کیا یہ بہتر نہیں کہ ڈان لیکس کے معاملے کو فوج یا وزیر اعظم ہائوس کے سپرد کرنے کی بجائے قومی سلامتی کا معاملہ سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا فوری نوٹس لے۔ اس کام میں جتنی بھی تاخیر ہو گی ،ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ دشمن اس وقت سر چڑھ کر بول نہیں رہا بلکہ کسی خطرناک قسم کی کارروائی کیلئے پر تول رہا ہے ۔ سرحد پر وہ شرارتیں کرنے سے باز نہیں آ رہا۔ کشمیر میں ظلم ڈھانے کا اس نے نیا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ایسے میں داخلی مسائل جلد از جلد حل کئے جانے چاہئیں۔
یہ ایسا معاملہ ہے جس میں افواج پاکستان بطور مدعی اور وزیر اعظم ہائوس مدعا علیہ ہیں۔ جہاں بھی پارلیمانی طرز حکومت ہوتا ہے وہاں معاملات حل کرنا کسی ایک ادارے یا شخص کی نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اس لئے بہتر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ڈان لیکس کا تمام ریکارڈ اپنے قبضے میں لیتے ہوئے سات دن کے اندر اندر ا سکی بلا تعطل سماعت شروع کر دے۔اس معاملے کی ثانوی رپورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو ابتدائی رپورٹ بھی سامنے رکھتے ہوئے اپنی کارروائی شروع کرنی ہو گی جس کیلئے پندرہ دن کی مدت بھی بہت زیا دہ ہے۔
اگر سپریم کورٹ ایسا نہیں کرتی کہ خود ہی اس پر سو موٹو لے توپھر کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ فوج یا وزیر اعظم ہائوس دونوں میں سے کوئی ایک اسے سپریم کورٹ لے جائے یا سپریم کورٹ جیسا کہ پہلے کہا ہے ،اس پر سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے پانامہ کی روایات سے ہٹ کر تحقیقات کرے اور یہی وہ آخری طریقہ ہے جس سے یہ معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتاہے۔
دنیا میں کسی بھی مظلوم کی فریاد سننے والے تمام دروازے جب بند ہوجاتے ہیں تو پھر ایک ہی دروازہ نظر آتا ہے اور وہ ہے اﷲ کی ذات کا دروازہ جو کبھی بھی کسی کیلئے بند نہیں ہوتا ،جہاں ہر کسی کو انصاف ہی ملتا ہے صرف انصاف۔۔۔ اسی طرح زمینی عدالتوں میں سب سے محترم اور معتبر سپریم کورٹ ہے جہاں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کے دلوں میں خوف خدا موجود ہوتا ہے اور وہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر یہ کبھی بھی نہیں بھولتے کہ اگر کسی سائل کوعدالت سے انصاف نہ ملا تو پھر ایک دن ایسا آنے والا ہے جب اس کا یہی مقدمہ اﷲ کی عدالت میں پیش ہو گا ، جہاں دنیا میں اس کے ساتھ انصاف نہ کرنے والے ایک ایک شخص کو مجرم گردانتے ہوئے اس کے ہر عمل کی سزا دی جائے گی ۔ فرمان الٰہی ہے کہ'' تم جو کچھ ابھی اپنے دلوں میں سوچ رہے ہوتے ہو اﷲ اس سے بھی واقف ہوتا ہے‘‘...ایسے ہی لوگوں کو دنیا میں خبردار کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سورۃ الانبیا کی آیت اٹھارہ میں فرماتا ہے ''ہم حق کو باطل پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ باطل کا سر توڑدیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت مٹ جاتا ہے‘‘۔
ڈان لیکس پر زیا دہ بحث کی ضرورت ہی نہیں صرف ایک نکتہ ہی سامنے رکھنا ہو گا صرف ایک سوال کا جواب ہی دینا ہو گا'' سیرل المیڈا کی دی جانے والی یہ خبر کس نے اور کیوں پلانٹ کی ؟اس میں جس کا بھی ہاتھ ہے اسے سامنے لایا جانا چاہئے اور اگر جیسا کہ اب سوشل میڈیا پر پلانٹ کیا جا رہا ہے کہ اس خبر میں کوئی بھی وطن دشمنی والی بات نہیں، اس خبر سے کسی بھی قسم کے ملکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچا تو پھر...جو کوئی بھی ہے اسے کھل کر سامنے آ جا نا چاہئے اور اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنا چاہئے ''ہاں اس خبر کو میں نے پلانٹ کیا ہے یا کرایا ہے اور میں نے ہی المیڈا کو کہہ کراسے شائع کرایا ہے‘‘... خوف کس بات کا ؟
اداروں میں بڑھتی ہوئی دوریوں سے حالات ایک بار پھر12 اکتوبر1999 کی جانب بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔نتیجہ کیا نکلا تھا ،جنرل مشرف کی صورت میں سب کے سامنے ہے ۔ اﷲ نہ کرے کہ ایک بار پھر میڈیا پرکہا جانے لگے کہ لو جناب قاعدے قانون اور جمہوریت کے سب سے بڑے حامی جرنیل کے ساتھ بھی نباہ نہیں ہو سکا۔
اس و قت سوشل میڈیا پر درجنوں کی تعداد میں '' مراعات یافتہ اور ہدایت یافتہ‘‘ گروپ اداروں کو بے نقط سنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ان کے اصلی اور فرضی نام اس طرح از بر ہوچکے ہیں ، ایک ایک چہرے کے پیچھے کئی کئی چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ سول حکومت کی فوج پر بالا دستی کے نام پر جمہوری اور آئینی حق غصب کرنے کے الزامات کی سنگباری کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم ہائوس کیلئے سب سے بہتر آپشن ایک ہی ہے کہ ڈان لیکس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں، اس کے تمام ذمہ داروں کو مروجہ قانون کے شکنجے میں لائے اور اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس میں وہ خود یا ان کی کوئی قریبی اہم شخصیت ملوث ہے تو وہ قوم سے معافی مانگتے ہوئے اپنے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہو جائیں بصورت دیگراس معاملے کو سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا جائے تاکہ سچ اور جھوٹ سامنے آ سکے!!