تم میں سے ہر ایک جوا بدہ ہے!

’’ ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولادکی نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(صحیح بخاری )
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’آگاہ رہو تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے یعنی جس کا نگہبان اور ذمہ دار ہے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولادکی نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
انسانی معاشرے کی فطری ترتیب ہی کچھ اس طرح ہے کہ ہر انسان جس سطح پر بھی ہو اس پر چند انسانوں کو اختیار ہوتا ہے اور خود اس انسان کو بھی چند اور انسانوں پر اختیار ہوتا ہے۔ سربراہِ مملکت سے لے کر ایک چھوٹے سے گھرانے کے فرد تک یہی ترتیب موجود رہتی ہے۔ اسی طرح ہر انسان کو چند افراد پر اختیار حاصل رہتا ہے۔ اب یہ انسان اپنے اختیارات کو ان لوگوں پر استعمال کرتا ہے۔
بحیثیت انسان ہونے کے اس کے اندر فطری جذبات اور خواہشات بھی ہیں۔ ان جذبات اور خواہشات کو پورا کرنے کیلئے بھی انسان یہ اختیارات استعمال کرتا ہے۔ اس اختیار کو انسان صحیح بھی استعمال کرتا ہے اور غلط بھی۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ ’’خبردار تم میں سے ہر ایک راعی اور نگہبان محافظ اور حاکم ہے اور جس پر حاکم ہے جس کی نگہبانی اس کے ذمہ ہے۔ اس کے بارے میں اس شخص سے اللہ ربّ العزت کے حضور میں پوچھا جائے گا کہ ہم نے تمہیں چند انسانوں پر اختیار دیا تھا تم نے اس اختیار کو کیسے اور کس طرح استعمال کیا‘‘۔
پھر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی راعیۃ، نگہبان‘ محافظ اور ذمہ دار ہے۔ اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اس حدیث مبارکہ میں عورت کو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی راعیۃ قرار دیا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ حاکم ہے یا محافظ ہے۔بلکہ بڑا خوبصورت اور بلیغ عہدہ عطا فرمایا کہ وہ راعیۃ ہے۔ راعی کے معنی ہیں چرواہا۔ جس طرح چرواہا اپنے جانوروں کے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے۔ ان کی دیکھ بھال ایک مخصوص تعلق کے ساتھ کرتا ہے۔ ان کے چارہ پانی کا خیال رکھتا ہے۔ اگر بکری بیمار ہو جائے اس کا علاج معالجہ کرتا ہے لیکن اگر کوئی بکری ریوڑ سے ہٹ کر چلنے لگے اسے ہانک کر واپس لاتا ہے۔ اگر ہانکنے سے واپس نہ آئے تو اس پر سختی کرتا ہے تاکہ وہ ریوڑ سے بچھڑ کر جدا نہ ہو جائے۔
بالکل یہی فرائض عورت کیلئے اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کے بارے میں ہیں کیونکہ حکمرانی کرنا آسان کام ہے اسی طرح محافظ بن جانا مشکل کام نہیں۔ چرواہے کی طرح اپنے گھر اور اپنے بچوں کی نگہبانی اور پرورش کرنا اعلیٰ ترین ذمہ داری ہے۔ ہر معاشرہ میں عورت اپنے گھر اور اپنے بچوں کی پرورش اور نگہبانی کرتی رہی ہے اور یہ نگہبانی اکثر معاشرتی طور پر اسے کرنی پڑتی ہے۔اگر ایک عورت اپنے گھر اور بچوں کا خیال اس لیے رکھتی ہے کہ خدا عزوجل نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔ تو یہی نگہبانی اور پرورش عبادت بن جائے گی۔ اس نگہبانی کی ابتدا بچے کی پیدائش کے تھوڑی دیر بعد شروع ہو جاتی ہے۔ جب بچہ اس دنیا میں آئے۔ اس کے کانوں میں اذان اور اقامت کے ذریعے اللہ کا پیغام ڈالا جائے اگر استطاعت ہو تو شکرانے کے طور پر اس کی طرف سے ایک جانور بطور عقیقہ کے ذبح کرے جب بچہ بولنے لگے‘ دنیا کی دوسری خرافات سکھانے کے بجائے کلمہ طیبہ سکھائے۔ اس لیے کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ اپنے بچے کو سب سے پہلے لا الہ الا اللہ سکھائو‘‘۔ جب باتیں سمجھنے کے قابل ہو جائے تو اچھی تربیت کرے۔ اس لیے کہ آقائے دو عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’کسی باپ نے اپنی اولاد کو اچھی تربیت سے بہتر عطیہ اور تحفہ نہیں دیا‘‘۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ ’’بچہ سات برس کا ہو جائے تو نماز کی تاکید کرو اور جب دس سال کا ہو جائے تو نماز میں کوتاہی کرنے پر سزا دو اور پاکیزہ تعلیم دو جب بالغ ہو جائے اور شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کی شادی کردو‘‘۔
بچوں کی پرورش کے بارے میں شفقت پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ واقعی بہت اہم ہے لیکن شفقت کا مطلب یہ ہے اگر بچہ آپ کا کام کرے تو اس کی تعریف کی جائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن اگر بچہ غلط کام کرے غلط ماحول کو اپنانے کی کوشش کرے تو اب مناسب طریقے سے سختی کرنا شفقت میں شمار ہوگا۔اگر بچہ غلط کاموں اور غلط ماحول کی دلدل میں دھنس رہا ہو اور والدین شفقت سے کام لے رہے ہوں تو یاد رکھیے گا یہ بچے پر شفقت نہیں بچے پر ظلم ہے۔