احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

احسان دین اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔ تمام تر حالات اور معاملات میں احسان اختیار کرنے کا حکم ہے۔ احسان کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور وہ اس کے محبوب بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں احسان کی فضیلت کو قرآن میں بیان فرمایا۔ ارشادِ ربانی ہے ’’سو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس (مومنانہ) بات کے عوض انہیں ثواب میں جنتیں عطا فرما دیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور یہی احسان کرنے والوں کی جزا ہے‘‘ (المائدہ: 85)۔  احسان کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرفراز ہوتے ہیں، فرمان ربانی ہے ’’اور احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ : 195)۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے، اس حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بیشک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ (خاص) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقویٰ ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ اِحسان (بھی) ہوں‘‘ (النحل: 128)۔

اگر احسان کریں گے تو اس سے اپنا ہی فائدہ ہو گا جس کا بدلہ دنیا و آخرت میں بہترین جزا کی صورت میں ملے گا: ’’اگر تم احسان کرو گے تو خوداپنے ہی فائدہ کیلئے کرو گے، اور اگر تم برائی کرو گے تو اپنی (ہی) جان کیلئے‘‘ (بنی اسرائیل: 7)، دوسری آیت میں ارشاد ِربانی ہے ’’اللہ تعالیٰ عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کو حق دینے کا حکم دیتا ہے‘‘ (النحل: 90)۔

احسان کامفہوم:احسان جس کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اور پیارا بن جاتا ہے اور بدلہ میں اللہ تعالیٰ جنت عطا فرماتا ہے۔لفظِ احسان کا اصل ماخذ’’ح ، س ، ن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔ احسان کے کچھ اور مفہوم بھی بیان کیے جاتے ہیں جو کہ حسب ذیل ہیں۔

کامل توجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا: نیتوں کو اپنے مفادات سے پاک اور بلند تر کر کے اللہ کیلئے خالص کر دینے کے باعث احسان عبودیت یعنی بندگی کا اعلیٰ ترین درجہ بن جاتا ہے۔ اس لیے احسان فی الحقیقت اپنی سوچ و فکر اور ارادہ و مقصد کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کر دینے کا نام ہے اور یہ عقیدہ و عمل میں سنت محمدﷺ کا اتباع کر تے ہوئے نیک اعمال بجا لانے سے حاصل ہوتا ہے۔جیساکہ امام بخاری اور امام مسلم کی روا یت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز حضرت جبریل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآبﷺ میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کیلئے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔ انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: (اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے، اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے۔اس کے بعدحضرت جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ (صحیح بخاری، :65)

اچھارویہ اختیارکرنا: نماز، روزہ، زکوٰۃ، گفتگو، لین دین، تجارت،معاملات سب کچھ احسن انداز سے بجالانا۔حتیٰ کہ جانورکوذبح کرنے اور کسی موذی چیزکومارنے میں بھی احسان (اچھا انداز) اختیارکرنا۔ اسی معنی و مفہوم کو رسول اکرمﷺ نے اس انداز میں بیان فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھا انداز اختیار) کرنا تم پر فرض کیا ہے۔ لہٰذا جب تم کسی کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، چھر ی اچھی طرح تیزکرو اور ذبیحہ کو راحت پہنچاؤ‘‘ (سنن ابن ماجہ: 3170)۔

غرضیکہ ہر نیک اور جائز کام کو اچھے انداز سے سرانجام دینا ضروری ہے۔ میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو جاتا ہے اور طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور طلاق سے ہونے والی علیحدگی میں بھی اسلام نے اچھے انداز اختیار کرنے کا حکم دیا۔ قرآن مجید میں ہے: ’’طلاق والیوں کو اچھی طرح فائدہ دینا پرہیز گاروں پر لازم ہے۔ (البقرہ:241)

