھ جو میں نے کمر اْسی سے ملی

…………

بس ایک رشتہ ہے جس میں پرو گئی ہو گی

وہ اشکِ خواب سے چہروں کو دھو گئی ہو گی

…………

جو کاغذ پہ لکھا تو جھوٹا لگا

وہ سب کچھ جو ہم میں زبانی ہوا

…………

چاندنی رات کی ہوائے سرد

لے گئی اس کی بے حجابی سب

…………

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