مسائل اور اُن کا حل

تحریر : مفتی محمد زبیر


(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

جواب:قرآن ِکریم کے بوسیدہ اوراق جلانا درست طریقہ نہیں ہے، بہتر یہ ہے کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر زمین میں دفن کردیاجائے یا پھر دریا میں یا کسی غیرآبادکنویں میں رکھ دیا جائے۔(جامع الفتاوٰی، 402,502/4) ، (وفی الدر المختار 6/ 422)، (وفی الفتاوی الہندیۃ 5/ 323)، (صحیح البخاری 6/ 184)

گانے کی طرز پر نعت پڑھنا 

سوال : نعتیں گانوں کی طرزپرپڑھی جاتی ہیں، کیا اس طرح پڑھناجائزہے ؟(مس طیبہ، کھاریاں)

جواب:گانوں کے طرزپرنعت پڑھنا نعت کی عظمت اور روح کے خلاف ہے، اس لئے اس سے احتراز کرنا لازم ہے۔

نیندسے وضو ٹوٹنے کی تفصیل 

سوال:سونے والے کی نمازکیسی رہی؟ نیز ٹیک لگائے ہوئے اگر نیندآجائے اورفوراًجاگ جاؤں کیا وضو رہے گایانہیں؟(ناصف حمید، قصور)

جواب :ٹیک لگا کر سونے سے اگر اتنی غفلت ہوئی کہ وہ ٹیک ہٹا لینے سے سونے والا گرسکتاہوتو ایسی صورت میں وضوٹوٹ جاتا ہے۔اگرٹیک لگائے بغیربیٹھے بیٹھے سوجائے اور گرے نہیں یا گر جائے لیکن گرکرفوراًآنکھ کھل جائے توان صورتوں میں وضو نہیں ٹوٹتا۔

رقم امانت رکھواکر انتقال ہوگیا تو کیا حکم ہے ؟ 

سوال:میری ہمشیرہ نے اپنی زندگی میں میرے پاس 10 لاکھ روپے امانتاً رکھوائے تھے اوریہ بات کہی کہ’’ میرے شادی شدہ بچوں کواس بات کی خبرنہیں ہونی چاہئے اوران پیسوں کوکنوارے بچوں کی شادی میں خرچ کروں گی‘‘،اب ان کا انتقال ہو گیا ہے، آیااب جورقم میرے پاس ہے وہ ان کے کنوارے بچوں کی شادی پر خرچ ہوگی یاوراثت میں تمام شادی شدہ وغیرشادی شدہ اولادمیں تقسیم ہو گی؟ واضح رہے کہ موت کے وقت مرحومہ نے کوئی وصیت بھی نہیں کی۔ براہ مہربانی اس مسئلہ کا حل بتا دیں۔ (ایک بہن )

جواب:صورت مسئولہ میں مرحومہ کی آپ کے پاس امانتاًرکھوائی گئی رقم اس کی وراثت کاحصہ ہے ، اب یہ رقم صرف غیرشادی شدہ اولادکی شادیوں پر خرچ کرنادرست نہیں بلکہ سارے شرعی ورثاء اپنے اپنے حصے کے مطابق اس کے حقدار ہیں لہٰذا ہر وارث کاحصہ معلوم کرکے اسے دے دینالازم ہے۔ تاہم اگر سب ورثاء بالغ ہوں اوروہ اپنی رضامندی سے مرحومہ کے غیر شادی شدہ بچوں کی شادی پرخرچ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ (فی شرح  ا لمجلۃ: 803، ص: 446)

سودی ملازمت والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا

سوال: کیا ایسے شخص کے پیچھے نمازپڑھناجائزہے جوکہ کسی مالیاتی ادارہ میں سودکالین دین کرتا ہو۔ (محمد اسلم، لاہور کینٹ )

