ڈیم کیلئے کتنی رقم درکار, حقائق کیا ہیں‌?

ڈیم کیلئے کتنی رقم درکار, حقائق کیا ہیں‌?

تمام تحقیقات،آثار اور قرائن بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں آنیوالے برسوں میں پانی اور بجلی کا بحران انتہائی سنگین ہوگا،

( دنیا کامران خان کے ساتھ ) ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ہم نے ابھی سے فوری اقدامات نہ کئے تو 2025 تک پاکستان کے عوام بوند بوند پانی کو ترسیں گے جبکہ زرعی شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے خاص طور پر اس موضوع پر قوم سے خطاب کیااور بتایا یہ پاکستان کی بقا کا سوال ہے پچھلے دو ماہ کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ذاتی کوششوں سے ڈیم فنڈز میں ایک ارب 80کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں لیکن یہ رقم فی الحال اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے کیونکہ اس منصوبے پر کام شروع کرنے کے لئے مطلوبہ رقم 1400ارب روپے بتائی گئی ہے ۔واپڈا کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا،یہ منصوبہ گلگت کے ضلع دیامر اور کے پی کے ضلع کوہستان میں قائم ہوگا۔یہاں لوگوں میں اس منصوبے کے بارے میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے لیکن ان کے اپنے تحفظات بھی ہیں ۔دنیا نیوز کے نمائندہ خصوصی شاہ زیب جیلانی اس مقام پر گئے جہاں یہ ڈیم بننا ہے ،اس حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ میں انہوں نے بتایا کہ دریائے سندھ کشمیر کے راستے گلگت بلتستان میں داخل ہوتا ہے پچھلی صدی کے دوران ہم نے اس پر ڈیم بنائے ،پانی و بجلی کے بحران کے مد نظر اب ہم ایک اور ڈیم بنانا چاہتے ہیں ۔یہ ڈیم گلگت بلتستان کے ضلع دیامر اور ضلع کوہستان میں بنے گا۔ڈیم کی جگہ چلاس شہر سے 40کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ،دہائیوں سے یہ منصوبہ التوا کا شکار رہااس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہاں کے مقامی لوگ اپنی زمینیں اور گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے ۔ واپڈا حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال میں اس میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور اس منصوبے پر تعمیراتی کام اگلے سال سے بھرپور انداز میں شروع ہوسکتا ہے ، دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کا سنگ بنیاد 2006 میں جنرل مشرف نے رکھالیکن کوئی خاص کام نہ ہوسکا،دوسرا سنگ بنیا وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2011 میں رکھااس دور میں ڈیم کے لئے مقامی لوگوں سے زمین خریدنے کا سلسلہ شروع ہوا،اس کام میں مبینہ طور پر بڑے گھپلے ہوئے ۔مقامی انتظامیہ پر بھاری رقوم خوردبرد کرنے کے الزام لگے ،بعد میں نواز شریف دور میں شکایات کے ازالے کے لئے کئی اقدامات کئے گئے ۔آج ڈیم کی تعمیر کے لئے زمین حاصل کرنے کا کام تقریباً مکمل ہے ۔مقامی لوگوں کو معاوضے کی مد میں 55ارب روپے دیئے جا چکے ہیں یہ ڈیم کتنا بڑا ہوگا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ڈیم جب بھی بنا قراقرم ہائی وے کا کوئی 100کلومیٹر حصہ زیر آب آئے گا۔ضلعی ہیڈ کوارٹر چلاس کا بڑا علاقہ بھی ڈوب جائے گا،اس کے باوجود یہاں کی بڑی اکثریت ڈیم کی حامی ہے ۔دیامر بھاشا ڈیم جس وسیع علاقے میں بنایا جا رہا ہے وہ تاریخی ورثہ کے لحاظ سے بھی اہم ہے ،یہاں ہزاروں کی تعداد میں پہاڑیوں پر گزرے زمانوں اور تہذیبوں کے نقوش موجود ہیں جو آثار قدیمہ کے ماہرین کے لئے کسی انمول خزانے سے کم نہیں ۔لوگوں کو تشویش ہے کہ یہ پورا علاقہ بھی غرق ہو جائے گا۔حکام کا کہنا ہے کہ وہ ممکن حد تک اس تاریخی ورثے کو محفوظ کریں گے لیکن اس وقت قوم کا اصل چیلنج پانی کا ذخیرہ اور بجلی کی پیداوار ہے ۔دیامر کے لوگوں میں اپنی نقل مکانی اور آبادکاری کے حوالے سے بے چینی بڑھ رہی ہے ، متاثرین کی بحالی اس وقت یہاں کا سب سے بڑا ایشو ہے ۔حکومت نے لوگوں کے لئے جن پلاٹس ، ماڈل ویلیج کا وعدہ کیا اس پر عمل نہ کیااب لوگوں میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں کہ وہ یہاں سے بے دخل ہوکر کہاں جائیں گے ؟ ۔مقامی قبائل منقسم ہیں ۔بوڈو خیل قبائل اور سونیوال قبائل نے ایک دوسرے پر مقدمات کر رکھے ہیں اور ان میں کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔دیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے چیئر مین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے کہا کہ بھاشا ڈیم کو نو سال میں تعمیر کرلیں گے ، چیف جسٹس اور وزیر اعظم فنڈ سے 5سو ارب روپے مل جائیں تو ڈیم کی تعمیر بہت آسا ن ہو جائیگی ۔دنیا نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا نے کہا بھاشاڈیم کوبنانے کے لئے 12 ار ب ڈالر چاہئیں۔ اس ڈیم کی تعمیر نہ صرف پانی و بجلی کے حوالے سے اہم ہے بلکہ یہ تربیلا اور بعد میں بننے والے دیگر ڈیمز کو بھی سہولت فراہم کرے گا ۔ تربیلا ڈیم کے حوالے سے میڈیا میں آنیوالی خبریں درست نہیں ہیں، پانی کی کمی کے باعث اس کے ایک یونٹ کوبند کیا گیاتھا لیکن پانی کی کمی پوری ہونے پر اس کودوبارہ چلا دیاگیاہے ،وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزاشہزاداکبر نے کہا کہ بیرون ملک سے دولت واپس لانے کیلئے سپریم کورٹ نے ٹاسک فورس بنائی تھی ،بیرون ملک تمام اثاثے غیرقانونی نہیں جن کے اثاثے جائز ہیں انہیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ،ممکن نہیں کہ چند ماہ میں تمام دولت واپس آجائے ۔انہوں نے کہا ہمارا مقصد کاروباری برادری کو ہراساں کرنا نہیں ہے ، ہم یہ صورتحال پیدا نہیں کرنا چاہتے کہ یہاں سے سرمایہ باہر چلا جائے ۔ مرزاشہزاداکبرنے بتایا کہ اسحاق ڈارکے خلاف سیاسی نہیں کرپشن کے کیسزہیں،سپریم کورٹ نے بھی اسحاق ڈارکوواپس لانے کاحکم دیا، اسحاق ڈار کا کیس سنجیدہ ہے اور برطانوی عدالت میں بھی ثابت ہوجائے گا کہ یہ کیس سیاسی نہیں ہے اور ان کو واپس پاکستان آنا پڑے گا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں