سیاستدانوں سے عوام کا براہ راست الجھاؤ، خطرے کی گھنٹی
نمائندے سیاسی میدان میں خوب سرگرم رہے ،عوام سے رابطہ قائم نہ رہ سکا
(تجزیہ :سلمان غنی) ملکی انتخابی صورتحال میں ایک نیا رجحان سامنے آ رہاہے جس میں حلقوں کے عوام خود اپنے نمائندوں اور سیاستدانوں سے جواب طلبی کرتے اور الجھتے نظر آ رہے ہیں۔ جو ایک طرف عوام کے اندر پیدا ہونے والے سیاسی شعور کا ثبوت ہے تو دوسری جانب بڑے سیاسی خاندانوں اور سیاستدانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے جو بجنا شروع ہو گئی ہے اور حلقوں کے عوام اپنے نمائندوں اور ذمہ داروں سے ان کی کارکردگی بارے پوچھتے نظر آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے جاری تنقید میں پانچ مختلف مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ، سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، جمال خان لغاری، سلیم جان مزاری ، طلال چوہدری سمیت سابق وفاقی وزیر سکندر بوسن کے حلقوں میں ان کے ساتھ عام ووٹرز نے براہ راست احتساب کرتے ہوئے حلقہ میں ان کی گزشتہ کارکردگی پر سخت سوالات اٹھائے اور ان شخصیات کا گھیراؤ کیا اور ان میں سے کئی امیدواروں کو وہاں سے واپسی پر مجبور کر دیا۔ پاکستانی سیاست میں یہ نیا رجحان کیا ہے ۔ کیا عوام اپنے مسائل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں یا اسے کوئی منظم احتجاج یا گھیراؤ کا سلسلہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ کیا عوام اس احتجاج کے ذریعے سیاستدانوں کی کارکردگی پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں یا جمہوریت سے ان کا اعتماد اور یقین اٹھ رہا ہے ۔ پہلا سوال جو اس وقت پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس رویے کا اظہار اور رجحان کیوں ہے ؟ یقینا ًیہ عوام میں اپنے غم و غصہ کے اظہار کیلئے ایک بہترین موقع ہے کیونکہ جو سیاستدان ان سادہ لوح عوام سے ووٹ جیسی مقدس امانت لیکر ملک کے منتخب ایوان میں گئے ہیں مگر ان کے مسائل کے حل اور خاتمے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ تمام بڑے نام بالخصوص اور دوسرے سیاستدان بالعموم قومی سطح پر تو سیاسی میدان میں خوب سرگرم رہے ہیں مگر ان کا رابطہ عوام میں قائم رہ سکا اور نہ ہی اپنے اپنے حلقہ کے عوام کا طرز زندگی اور صورتحال بدلنے میں کامیاب رہے ۔ اس رجحان کی ایک اور بڑی وجہ عوام میں بڑھتا ہوا سیاسی شعور ہے جو عوام کو خصوصاً نوجوان نسل کو آگے بڑھ کر دلیری سے سوال کرنے پر ابھار رہا ہے ۔ یہ 2018 کا عام انتخاب ہے اور ملک 90 اور 2000 کی دہائی سے آگے بڑھ چکا ہے اور ملک میں معلومات کا بہاؤ اس قدر تیز ہو چکا ہے کہ ملک کے عوام خصوصاً پسماندہ ترین اضلاع اور علاقوں میں بھی سیاسی موضوعات پر اپنی رائے رکھتے ہیں اور ملک میں پرائیویٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ تیز رفتار سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار ہے جو کچھ اسلام آباد ، لاہور یا کراچی میں ہو رہا ہے اس سے مکمل آگاہی ملک کے دور دراز کے علاقوں میں بھی ہو رہی ہے ۔ پاکستانی عوام سیاستدانوں کی کارکردگی، ان کی جماعت کے ملک گیر کردار، ان کی حکومتی پرفارمنس اور خصوصاً بڑے ایشوز جیسے پاناما انکشافات، کرپشن، انتخابی دھاندلی، اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے کردار اور نواز شریف کی نا اہلی کے بعد یکطرفہ احتساب کے عمل پر اپنا اپنا نقطئہ نظر رکھتے ہیں اور اس کے زیر اثر ووٹ مانگنے والے امیدواروں سے برتاؤ کر رہے ہیں۔ جن شخصیات کو اپنے حلقہ میں سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو حیران کن طور پر تین بڑے واقعات اندرونِ سندھ خورشید شاہ، مراد علی شاہ اور سلیم جان مزاری کے ساتھ پیش آئے ۔ دو بڑے واقعات جمال لغاری اور سکندر بوسن کے ساتھ پیش آئے یہ جنوبی پنجاب کے علاقے ملتان اور ڈیرہ غازی خان ہیں۔ روایتی طور پر یہاں سیاسی گھرانوں سے جواب طلب کرنا اور سوال اٹھانا ماضی کی روایت نہیں ہے ۔ ماضی میں ان علاقوں کے اندر بڑے جاگیردار اور سردار اپنی انتخابی مہم چلانا اور عوام سے ووٹ مانگنا اپنی توہین اور برتری کے خلاف سمجھتے تھے ۔ مگر 2018 کے عام انتخاب میں لگتا یہی ہے کہ ’’گنگا الٹی سمت میں بہہ نکلی ہے ‘‘ علاوہ ازیں اندرون سندھ میں یہ رجحان البتہ پیپلز پارٹی کیلئے سنگین خطرہ ہے ۔ پیپلز پارٹی کو سوچنا ہو گا کہ اب سندھ میں اس سیاسی جاگیر کے خلاف بغاوت کا وقت تو نہیں آ گیا؟اب عوام اپنے سخت ترین سوالات، شدید رد عمل اور غصہ نمائندوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ جہاں تک اس رد عمل کا ایک زاویہ ہے تو وہ یہی حقیقت ہے کہ دنیا کے جدید معاشروں کی طرح ہماری جمہوریت بھی احتساب اور سوال کی روایت کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ عوام سیاستدانوں کی کارکردگی اور خود غرضی سے برہم تو ہیں مگر اس کا اظہار پاکستانی جمہوریت کا ایک موڑ ہے ۔ اس رد عمل سے سیاستدانوں میں جوابدہی کا احساس بڑھے گا۔ جمہوری عمل مزید مضبوط ہوگا اور وہ وقت دور نہیں جب ووٹ لیکر پانچ سال غائب رہنے اور مزے اڑانے کا وقت ختم ہو جائے گا۔