نیب آرڈیننس کے مقاصد کیا؟اتنی عجلت کیوں دکھائی گئی
وزیراعظم عمران خان نے اپنے جن دوستوں کو نوید سنائی وہ آخرکون ہیں؟ جمہوریت میں احتساب ضروری ،مگر آرڈیننس میں پارلیمنٹ نظر نہیں آرہی
تجزیہ:سلمان غنی صدر عارف علوی نے کاروباری حضرات کو نیب سے آزاد اور بیورو کریسی کو تحفظ دینے کا نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا ، وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے کچھ دوست یہاں بیٹھے ہیں جن پر نیب کے کیسز چل رہے ہیں، یہ سن کر خوشی ہو گی کہ اب وہ نیب کی دسترس سے آزاد ہوں گے ۔ نئے آرڈیننس کے تحت سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا۔ تحقیقات مکمل نہ ہونے تک ملزم ضمانت کا حقدار ہوگا۔ تحقیقات کے فیصلے کیلئے نیب کی سربراہی میں چھ رکنی سکرو ٹنی کمیٹی قائم کردی گئی،فیصلے کے خلاف اپیل کرنیکی مہلت 10 دن کر دی گئی۔ سٹاک ایکسچینج، آئی پی اوز سے متعلق نیب کا دائرہ اختیار ختم کرکے ایف بی آر، ایس ای سی پی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز کو کارروائی کا اختیار دیدیاگیا۔مذکورہ نیب آرڈیننس کا جائزہ لینے کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نیب کا دائرہ کار کہاں تک رہ گیا۔ وزیراعظم اور ان کی حکومت کے کڑے احتساب کے دعوے کیسے پورے ہوں گے ۔ بیورو کریسی اور سرمایہ کاروں کے خلاف احتجاجی شکنجہ نرم کرنے کے بعد اب کون احتساب کا اصل ٹارگٹ ہوگا۔ حکومت کو قانون سازی کی بجائے آرڈیننس لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جمہوریت کی اصل جان مؤثر احتساب اور جوابدہی کا عمل ہوتاہے جس سے کسی کو بھی مبرا قرار نہیں دیا جاتا۔ دنیا کے جمہوری ممالک میں حکومتی سطح پر کوئی بھی کرپشن کا ارتکاب کرے اس کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جاتا ہے ۔ خصوصاً سیاستدانوں اور حکمرانوں کے احتساب کیلئے پارلیمنٹ کے اندر کمیٹی یا کمیشن بنایا جاتا ہے جو ان کی پکڑ کر سکے ۔ مذکورہ آرڈیننس میں پارلیمنٹ نظر نہیں آرہی، پاکستان کا بڑا سیاسی المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں کرپشن اور لوٹ مار کا رجحان اس لئے عام ہوا کہ اس کے آگے جنہیں بند باندھنا چاہئے تھا، وہ خود اس کی لپیٹ میں رہے ۔ خود احتسابی ادارے کرپشن کے سدباب کی بجائے اس رنگ میں رنگے نظر آئے ۔ آج اگر احتسابی عمل کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے دو اہم ریاستی ادارے عدلیہ اور فوج اپنا احتسابی عمل رکھنے کی وجہ سے پہلے ہی نیب کی دسترس سے باہر ہیں اور اب تاجر برادری اور بیورو کریسی کو بھی نیب کی دسترس سے باہر کر دیا گیا ہے ۔ تو اب صرف محسوس یوں ہورہا ہے کہ اب اس میں اصل ہدف سیاستدان نامی طبقہ ہے اور عمران خان کے دور میں تو احتساب صرف اپوزیشن کی صفوں کا رخ کرے گا۔ وزیراعظم نے خود کراچی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس آرڈیننس سے میرے دوست بھی خوش ہوں گے ۔ یہ دوست کون ہیں؟ حکومتی صفوں میں چھپے بیٹھے کرپٹ عناصر یا پس پردہ کچھ دوست؟ یا وزیراعظم کا اشارہ صرف بزنس کمیونٹی کی طرف تھا؟ اگر ایسا ہی تھا تو وزیراعظم نے اپنا دوست کہہ کر کسے مخاطب کیا؟ اس احتساب آرڈیننس سے پہلے کا ایک منظرنامہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے ۔ اس حکومت کے آنے کے بعد تاجروں نے اپنی دکانیں اور کاروبار ٹھپ کر دئیے کہ ہمیں نیب کے احتساب سے ڈرایا جا رہا ہے ’ اپوزیشن نے کھل کر کہا کہ بیورو کریسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے کیونکہ نیب کا دائرہ کار ان کے پاؤں کی زنجیر بن چکا ہے اور کوئی بھی بیوروکریٹ ‘‘گڈ فیتھ’’ میں بھی کسی سمری پر دستخط نہیں کر رہا کہ مبادا کل کو نیب احتساب کی گرفت لا کر اس کا کیریئر اور نیک نامی داؤ پر نہ لگا دے ۔ پھر اس کے بعد سرمایہ کار آرمی چیف سے ملے اور نیب کے احتساب میں نرمی کی درخواست کی، پھر درحقیقت وہاں سے ایک پلان بنا ۔ اس میٹنگ کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ سٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی ۔