ففتھ جنریشن وار: فوج پر نشانے بازی

ففتھ جنریشن وار: فوج پر نشانے بازی

ففتھ جنریشن وار ایک خاص قسم کی جنگ ہے

(لیفٹیننٹ جنرل (ر)نعیم لودھی ) ففتھ جنریشن وار ایک خاص قسم کی جنگ ہے ، جس کا آج کل بہت رواج ہے ۔ بڑی طاقتوں کو کھلی جنگ میں سیاسی طور پر بہت مزاحمت اور سفارتی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جسکی مثالیں عراق اور افغانستان ہیں جہاں انہوں نے کھلی جنگیں کیں مگر ففتھ جنریشن وار میں کسی بھی ملک کو معاشی طورپر تباہ کرنا ،سفارتی سطح پر تنہا کرنا ،سیاسی طور پر دنیا میں بدنام کرنا ،دوسروں کی نظر میں گرانا ،میڈیا اور کسی حد تک ملٹری ، انٹیلی جنس آپریشن شامل ہیں پھر فالس فلیگ آپریشنز(False flag operation ) کیے جاتے ہیں جن میں کوئی چھوٹی موٹی کارروائی کر کے دوسروں کے نام لگا دی جاتی ہے ۔یہ خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے سلسلے میں ہورہا ہے ۔پاکستان میں واردات ہندوستان کرتاہے اور نام افغانستان کا لگا دیاجاتاہے ،افغانستان یا بھارت نے واردات کی ہوتی ہے اور نام پاکستان کا لگا دیا جاتاہے ،یہ جو عجیب و غریب جنگ ہوتی ہے ،یہ آپ کو اندروباہر سے جکڑ لیتی ہے ،اس کو ففتھ جنریشن وار کہا جا تاہے ، اس کے اندر میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا بہت اہم کردارا دا کرتاہے ۔ہائبرڈ وار وہ ہوتی ہے جس میں ایک طرف ففتھ جنریشن وار کی چیزیں ہو تی ہیں اور دوسری طرف تھوڑے بہت ملٹری ایکشن بھی شروع ہو جاتے ہیں ،وہ آپ کو بدنا م بھی کررہے ہوتے ہیں اور جنگ بھی لڑ رہے ہوتے ہیں ۔اب آتے ہیں سعدرفیق کے بیان کی طرف ۔ اس میں تین باتیں اہم ہیں ۔ پہلی یہ کہ مجموعی طور پر ایک ایکشن یا معاملے پر جائز تنقید کرنا کوئی بری بات نہیں ۔مثال کے طور پر فوج نے کوئی ایکشن کیا ،جس میں اپنا نقصان زیادہ ہوگیا اور وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر پائے تو کہا جا سکتاہے کہ فوج کو چاہیے تھا کہ ایسے کرتی یا ویسے کرتی ۔ لیکن فوج نے ایسی باتوں پر ایسے ردعمل نہیں دیا ۔اس کی وجوہات ہیں کہ ایک تو بات اگر ایسی جگہ سے ہو کہ جس کا آپ جواب دے سکیں ،اپنا دفاع کر سکیں تو اس کا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر حکومت جو ریاست پاکستان کا حصہ ہے ،اس میں اگر یہ بات شروع ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آپس میں الجھ پڑے ہیں ۔ اس وقت خاص طور پر جب فوج پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اندرونی و بیرونی طور پر دفاع کر رہی ہے ،وہ کام بھی کررہی ہے جو ان کے ذمے نہیں ہیں ۔ادھر ایک طرف ان سے کام کراتے ہیں ،جیسے فاٹا میں ترقیاتی کام کریں وغیر ہ تو دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ ہمارے کام میں مداخلت کرتے ہیں جب سعد رفیق اور حکومت کاکوئی اور ذمہ دار اس طرح کی بات کرتا ہے تو اس کو وہ سپاہی بھی سن رہا ہو تاہے جو سیاچن پر کھڑا ہے یا جو شمالی وزیرستان کے پہاڑوں میں اپنی ڈیوٹی ادا کر رہا ہے ، وہ افسر بھی سن رہے ہوتے ہیں جو اگلے محاذوں پر اپنی خدمات دے رہے ہوتے ہیں تو ایسی باتیں کرتے ہوئے ان کو اختیاط کرنی چاہیے جبکہ آئین بھی فوج کو اس بات کا تحفظ دیتا ہے کہ کوئی بھی فرد ایسی بات نہیں کر سکتاجس میں فوج اور عدلیہ کے حوالے سے تمسخر کا عنصر شامل ہو ، انکی عزت پر حرف آتاہو ،اس لئے اس کا دکھ ہوا ہے اور اس کا جواب بھی دیا گیا ہے ۔ورنہ تو عام طور پر بہت سی باتیں ہوتی رہتی ہیں مگر ان کا جواب نہیں دیا جاتا۔فوج یہ سمجھتی ہے کہ ہم اس ملک اور اسکے عوام کی حفاظت کررہے ہیں جو کہ ہمارا فرض ہے ، احسان نہیں مگر وہ یہ بھی امید کرتی ہے کہ جب اس کی عزت پر اندر سے حرف آئے تو پھر یہی عوام اور میڈیا ہماری عزت کی حفاظت بھی کرے کیونکہ ہم تو اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں ،ہم کہاں تک ان باتوں میں الجھیں گے کہ کون کیا کہہ رہا ہے اور اس کا کیا جواب دیں اور کتنے لوگوں کو جواب دینگے ۔آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ،کسی کو ایک ہزار روپے دیں اور جو مرضی لکھوا لیں ۔میڈیا وار میں بھی فوج کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے مگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ حکومت بھی ریاست کا حصہ ہے تو بجائے اس کے کہ وہ خود میڈیا وار کا حصہ بن جائے ، حکومتی ذمہ داری ہے کہ اگر میڈیا سے فوج پر حملہ ہو تو اس کا جواب دے لیکن اب میں سمجھتاہوں کہ شاید وہ موقع آگیا ہے کہ جب فوج کو میڈیا وار کیلئے ایک مناسب اور مضبوط ونگ بنانا چاہیے جو آگے سے بھی جوابی کارروائیاں کرے ۔میری عوام اور تمام میڈیا کے لوگوں سے بھی اپیل ہے کہ فوج کی عزت کی حفاظت کریں تاکہ وہ یکسوئی سے اپنا کام کرتی رہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں