قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج
1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔
یہ خطاب سب سے پہلے دہلی کے اخبار الامان کے مدیر مولانا مظہر الدین نے اپنے اداریے میں استعمال کیا جو بہت جلد زبان زدعام ہو گیا۔ اب محمد علی جناحؒ پوری مسلمان قوم کے واحد اور متفقہ قائد اعظم تھے۔
اس کے بعد 23 مارچ 1940ء کو مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزادی کا باضابطہ مطالبہ کر دیا۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس22 مارچ 1940 ء کو لاہور میں منعقد ہوا۔ 21 مارچ کی صبح قائد اعظمؒ لاہور پہنچے تو آپ کے اعزاز میں ایک عظیم الشان جلوس نکالنے کا انتظام کیا گیا تھا لیکن اس سے پہلے 19 مارچ کو لاہور میں ایک المناک سانحہ پیش آچکا تھا۔ ہوایوں کہ خاکسار تنظیم اور حکومت میں تصادم کے نتیجے میں تقریباً 32 خاکسار شہید اور بہت سے زخمی ہو گئے تھے۔ اس افسوسناک واقعہ کی وجہ سے پورے لاہور کی فضا سوگوار تھی، لہٰذا جب قائد اعظمؒ لاہور پہنچے تو آپؒ نے جلوس نکالنے سے منع کر دیا اور ریلوے سٹیشن سے سیدھے میوہسپتال گئے اور زخمی خاکساروں کی عیادت کی۔
22 مارچ کی رات کو مسلم لیگ کا سالانہ تاریخی اجلاس ہوا۔ جس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے کہا کہ مسلمان ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ انہیں غلطی سے ایک اقلیت سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر برطانوی حکومت واقعی پرخلوص ہے اور برصغیر کے باشندوں کی خیر خواہ ہے تو اسے چاہیے کہ ہندوستان کو خود مختار ریاستوں میں تقسیم کر کے ان دو بڑی قوموں کو علیحدہ ہو جانے دے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان میں باہم شادیاں نہیں ہوسکتیں، یہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے، دراصل یہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد متضا د تصورات پر قائم ہے۔
یہی وہ دو قومی نظریہ تھا جس کی بنیاد پر قائد اعظمؒ نے ایک آزاد مملکت کی بنیاد رکھی۔ اس تاریخی اجلاس کے دوسرے دن شیر بنگال مولوی فضل الحق نے ایک قرارداد پیش کی جسے شروع میں قرارداد لاہور کہا گیا لیکن ہندو پریس نے اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔ یہ تھی وہ تاریخی قرارداد جس نے مسلمانانِ ہند کو ایک نصب العین عطا کیا اور انہیں آزادی کی نئی راہ دکھائی۔ اسی دن جناب انور قریشی نے ترنم کے ساتھ میاں بشیر احمد کی وہ لا جواب اور تاریخ ساز نظم پڑھی جو آگے چل کر ہر مسلمان کی زبان پر جاری ہو گئی۔چند اشعار ملاحظہ ہوں!
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ
ملت ہے جسم جاں ہے محمد علی جناحؒ
رکھتا ہے دل میں تاب و تواں نو کروڑ کی
کہنے کو ناتواں ہے محمد علی جناحؒ
لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پر جس کا تیر
ایسی کڑی کمان ہے محمد علی جناحؒ
فیصلہ کن مرحلہ
قائد اعظمؒ بر صغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے اس نازک دور میں پوری لگن اور خلوص دل کے ساتھ راہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ آپؒ کی سیاسی زندگی کا یہ زمانہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے بہت مختلف تھا۔ اب آپؒ کی قوم اپنی منزل کے قریب تر تھی لیکن اس موقع پر اس خوش قسمت قوم کے قائد کی صحت تیزی سے گرتی جا رہی تھی۔ دن رات کی تھکا دینے والی چومکھی لڑائی نے قائد اعظمؒ کی صحت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ انگریز اور ہندو اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ مسلمانوں کی راہنمائی قائد اعظمؒ کے بغیر ناممکن ہے، اس لیے وہ کوشاں تھے کہ آزادی کی منزل ابھی دھندلا دی جائے تا کہ خدانخواستہ قا ئد اعظمؒ کو کچھ ہو جائے تو مسلمانوں کیلئے آزادی کا حصول محض خواب بن کر رہ جائے گا۔ دوسری طرف قائد اعظمؒ بھی انگریزوں اور ہندوؤں کی اس مکاری اور چالا کی کو بخوبی جانتے تھے۔ آپؒ نے اپنی جد و جہد کو مزید تیز کر دیا اور اپنی توانائی کا آخری ذرہ تک اپنی قوم کیلئے وقف کر دیا۔ آپؒ کا انداز ایک آزمودہ کار جرنیل کا ساتھا جو ہر صورت میں اپنی فوج کو کامیاب و کامران کرانا چاہتا تھا۔
