فٹ بال ہیروز کی دنیا

فٹ بال ہیروز کی دنیا

پاکستان اور پی آئی اے کے گولڈ میڈلسٹ مڈفیلڈر اعجاز علی

کراچی (امتیاز نارنجا) پاکستان میں فٹ بال کھیل کی جب بھی تاریخ رقم کی جائے گی تو ان میں تین خاندانوں کا ذکر ضرور کیا جائے گا۔ ان میں غازی برادران، اصغر ٹونی برادران اورناجی برادران شامل ہیں۔ بدقسمتی سے سے ان خاندانوں کا کوئی بھی فرد اب قومی ٹیم کا حصہ نہیں ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قومی ٹیم کو کامیابی حاصل ہوئی ان میں ان خاندانوں کے کھلاڑیوں کا حصہ ضرور شامل رہا۔ ناجی خاندان کے چشم و چراغ اور سیف گیمز گولڈ میڈلسٹ شیخ حسن علی کے فرزند اعجاز علی 1963 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ باٹا کلب سے اپنے فٹ بال کیرئیر کا آغاز کیا اور بحیثیت مڈ فیلڈر جلد کوچز کی نظروں میں آگئے۔ واپڈا، ریلوے، پاکستان اسٹیل بعد ازاں پی آئی اے سے منسلک ہوگئے۔ پی آئی اے کی جانب سے اپنے کیرئیر کے دوران متعدد قومی چیمپئن شپ میں ٹیم میں انہیں مرکزی کھلاڑی کی حیثیت حاصل رہی۔ 1984 میں پہلی مرتبہ قومی کلر زیب تن کیا۔ انہوں نے سعودی عرب کے شہر دمام میں ایشین یوتھ کپ کوالیفائر میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 1986میں کوئٹہ میں منعقدہ ایشین یوتھ کپ کوالیفائر میں بھی پاکستان کیلئے کھیلے۔ 1985، 1986اور1987 کے قائد اعظم انٹرنیشنل فٹ بال ٹورنامنٹ میں شرکت کی۔ ساؤتھ ایشین گیمز 1985 اور 1987 ایران میں منعقدہ ٹین ڈے انٹرنیشنل ٹورنامنٹ، اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ 1987، پریذیڈنٹ گولڈ کپ 1986 منعقدہ کراچی، اولمپک کوالیفائر 1987، ایشین کپ کوالیفائر 1988کے علاوہ اعجاز علی اس تاریخی ٹیم کے بھی رکن تھے جس نے 1989میں اسلام آباد سیف گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ اعجاز علی کے بڑے بھائی نیاز علی ناجی اور مختار علی اور نیازعلی کے فرزند زاہد نیاز نے بھی قومی ٹیم کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا۔ مختار علی کو 25 اپریل تا 2 مئی 1986 کو جناح اسٹیڈیم اسلام آباد میں چوتھے قائد اعظم انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں پہلی مرتبہ پاکستان گرین کی کپتانی کا بازو بند باندھا گیا۔ پاکستان گرین نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ چین اور جنوبی کوریا بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں