مہمان پرندے

جب سے وہ یہاں آیا تھا بہت خوش تھا۔ یہ اس کا پہلا لمبا سفر تھا۔ وہ پہلی بار ماں کے ساتھ اتنے لمبے سفر پے نکلا تھا۔ ماں کہتی تھی کہ ہر سال جب بھی موسم سرد ہوگا ہمیں اپنے دوسرے گھر جانا ہوگا جو کہ دنیا کے دوسرے کونے پر ہے۔
اس نے ماں سے اپنے دوسرے گھر کے متعلق کئی سوالات کیے۔ ماں بار بار کہتی بیٹا وہ جنت نظیر ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے ہمیں وہاں کی جائے سکونت دی۔ وہاں ہم کچھ ماہ ہی رہیں گے مگر جب تک وہاں ہوں گے تمہیں وہ گھر بہت اچھا لگے گا۔
وہ چھ ماہ کا سائبیریائی پرندہ تھا، جب سے پیدا ہوا تھا اس کی والدہ اسے اس سفر کے حوالے سے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار کرتی رہی تاکہ ان کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
جیسے ہی وہ ہزاروں میل کا سفر کرکے اس پاک سر زمین پر پہنچے تو ہر شے نے ان کا زبردست استقبال کیا۔ درخت پھول پتے جھومنے لگے، ہوائیں خوشی سے اترانے لگیں، دریا اور ندیاں شور مچانے لگیں، صحرا کی ریت تبسم بکھیرنے لگی، مور ناچنے لگے اور بھولے بھالے انسان ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگے۔ معصوم پرندہ جس کا نام ہنس راج تھا، کی والدہ تو اس سب کی عادی تھیں مگر ہنس نے پہلی بار دیکھا۔ اسے بہت مزا آیا کیا کوئی منظر اتنا پیارابھی ہوسکتا ہے۔ اگر اسے معلوم ہوتا تو وہ پہلے ہی آجاتا ہے۔
یہاں آکر اس کی والدہ کو اسے جگانے کے لئے کوئی آواز نہیں دینی پڑتی۔ نہ وہ سردی کی وجہ سے اٹھنے سے انکار کرتا بلکہ دھوپ کی کرنیں اس کو بڑے پیار سے جگاتیں اور وہ بھی مسکراتے ہوئے اٹھ جاتا، پھر عبادت کرتا اور لمبی سے اڑان بھرتا، اسے بہت مزا آتا۔
ایک دن جب راج خوشی خوشی گھومتا پھرتا سیر کر رہا تھا تو فضا میں نامانوس سی آوازیں آنے لگیں۔ وہ بہت سے انسان تھے مگر وہ راج کو بالکل اچھے نہیں لگے۔ راج نے ہزاروں میل کے سفر میں طرح طرح کے لوگ دیکھے جن میں سے زیادہ تر راج سے محبت سے پیش آتے۔
جب راج اس سر زمین پر پہنچا تو اس کو سکینہ بے حد پسند آئی تھی جو روز اپنے گھر سے پانی کے تالاب تک مٹکا بھرنے آتی۔ اس دوران وہ راج کے لئے کبھی دانے لاتی تو کبھی کوئی اور چیز۔ دونوں کے بیج گہری دوست ہوگئی تھی۔
آج جو لوگ اس تالاب تک آئے تھے وہ سکینہ سے بے حد مختلف تھے۔ ان کے چہرے سے رحم دلی، سخاوت اور محبت کی جگہ لالچ، بے رحمی، تکبر اور طاقت کا نشہ نظر آتا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں عجیب سے لاٹھیاں تھی، جو کہ سکینہ کے بابا کی لاٹھی سے بے حد الگ اور خوف ناک تھیں کیونکہ راج نے ان سے آگ کے شعلے نکلتے دیکھے۔
پھر راج نے دیکھا کہ ایک شعلے نے اس کی والدہ کا پیچھا کیا اور پھر داغ دیا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی مضبوط والدہ جو ہزاروں میل کا سفر کرکے آتے ہوئے ایک بار بھی تھکی نہیں تھی،جس نے کہیں یہ نہیں کہا کہ روکو میرے لوگوں تھوڑا سا سستا لو، زمین پر تھوڑی دیر آرام کر لو، آج وہی نڈر، بہادر اور نہ تھکنے والی زمین پر گر گئی۔ جس پر راج زارو قطار رونے لگا مگر وہ بے بس تھا، کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ شکاری اس کو بھی مار گرانے کے لئے شعلے پے شعلہ داغ رہے تھے مگر راج کی زندگی ابھی لمبی تھی۔ راج ظالم شکاریوں کے نشانے پے ہونے کے باوجود ماں کے آس پاس ہی گھوم رہا تھا۔ اس دوران اس نے دیکھا کہ ایک شکاری نے سکینہ کو پکڑ رکھا ہے اور پھر اس کو زبر دستی اپنی گاڑی میں ڈال دیا۔
راج کو مسلسل خطرے میں دیکھ کر بڑے نمبر دار پرندے نے راج کو کئی آوزیں دیں لیکن راج کو کچھ سنائی نہیں دیا، تو مجبوراً وہ آیا اور راج کو اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ راج جانا نہیں چاہتا تھا لیکن نمبردار پرندے کا جو فرض تھا کہ جب بھی کوئی خطرے میں ہوتا وہ اس کی لازماً مدد کرتا۔ مگر آج راج نمبردار کی بات نہیں سن رہا تھا۔ راج کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس کی زندگی میں اب سب ختم ہوگیا ہے۔ اس لئے مزید رکنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ راج نے سنا تھا کہ جنت ایسے نہیں ملتی اس کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے۔ وہ اس جنتی سر زمین پر رہنے کے لئے بھی اپنی ماں کی قربانی نہیں دیتا مگر اب یہ زمین اس کا خراج وصول کر چکی تھی۔