تحریک آزادی کے ان سنگ میلوں کو عبور کرتے کرتے قائد اعظمؒ کا تن نازک تو یقینا تھک چکا تھا لیکن آپؒ کے حوصلے اب بھی جوان تھے اور آپؒ اپنی ہمت اور تڑپ کے اعتبار سے نوجوانوں کیلئے بھی قابل تقلید مثال بنے ہوئے تھے۔
اسی اثنا میں ہندوستان میں نئے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی آمد ہوئی، یہ مارچ 1947 ء کی بات ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان پہنچتے ہی قائد اعظمؒ اور کانگریس کے راہنماؤں سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا وہ تقسیم ہند کا منصوبہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس نے اپنی ان ملاقاتوں میں اقتدار کی منتقلی کے قابل عمل طریق کار کو موضوع گفتگو بنایا۔
قائد اعظم اور کشمیر
تقسیم ہند کے اس منصوبے کا اعلان ہوتے ہی ہندوؤں اور کانگر میں راہنماؤں میں مایوسی پھیل گئی۔ ہندوؤں نے تقسیم کے منصوبے کو گئو ماتا کے ٹکڑے کرنے کے مترادف قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی ہندو لٹیروں اور مسلح جتھوں نے تباہی و بربادی کا آغاز کر دیا۔ انہوں نے مشرقی پنجاب اور دہلی میں مسلمانوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا اور ان کی املاک لوٹ لی۔ اس دوران اتنا قتل عام ہوا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تقریباً دس لاکھ کے قریب مسلمان شہید کیے گئے اور ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں کے گھر بار اور مال و متاع لوٹ لیے گئے، گویا مسلمان آگ اور خون کے دریا عبور کر کے اپنی منزل مقصود یعنی پاکستان پہنچے۔ انگریز حکومت نے بھی بد دیانتی اور بد عہدی کی انتہا کر دی تھی۔ بنگال اور پنجاب میں سرحدوں کے تعین کیلئے بنائے گئے ریڈ کلف کمیشن نے مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل چند اہم اضلاع بھارت میں شامل کر دیے۔ ضلع گورداسپور مسلمانوں کی اکثریت کا علاقہ تھا لیکن ریڈ کلف کمیشن نے بد دیانتی سے اسے بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ اس طرح ہندوستان کو کشمیر تک پہنچنے کا آسان راستہ مل گیا اور اس نے زبر دستی اس ریاست پر قبضہ کر لیا۔ قائد اعظمؒ کشمیر پر اس طرح بھارتی تسلط سے بہت بد دل اور رنجیدہ تھے۔ اس حوالے سے آپؒ نے برملا کہا کہ کشمیر سیاسی اور فوجی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے، کوئی خود دار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کے حوالے کر دے۔ اس سے پہلے قائد اعظمؒ اپنی ایک تقریر میں واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ ہندوستانی ریاستیں اس معاملے میں آزاد ہیں کہ وہ چاہیں تو مجلس دستور ساز پاکستان میں شمولیت اختیار کریں یا مجلس دستور ساز ہندوستان میں یا چاہیں تو آزاد رہیں۔ مجھے اس ضمن میں کوئی شبہ نہیں کہ مہاراجہ کشمیر اور حکومت کشمیر عوامی مفاد اور جذبات کے پیش نظر اس معاملے پر پوری طرح غور کریں گے۔ ایک اور موقع پر آپؒ نے اہلِ کشمیر کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ متحد رہیے، بے لوث جانفشانی ، محنت اور منظم طریقے سے کام کیجئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو آزادی کشمیر اور آپ کے منصفانہ اور جائز حقوق کے حصول سے نہیں روک سکتی۔
قیام پاکستان
با لآخر قا ئد اعظمؒ کی ان تھک محنت لازوال عزم اور بے مثال تدبر و فراست کی بدولت پاکستان 14 اگست 1947 ء کو دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کے روپ میں جلوہ گر ہوا تحریک آزادی کے یہ سنگ میل حقیقت میں قائد اعظمؒ کی پر عزم اور بے لوث قومی خدمت کی لازوال داستان ہیں۔ آزادی جیسا یہ کوہ گراں مسلمانوں سے کبھی سر نہ ہوتا اگر انہیں محمد علی جناحؒ جیسا صاحب عزم و ہمت اور بے باک و بلند کردار کا حامل قائد میسر نہ آتا۔ واقعی قائد اعظمؒ نے تن تنہا اپنی ذہانت لیاقت اور بصیرت سے انگریز جسے زیرک اور ہندو جیسے شاطر دشمن کو مات دے دی اور مسلمانوں کے منتشر و بے حقیقت گروہ کو از سر نو منظم کر کے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا جس نے غلامی کی دو سو سالہ تاریک رات کو آزادی کے لازوال آفتاب سے منور کر دیا۔