مقبوضہ کشمیر:مودی کیخلاف اٹھنے والی ہر آواز ’’گرفتار‘‘ کرنیکا حکم
2ہزار سے زائد تاجر، اساتذہ ، طلبا زیر حراست، اہل خانہ ،وکلا سے رابطے کی اجازت نہیں آدھی رات کو پولیس گھروں میں گھس آتی،وارنٹ کا پوچھیں تو کہتے ہیں گرفتاری کا حکم ملا گرفتاریاں غیر قانونی ، ناقدین:کشمیر میں قبرستان کی خاموشی ہے ،وکیل انسانی حقوق بھارتی چینل زیر حراست افراد کو دہشتگرد یا علیحدگی پسند قرار دے رہے ،امریکی اخبار
نئی دہلی(دنیا مانیٹرنگ)آدھی رات کو آصفہ مبین کی آنکھ کتوں کے بھونکنے پر کھل گئی ۔ کتے پولیس اہلکاروں کو صحن میں داخل ہوتے دیکھ کر بھونک رہے تھے ۔ آصفہ کے شوہر مبین شاہ جوکہ ایک دولت مند کشمیری تاجر ہیں، صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے بالکونی میں گئے ، انہیں دیکھ کر پولیس افسر چلاتے ہوئے بولا کہ وہ زیر حراست ہیں۔ جب مبین نے وارنٹ کا پوچھا تو جواب ملا کہ انہیں گرفتاری کا حکم دیا گیا ہے ۔ مقامی حکام کے مطابق چند روز کے دوران بھارتی سکیورٹی فورسز نے 2ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا جن میں تاجر رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، منتخب نمائندے ، اساتذہ اور طلبا شامل ہیں، بعض طلبا کی عمر 14 سال کے لگ بھگ ہے ۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا بیشتر افراد کو آدھی رات کے وقت حراست میں لیا گیا، انہیں اہل خانہ یا وکلا سے رابطے کی اجازت نہیں، نہ لواحقین کو ان کے ٹھکانوں کا علم ہے ۔ناقدین کے مطابق سخت بھارتی سکیورٹی قوانین کے تحت بھی ایسی گرفتاریاں غیر قانونی ہیں۔ وزیر اعظم مودی کشمیر پر اپنے اقدامات کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے بھارت کے نظام قانون کو توڑ موڑ رہے ہیں، وہ آواز مبین شاہ جیسے کامیاب تاجر ، سیاستدان یا پروفیسر کی ہی کیوں نہ ہو۔ انسانی حقوق کے وکیل ورندا گروور نے کہا کہ کشمیر میں قبرستان کی خاموشی ہے ۔ مغربی انٹیلی جنس حکام کے مطابق کشمیر کے دونوں اطراف بڑی تعداد میں فوجی نقل و حرکت اور قلعہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ مگر مودی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، انہیں بھارتی عوام کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے جوکہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں۔ بھارتی نیوز چینل حکومت کے ہم آواز بن کر زیر حراست افراد کو دہشت گرد یا علیحدگی پسند رہنما قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی وزارت داخلہ ان گرفتاریوں سے متعلق کسی سوال کا جواب نہیں دے گی۔ وزارت خارجہ وضاحت نہیں کرتی کہ غیر ملکی صحافیوں کو مقبوضہ کشمیر میں جانے سے کیوں روکا جا رہا ہے جبکہ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ کشمیر کی صورتحال معمول پر آ رہی ہے ۔ کشمیری تاجر فاروق کٹھواری نے کہا کہ مودی نے کشمیر میں گورننس بہتر کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کا دعویٰ کیا تھا، کشمیری تاجروں کو جس طرح جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے ، کشمیر میں کون سرمایہ کاری کرے گا؟ انہوں نے کہاکہ بھارتی سکیورٹی اداروں کی بے جا گرفتاریاں لوگوں میں اشتعال پیدا کر رہی ہے اور لوگ غصے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ تاجر مبین شاہ کو 5 اگست کی رات گرفتار کیا گیا ، ان کی اہلیہ کے مطابق پولیس نے گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ حراست میں لئے گئے دیگر افراد میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار کے صدر میاں قیوم، کشمیر اکنامک الائنس کے چیئرمین محمد یاسین خان، اینٹی کرپشن کے کارکن راجہ مظفر بھٹ، عربی کے سکالر فیاض احمد میر کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی شامل ہیں۔ کشمیری سیاستدان کو نئی دہلی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا جبکہ بورڈنگ پاس ان کے ہاتھ میں تھا۔ گھروں میں نظر بند ممتاز سیاستدانوں نے بھارتی نیوز ایجنسیوں کو بتایا کہ انہیں ہر قسم کی سیاسی سرگرمی سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ کشمیری وکیل ظفر شاہ کے مطابق تمام گرفتاریاں غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔ تاجر مبین شاہ کی بیوی اپنے شوہر کی گرفتاری پر ابھی تک حیران ہے ۔ ان کے مطابق مبین شاہ کشمیری قالینوں اور دستکاریوں کے ڈیلر ہیں ، وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مددسے کشمیر میں بجلی کے پلانٹس لگانے کی کوشش کر رہے تھے ، وہ وہی کچھ کرنا چاہتے تھے جس کا مودی حکومت دعویٰ کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پولیس کے اہلکار انہیں گرفتار کرنے سے گریزاں تھے ، مگر ان کے پیچھے درجنوں مسلح وفاقی افسر کھڑے تھے ۔ اینٹی کرپشن کے کارکن راجہ مظفر بھٹ کے اہل خانہ کے مطابق 20 سے زائد اہلکار وں نے رات کے وقت ان کے گھر چھاپہ مارا۔ ا نہوں نے بتایا کہ مظفر بھٹ پہلے کبھی گرفتار نہیں کئے گئے تھے ، انہوں نے کشمیری پولیس سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے ، جواب ملا کہ وہ کچھ نہیں جانتے ، بس انہیں حکم ملا ہے ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق بھارتی حکومت شاید پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کشمیر میں گرفتاریاں کر رہی ہے جس کے تحت ایسے مشتبہ افراد گرفتار کئے جا سکتے ہیں جوکہ ریاست کیلئے خطرہ بن سکتے ہوں تاہم اس ایکٹ میں نظرثانی بورڈ کی گنجائش موجود ہے ۔ مبین شاہ کی گرفتاری کے چند روز بعد ان کے بھائی نیاز شاہ نے کسی طرح یہ معلوم کر لیا کہ انہیں سری نگر جیل میں رکھا گیا ہے ۔ گارڈز نے مبین شاہ کو بھائی سے ملنے کی اجازت دیدی۔ اگلے روز نیاز شاہ کچھ کپڑے اور دیگر ضروری اشیا لے کر واپس آیا تو گارڈز نے انہیں بتایا کہ مبین شاہ کو فوجی طیارے میں آگرہ منتقل کر دیا گیا ہے ۔