حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

گفتگو کرتے وقت اچھے الفاظ کا چنائو کرنا اور بات کرتے وقت اپنے لہجے کو نرم رکھنے سے آپس میں محبت و اخوت اور نیکی بھلائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔گفتگو کے دوران ایسے الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے جس کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہو اور انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو۔قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر حُسن کلام کی ترغیب دی گئی ہے۔

 سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لوگوں سے بھلائی کی بات کہی جائے۔سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بات کرتے ہوئے انصاف کیا جائے، منہ سے اچھی بات نکالی جائے،تبلیغ دین نرم اندازمیں کی جائے(سورہ طہٰٰ)، جھوٹی بات کرنے سے بچاجائے (سورۃ الحج)۔ اسی طرح سورہ احزاب میں رب العالمین فرماتے ہیں کہ سیدھی بات کہی جائے۔ان آیات میں خوبصورت آداب گفتگو بیان کئے گئے ہیں۔ بیشک ان پرعمل کرنے سے نہ خوبصورت تعلقات استوارہوسکتے بلکہ بندہ متاثر ہوکر سامنے والے کی بات پرعمل بھی کر سکتا ہے۔

نبی کریمﷺ نے اسی انداز گفتگو سے پتھر دلوں کو بھی موم کر کے دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ یہی انداز گفتگو والدین اولاد کی تربیت کیلئے اوراستاد شاگردوں کی تعلیم و تربیت کیلئے استعمال کرکے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنا ہو یا پرایا ان کے ساتھ مذکورہ بالا ہدایت پر عمل پیرا ہو کر خوشگوار ماحول استوار کر سکتے ہیں۔ گفتگو میں سامنے والے مثبت انداز میں ان کی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں اور انہیں اچھی بات پر عمل پیرا کراسکتے ہیں۔ انسان کی یہ زبان اور انداز گفتگو اگر اس کے برخلاف ہوگا تودوست کے بجائے اس کے دشمنوں میں اضافہ ہو سکتا ہے لہٰذا اپنے کردار وعمل کے ساتھ ساتھ اپنی گفتگو کا بھی خاص خیال رکھنا چا ہئے۔

ارشاد ربانی ہے: ’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے، جس کے بعد جتانا ہو اور اللہ بے پرواہ حلم والا ہے‘‘ (البقرہ)۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’کیا آپ نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ زمین پر اور شاخیں آسمان میں ہیں‘‘(سورہ ابراہیم )۔ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو بیشک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتا ہے، بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے‘‘(سورہ بنی اسرائیل)۔ 

حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا ہر روز آدمی کے ہر جوڑ کا صدقہ ضروری ہے۔ جوکسی کو سوار ہونے میں مدد دے یا اس کے سامان کو اٹھوا کر سواری پر رکھوا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے، نماز کیلئے جتنے قدم اٹھائے وہ بھی صدقہ ہیں اور کسی کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے (متفق علیہ)۔

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی رحمتﷺ نے فرمایا جنت میں ایسے کمرے بھی ہوں گے جن کا باہر اندر سے دکھائی دے گا اور اندر باہر سے۔ حضرت ابو مالک اشعریؓ نے عرض کی یارسو ل اللہﷺ یہ کس کیلئے ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے اور رات کو اس وقت قیام کرے جب سب لوگ سو رہے ہو ں (مسند احمد، مستدرک للحاکم)۔

 حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر میں اللہ کی راہ کا مسافر نہ ہوتا، یا اللہ کیلئے اپنے پہلو کو خاک آلود نہ کرتا یا ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھتا جو خوشگوار انداز میں گفتگو کو ایسے منتخب کرتے جیسے اچھی کھجور کو منتخب کیا جاتا ہے تو یقینا میں اس بات کو پسند کرتا کہ خالق حقیقی سے جا ملو ں۔

حضرت کعب ؓ بیان کرتے ہیں کم بولنا بہت بڑی بات ہے۔ لہٰذا تم پر خاموش رہنا لازم ہے، بیشک یہ مہذب انداز ہے اور یہ بوجھ میں کمی اور گناہوں میں تخفیف کا سبب ہے۔

