مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

تحریر : اشفاق احمد خاں


بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’ میرے خیال میں تم ایسا ہرگز نہیں کرو گے، کیونکہ جس نے مجھے نیزہ مارا ہے، اس کو تو نے ہی حکم دیا تھا‘‘۔حجاج نے ناراضی کے عالم میں اُٹھتے ہوئے کہا: ’’اللہ تجھ پر رحم کرے! ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا وہاں سے چل دیا۔

عبداللہ بن عمر ؓ، خلیفہ دوم امیر المومنین عمر بن خطابؓ  کے صاحبزادے تھے۔ آپؓ کے والد عمر بن خطابؓ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہو چکا ہوتا، تو عمرؓ نبی بن کر مبعوث ہوتا‘‘۔ ایک اور موقع پر آپﷺ نے فرمایا ’’ میں دیکھتا ہوں کہ شیطان صفت انسان اور جن، عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بھاگتے ہیں‘‘۔ اسی طرح کی ایک اور روایت ابن عسا کر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، نبی کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے’’ اے عمر! بے شک شیطان تجھ سے ڈرتا ہے‘‘۔

رسول اللہ ﷺ جانتے تھے کہ آپؓ مضبوط شخصیت کے مالک ہیں۔ ثابت قدمی اور آہنی عزم آپؓ کی ذات کے اہم ترین اوصاف تھے۔ مکہ کے معاشرے میں آپؓ کا بڑا مقام تھا۔ شاید اسی لئے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ’’ اے اللہ! اسلام کی سربلندی کیلئے عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو چن لے‘‘۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وہ واحد آدمی تھے جو  ہجرت کرتے وقت تلوار کو لٹکائے ہوئے تھے اور اس موقع پر وہاں سے باقاعدہ اعلان اور چیلنج کرکے لوگوں کی نظروں کے سامنے سے نکلے۔ عبداللہ بن عمرؓ کی پیدائش نبوت کے تیسرے سال ہوئی۔ قریش مکہ نبی کریم ﷺ کی زبردست مخالفت کر رہے تھے حتیٰ کہ عمر بن خطاب ؓبھی دعوت حق کے زبردست مخالف تھے۔ ان کا بھی عام لوگوں کی طرح یہی خیال تھا کہ نئے دین کو قبول کرنے سے وہ معاشرے میں اپنا مقام کھو بیٹھیں گے، کیونکہ دین اسلام نے لوگوں کے درمیان برابری کی رسم ڈال کر آقا و غلام کا فرق مٹا دیا تھا۔ ان کا تعلق ایک معزز اور اعلیٰ خاندان سے تھا۔ 

جب کفار مکہ کو یہ احساس ہوا کہ حق کی دعوت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور نیا دین معاشرے میں اپنی جڑیں پکڑ رہا ہے تو انہیں خیال آیا کہ اس مسئلے کا حل اب محمد ﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، چنانچہ یہ ذمہ داری عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)کو سونپ دی گئی۔ وہ تلوار ہاتھ میں پکڑے، قتل کے ارادے سے نکلے تو راستے میں کسی آدمی سے انہیں بہن اور اس کے شوہر کے قبول اسلام کا علم ہوا۔ غصے میں بھرے ان کے ہاں پہنچے، لیکن مار پیٹ کے باوجود ان لوگوں نے دین حق کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔ 

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ لائو! جو کچھ تم پڑھ رہے تھے، میں بھی تو دیکھوں‘‘۔ان کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم ناپاک ہو۔ چنانچہ عمر( رضی اللہ عنہ) نے غسل کیا بعد ازاں ان کی بہن نے وہ اوراق ان کے حوالے کردیئے۔ ان پر سورہ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے جب ان کو پڑھا تو چہرے کی رنگت بدل گئی۔انہوں نے اس سے قبل ایسا کلام کبھی نہیں سنا تھا۔ ان کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ کسی آدمی کا کلام نہیں ہو سکتا۔ پھر پوچھا: ’’ محمد ﷺ مجھے کہاں مل سکتے ہیں؟‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’ وہ صفا پہاڑی کے زیریں حصے میں ہوں گے‘‘۔

یوں ہدایت کی کرنوں نے سید نا عمر(رضی اللہ عنہ) کے دل میں گھر کر لیا اور انہوں نے دین حق کو قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بعض صحابہ کرامؓنے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنا اسلام قبول کرنے کا عمل خفیہ رکھیں۔ عمرؓ نے جواب دیا: ’’ اللہ کی قسم! میں اسلام کا اظہار بھی ایسے ہی علی الاعلان کروں گا جس طرح میں کفر کا برملا اظہارکرتا تھا‘‘۔

نبوت کے تیرہویں سال سیدنا عمر فاروق ؓنے اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو عبداللہؓ بھی اپنے والد کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ اس وقت آپؓ کی عمر تقریباً دس برس تھی۔عبداللہ بن عمر ؓ کو نبی کریم ﷺ سے والہانہ محبت تھی۔ آپؓ اپنا زیادہ وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گزارنے کی کوشش کرتے۔ 

صحابہ کرام ؓ نبی کریم ﷺ کے گرد جمع رہتے۔ وہ سب عقیدت ، محبت اور احترام میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ کی فرمانبرداری ان سب سے جدا تھی۔ اس کا سب سے اہم سبب یہ تھا کہ آپؓ نبی کریمﷺ  سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا‘‘( آل عمران)۔ (جاری ہے)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟

مجھے ننھا نہ سمجھو

مجھے ایک ننھا سا لڑکا نہ سمجھو مجھے اس قدر بھولا بھالا نہ سمجھو مجھے کھیلنے ہی کا شیدا نہ سمجھوسمجھتے ہو ایسا، تو ایسا نہ سمجھو