جواب:کسی مالیاتی ادارے میں ایسی ملازمت جس میں براہ راست سودی لین دین سے واسطہ پڑتا ہو شرعاً جائز نہیں لہٰذا جو شخص کسی ایسے مالیاتی ادارے میں کام کرتا ہو اسے اپنے اختیارسے امام بنانا شرعاً درست نہیں کیونکہ ایسے شخص کے پیچھے نمازمکروہ تحریمی ہے۔ اس کے بجائے کسی صحیح العقیدہ ، متقی اور صالح شخص کو امام مقرر کرنا لازم ہے۔ اگرکوئی صالح امام نہ ملے تو جماعت نہ چھوڑے ،اسی شخص کے پیچھے نمازپڑھ لے کیونکہ جماعت کی تاکیدزیادہ آئی ہے۔ 

لے پالک کے والد کے خانہ میں کس کا نام لکھا جائے ؟

سوال :جس لے پالک (لڑکایالڑکی)کے والدین کاکچھ پتہ نہ ہو تو اس کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر کاغذات میں ولدیت کے خانے میں تربیت کرنے والا اپنا نام لکھ سکتاہے؟(محمد فاروق، سکھر)

جواب :سرپرست یامربی کے خانے میں تربیت کرنے والااپنانام لکھ سکتاہے لیکن ولدیت کے خانے میں اپنانام لکھناشرعاًجائزنہیں، اس سے احترازلازم ہے۔تاہم کسی قانونی مجبوری کے تحت ولدیت کا ہی خانہ پُر کرنا ناگزیر ہو تواس جگہ عبداللہ لکھنے کی گنجائش ہے۔(فی صحیح البخاری:2؍705)

جادو کرنے والوں سے میل جول رکھنا

سوال:۔جادو وغیرہ کرنے والے افراد سے میل جول رکھنا کیسا ہے؟(رضیہ ملک، فیصل آباد)

جواب:۔جادوکرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اور جو لوگ جادو کرتے ہیں چونکہ ان سے میل جول رکھنے میں عقائد کے بگڑنے کا اندیشہ ہے لہٰذا ان سے میل جول نہیں رکھنا چاہئے۔ (فی بذل المجہود 5/261)

مسجد میں بلند آواز سے ذکرکرنا

سوال : آج کل مساجدمیں جو ذکر باآواز بلندمجتمع ہو کر کیاجاتاہے کیاقرآن مجیدو احادیث مبارکہ میں اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے؟ براہ کرم ذکربالجہرکاثبوت دلائل کی روشنی میں دیجئے (محمد امین یونس،کراچی )   

جواب : مسجد میں اس طرح ذکر بالجہر کرنا کہ جس سے کسی نماز پڑھنے والے کا دھیان بٹے یامعتکفین کی نیندمیں خلل ہو یا دوسرے ذکر کرنے والے کو الجھن ہو یا دوسرے لوگوں کو دکھانا مقصودہوتودرست نہیں۔ اگراس قسم کی کوئی خرابی لازم نہ آتی ہوتو جائز ہے۔ عموماً چونکہ اس طرح کی خرابیاں ضرور لازم آتی ہیں اور لوگ حدود کی پابندی نہیں کرتے اس لئے جہراً ذکر کے بجائے دل میں یا پست آواز سے ذکر کیا جائے(کذافی امداد السائلین 1؍404) ،(فی ردالمحتار، 2؍525)

اشراق اور چاشت نماز کی نیت ایک ساتھ کرنا

سوال:اگر اشراق کے وقت چار رکعت اشراق و چاشت دونوں کی نیت سے ادا کی تو کیا یہ درست ہے، کیا دونوں کی فضیلت حاصل ہو جائے گی؟ (علی، کراچی)

جواب:۔اشراق وچاشت دونوں کی نیت سے چار رکعت ادا کرنا درست ہے۔ (فی حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 216) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔

جناحؒ کے ماہ وصال

٭ 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیداہوئے۔٭ 04جولائی 1887ء کو سندھ مدرستہ السلام میں داخلہ ہوا۔ ٭ 1892ء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ روانہ ہوئے۔٭ 1897ء کو بطور وکیل بمبئی ہائیکورٹ سے منسلک ہوئے۔