ہند بن ابی ہالہؓ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ (آخرت کے) غم میں متواتر مشغول رہتے (ذات وصفات باری تعالیٰ یا امت کی بہبود کیلئے) ہر وقت سوچ میں رہتے تھے، ان امور کی وجہ سے آپ ﷺ کو بے فکری اور راحت نہ ہوتی تھی، اکثر اوقات خاموش رہتے تھے، بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے، آپ ﷺ کی تمام گفتگو ابتدا سے انتہا تک منہ بھر کر ہوتی تھی (یہ نہیں کہ نوک زبان سے کٹتے ہوئے حروف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی متکلم کے ذہن میں رہی، جیساکہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے)۔ جامع الفاظ کے ساتھ (جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور معانی بہت ہوں) کلام فرماتے تھے۔ آپﷺ کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا۔ نہ اس میں فضولیات ہوتی تھیں اور نہ کو تاہیاں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو۔ آپﷺ سخت مزاج نہ تھے، نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے۔ اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے،اس کی مذمت نہ فرماتے تھے، البتہ کھانے کی اشیاء کی نہ مذمت فرماتے نہ تعریف فرماتے۔ دنیا اور دنیاوی امور کی  وجہ سے آپﷺ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا، البتہ کسی دینی امر اور حق بات سے کوئی شخص تجاوز کرتا تو اس وقت آپﷺ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لا سکتا تھا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا، یہاں تک کہ آپﷺ اس کا انتقام نہ لے لیں۔ اپنی ذات کیلئے نہ کسی پر ناراض ہوتے تھے نہ اس کا انتقام لیتے تھے۔جب کسی وجہ سے کسی جانب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے۔ جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے تھے اور جب بات کرتے تو (ہاتھ) ملا لیتے اور کبھی داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصہ پر مارتے اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرماتے یا درگزر فرماتے۔ جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے آنکھیں گویا بند فرما لیتے۔ آپﷺکی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی، اس وقت آپﷺ کے دندان چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔ اس سلسلہ میں آدابِ گفتگو میں مند رجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔بات واضح، صاف اور ایسے لہجے میں کریں کہ سننے والوں کو سمجھنے میں دقت پیش نہ آئے، آواز نہ بہت اونچی ہواور نہ ہی سر گوشی میں ہو بلکہ بہت مناسب ہو۔

حضرت ابی امامہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا :بری باتوں سے خاموش رہنا ایمان کی شاخ ہے اور بے ہودہ فضول باتیں کرنا نفاق کی علامت ہے۔(جامع ترمذی)

محفل میں کانوں میں بات کرنا آداب محفل کے خلاف ہے، اس سے گریز کریں۔گفتگو کرتے وقت خیال رکھیں کہ اپنے بارے میں زیادہ بات نہ کریں، دوسروں کی بھی سنیں۔گفتگو کے دوران ہر کسی کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں، کسی کو نیچا دکھانے یا عیب جوئی کرنے سے گریز کریں، اگر کوئی گِلہ شکوہ بھی کرنا ہو تو اکیلے میں کریں، سب کے سامنے نہیں،خیال رہے کہ اگر ایک شخص بات کر رہا ہو تو جب تک وہ اپنی بات مکمل نہ کرلے، آپ درمیان میں نہ بولیں، تاہم اگر کہیں وضاحت کرنے کیلئے درمیان میں بولنا ضروری ہو تو قطع کلامی کی معافی کہہ کر بات کیجیے۔گفتگو کے دوران اپنی علمی قابلیت کو بہت زیادہ جتلانا بھی درست نہیں، بس موقع کی مناسبت سے خوشگوار انداز میں زیرِ بحث موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ آداب گفتگو میں دو سروں کے موقف کا احترام کریں اور اپنا موقف دوسروں پر زبر دستی ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں، ہاں دلائل سے ضرور قائل کریں۔

 اللہ عزوجل ہمیں دین و دنیا کے فائدے کیلئے اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے اور مفید و کارآمد ضروری گفتگو کرنے اور فضول و بے کار باتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔

جناحؒ کے ماہ وصال

٭ 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیداہوئے۔٭ 04جولائی 1887ء کو سندھ مدرستہ السلام میں داخلہ ہوا۔ ٭ 1892ء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ روانہ ہوئے۔٭ 1897ء کو بطور وکیل بمبئی ہائیکورٹ سے منسلک ہوئے۔