سردیوں کی چھٹیاں !

تحریر : طوبیٰ سعید


عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

’’امی! اب بہت ساری انجوائے منٹ ہوگی، میں اب بہت انجوائے کروں گا ، گھر میں باربی کیو پارٹی اور خوب دعوتیں ہوں گی، آپ بہت سے پکوان پکانا اور ہم نانی گھر بھی جائیں‘‘، عدنان نے خوشی سے جھولتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ! میرے بیٹے ضرور،ہم بہت مزے کریں گے ‘‘ عدنان کی امی فرزانہ بیگم نے کہا۔ اس کے ابو جمشید صاحب بھی پاس بیٹھے لیپ ٹاپ پراپنے دفتر کے کام میں مصروف تھے۔ 

 ’’امی،پلیز جلدی سے کباب بریڈ پر لگا کر مجھے سینڈوچ بنادیں، اچھا امی ، میں جلدی سے نہا لوں، پھر سب کزنز کو بھی فون کردوں گا تاکہ سب آجائیں اور پارٹی شروع ہوجائے‘‘۔ عدنان یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اوراس کی امی کچن میں چلی گئیں۔

اس کے ابو سب سن رہے تھے،وہ اٹھے اور اس کمرے میں آ گئے جہاں عدنان بیٹھا سردیوں کی چھٹیوں کی پلاننگ کررہا تھا۔ ’’ بیٹا !‘‘ عدنان کے ابو نے اسے مخاطب کیا ۔ عدنان فوری طور پر متوجہ ہوااور بولا’’جی پاپا جی ! ‘‘ ۔

’’بیٹا ! آپ سردیوں کی چھٹیوں کی منصوبہ بندی کررہے ہو، انجوائے کرنے کیلئے کزنز کو بلائو گے اور گھر میں سردیوں کے کھانے پکیں گے‘‘،اس کے ابو نے کہا۔

 ’’ جی ابو جی ایسا ہی ہوگا ‘‘ عدنان نے پرجوش ہوکر کہا ۔ اس کے ابو بولے ’’ بیٹا ! یہ سردیاں محض آپ بچوں کے انجوائے منٹ کیلئے ہی نہیں ہیں۔ اس میں بہت سے کام کرنے اور دل سے احساس کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

 دیکھو میرے بیٹے ! جس طرح آپ ہو اور باقی سب بچے سردیوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ اس کو انجوائے کرتے ہواور مزے مزے کے کھانوں کی فرمائشیں کرتے ہو، بالکل اسی طرح آپ سب کی امی کا بھی انجوائے کرنے کا دل چاہتا ہے۔ انھوںنے ہمیشہ آپ بچوں کا دھیان رکھا۔ گرمی ہو تب بھی سردیاں آئیں تب بھی۔ آپ سب کے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ آپ کے امتحانات کی تیاری بھی کروانے میں پیش پیش رہیں۔ اسی لیے آپ سب بچوں کو احساس کرنا چاہیے کہ سردیوں اور گرمیوں کی چھٹیاں محض انجوائے کرنے کیلئے ہی نہیں ہوتیں بلکہ اپنی مائوں کے ساتھ بھی انجوائے کرنا بہت ضروری ہے ، ہمیں انھیں بھی آرام دینا چاہیے ، انھیں بھی ٹھنڈ لگتی ہے، ان کو بھی صبح صبح اُٹھنے میں مشکل ہوتی ہے، سکول کے دوران بھی آپ کے کام کرتی رہیں اور اب چھٹیاں بھی ہوچکی ہیں تو کیا انھیں اب بھی سکون نہیں دیں گے۔ انھیں گھریلو کاموں میں مصروف رکھیں گے، انھیں سخت سردی میں کام ہی کرواتے رہیں گے، کیا ان کی مدد نہیں کریں گے ‘‘۔ 

عدنان اپنے ابو کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ اسے اپنی امی کی ہر کام میں مددکرنی چاہیے اور ان کا احساس کرنا چاہیے۔ 

عدنان کی امی اس کیلئے چائے اور سینڈوچ بنا کر کمرے میں لائیں تو عدنان آگے بڑھا اور اپنی امی کے ہاتھ چُوم کر کہا ’’میں اور میرے سب کزنز آپ کی گھر کے کاموںمیں مدد کریں گے، اور سب بڑھ کر اب آپ زیادہ آرام فرمائیں گی اور ہم آپ کے کام کریں گے‘‘۔

 یہ سن کر اس کی امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورانہوں نے اسے گلے لگا لیا۔ 

اگلے دوروز میں عدنان نے اپنے سب کزنز اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر انجوائے کیا اور اپنی امی کی اس سردیوں کی چھٹیوں میںبہت مدد کی اور آئندہ کیلئے تہیہ بھی کیا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟

مجھے ننھا نہ سمجھو

مجھے ایک ننھا سا لڑکا نہ سمجھو مجھے اس قدر بھولا بھالا نہ سمجھو مجھے کھیلنے ہی کا شیدا نہ سمجھوسمجھتے ہو ایسا، تو ایسا نہ سمجھو