اسی طرح خریدوفروخت  کے دوران تاجروں پر لازم ہے کہ وہ احسان اور رحم کی راہ اپنائیں اور مسلمانوں کے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں۔ وہ اس استحصال سے باز رہیں جس کا موجودہ زمانہ میں چلن عام ہو چکا ہے۔ وہ ذخیرہ اندوزی نہ کریں اور زائد قیمت لینے سے احتراز کریں۔ یہ بات انھیں ہمیشہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ان کا عظیم رب ان کی نیتوں ، ان کے اقوال اور ان کے افعال کی خوب نگرانی کر رہا ہے۔ یہ بھی ان کے ذہن نشین رہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک مومن اپنے بھائی کیلئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ سو لازم ہے کہ تاجر حضرات لوگوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آئیں اور صرف معقول منافع لیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پررحم کرے جوسودابیچتے وقت، سوداخریدتے وقت اوراپناحق مانگتے وقت نرم اور احسن انداز اختیار کرتاہے‘‘(صحیح بخاری: 2076)۔

حسن سلوک اختیارکرنا:احسان، کتاب و سنت کی نصوص کے مطابق انسان کے اپنے بھائی سے حسن معاملات کا جوہر ہے۔ احسان کا دائرہ کار انسان کے خود اپنے آپ پر، ماتحتوں پر، اس کے خاندان اور عزیز و اقارب پر اور تمام انسانی معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ حق داروں کے حقوق کی ادائیگی میں احسان کاحکم دیااوریہاں بھی احسان حسن سلوک کے معنی میں بھی استعمال ہواجیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ’’تم اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اور رشتہ داروں، اور یتیموں، اور محتاجوں (سے)، اور نزدیکی ہمسائے، اور اجنبی پڑوسی، اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو،(سے بھی حسن سلوک کرو)‘‘ (النساء: 36)۔

احسان کرناضروری ہے لیکن احسان جتلانا ناجائز اور حرام ہے۔ عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگامیں احسان جتلاناجائز نہیں،اوربندوں کے ساتھ حسن سلوک کرکے بندوں پر احسان جتلانا بھی جائز نہیں۔دونوں کی تردید قرآن و سنت میں موجود ہے: ’’یہ لوگ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں، فرما دیجئے: تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ، بلکہ اللہ تعالیٰ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا ہے‘‘ (الحجرات:17)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر احسان جتلا کر ایذا دینے سے منع فرمایا،  ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو!اپنی خیرات کواحسان جتلاکر اور ایذا پہنچا کر بربادنہ کرو‘‘ (البقرہ: 264)۔حدیث مبارکہ میں ہے،حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تین اشخاص سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام کرے گانہ ان کی جانب نظررحمت کرے گا۔وہ شخص جوتکبرسے اپنی چادرٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، جو (کسی غریب و نادار پہ) خرچ کر کے احسان جتلاتاہے اور جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے کاروبار کو چلانے والا ہے۔ (صحیح مسلم: 106)

احسان شناسی: مل جل کر رہنا انسانی ضرورت ہے ۔ جب یہ حقیقت ہے کہ بنی آدم کسی نہ کسی اعتبار سے ایک دوسرے کے محسن و معاون ہیں تو اس احسان کا تقاضا ہے کہ اپنے محسن کے ساتھ وفاداری اور احسان شناسی کا معاملہ کیاجائے، اس کے تعاون کا اچھا بدلہ دیاجائے۔ احسان شناسی کی ضد احسان فراموشی ہے، جو عصرحاضرمیں عام ہوتی جارہی ہے۔ آج کے انسان کا معاملہ نہ صرف محسن انسانوں کے ساتھ،بلکہ اپنے خالق کے ساتھ اس درجہ احسان فراموشی کا ہے کہ وہ اس کی عطا کردہ زندگی جیسی عظیم نعمت اور مزید لاتعداد نعمتوں اور رحمتوں کے باوجود بھی کفران نعمت اور ناشکری جیسی انتہا سے باز نہیں آتا۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بے شک اللہ تعالیٰ کو تمھارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (البقرہـ:237)۔

نبی کریمﷺکی سیرت مبارکہ اور آپﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ محسن کے احسان کا شکر اداکرنا، صاحبِ فضل کا اعتراف کرنا اور احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے دینا مسلمانوں کا وطیرہ ہونا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔

جناحؒ کے ماہ وصال

٭ 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیداہوئے۔٭ 04جولائی 1887ء کو سندھ مدرستہ السلام میں داخلہ ہوا۔ ٭ 1892ء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ روانہ ہوئے۔٭ 1897ء کو بطور وکیل بمبئی ہائیکورٹ سے منسلک ہوئے۔