میرے دور میں مداخلت کی ایک بھی شکایت نہیں:جو واقعات بھی رپورٹ ہوئے وہ پہلے کے ہیں:چیف جسٹس

میرے دور میں مداخلت کی ایک بھی شکایت نہیں:جو واقعات بھی رپورٹ ہوئے وہ پہلے کے ہیں:چیف جسٹس

کراچی(سٹاف رپورٹر،دنیا نیوز، نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عدالتی معاملات میں مداخلت قابل قبول نہیں، جو بھی واقعات اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے رپورٹ کیے وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے قبل کے ہیں۔

جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی جج کی مداخلت سے متعلق شکایت موصول نہیں ہوئی،اگر کوئی مداخلت ہوئی بھی ہے تو انہیں رپورٹ نہیں کی گئی ۔چیف جسٹس  کراچی میں سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ،چیف جسٹس نے مزید کہا سندھ بلوچستان کی پہلے ایک ہی ہائیکورٹ ہوا کرتی تھی، یہ میرا اس بار روم کا پہلا وزٹ ہے ، میں جب اپنے والد صاحب کے ساتھ آتا تھا یہ بار روم نہیں ہوتا تھا، گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں میں کراچی آتے تھے ، سندھ ہائیکورٹ سے میری یادیں وابستہ ہیں جوکہ تاریخی عمارت ہے ،سپریم کورٹ کی نئی عمارت کی تعمیر پر 7 سے 8 ارب روپے کی لاگت آرہی تھی، اس جگہ پر اب 36 وفاقی کورٹس اور ٹربیونلز بنیں گے ، امید ہے کہ یہ پہلی فیڈرل کورٹس بلڈنگ ہوگی، کل بلڈنگ کمیٹی کی میٹنگ تھی یہ میٹنگ کامیاب رہی ہے ، ابھی سپریم کورٹ کی جو عمارت ہے وہ ایک تاریخی عمارت ہے ، لوگ اپنے ثقافتی ورثے سے پہچانے جاتے ہیں، کراچی میں بہت ساری تاریخی عمارتیں ہیں، اگر کسی نے پرانی بلڈنگز دیکھنی ہیں تو پارسی کالونی دیکھے ، میری تجویر ہے کہ یہ عمارتیں بلڈرز کو نہ دی جائیں۔ادھر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا مختص پروٹوکول واپس کردیا،ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ پروٹوکول کی صرف 2گاڑیاں رہ گئیں،چیف جسٹس کی گاڑی بدھ کو سپریم کورٹ رجسٹری سے واپسی پر تمام سگنلز پر رکتی رہی، چیف جسٹس نے ہدایت کی ہے کہ گاڑی کے آگے پائلٹ نہیں رکھا جائے اور سفر کے دوران معمول کا ٹریفک رواں رہنا چاہیے ،واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ پروٹوکول کی 10سے 12گاڑیاں مختص تھیں۔

کراچی (سٹاف رپورٹر،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے کراچی میں گورنر، وزیراعلیٰ ہاؤسز اور رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے تجاوزات 3 روز میں ہٹانے کا حکم دے دیا،چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کراچی میں نیول، رینجرز ہیڈ کوارٹرز، گورنرہائوس ، سی ایم ہاؤس سب کا فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ ہے ،ڈر لگتا ہے تو کہیں دور جاکر بیٹھ جائیں۔عدالت عظمیٰ نے نسلہ ٹاور کی زمین فروخت کرکے الاٹیز کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم بھی دیاہے ۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں شہر میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان اور دیگرکی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کو عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ، راستے بند کرنا اور رکاوٹیں ڈالنا غیر قانونی ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومت خود تجاوزات کھڑی کررہی ہے ۔

عدالت نے کہا کہ تجاوزات کے خاتمے کا بل سینئر افسر کو بھیجیں، اس کی جیب سے اخراجات وصول کریں۔کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر)منصوبے کے متاثرین کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے سندھ حکومت کو متاثرین کا معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ سرکار جہاں انکروچمنٹ کرتی ہے وہاں زیادہ سزا ہونی چاہیے ، آپ دیکھتے نہیں کہاں سے آتے ہیں آپ؟ نیول ہیڈ کوارٹرز، گورنر ہاؤس، چیف منسٹر ہاؤس، رینجرز ہیڈکوارٹرز سب نے فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سکیورٹی کے ایشوز ہیں ، بم حملے ہوئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک پر حملے ہوتے رہیں اور آپ محفوظ رہیں؟ یہ کہاں کا قانون ہے ؟ تو چلے جائیں کہیں اور خالی کردیں یہ جگہ، کہیں محفوظ جگہ چلے جائیں، بتائیں رینجرز ہیڈکوارٹر کہاں ہے اور فٹ پاتھ کہاں ہے ؟ جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں میئر بھی آئے ہوئے تھے کہاں ہیں؟ سکیورٹی کے نام پر بند مت کریں سڑکوں کو، اگر زیادہ ڈر لگتا ہے تو کہیں ریموٹ ایریا میں جاکر بیٹھ جائیں، دنیا میں کہیں ہوتا ہے ایسا؟ جائیں امریکا اور دیکھ کر آئیں۔

چیف جسٹس نے کے ایم سی وکیل سے کہا کہ آپ کیوں نہیں ہٹاتے رینجرز ہیڈکوارٹر زکے سامنے سے تجاوزات؟ کل لگاتے ہیں کیس، بتائیں تفصیل یہ جناح کورٹ کس قانون کے تحت رینجرز کو دیا ہے ؟ ہٹائیں یہ سب، چھوٹے لوگوں کے گھر توڑ دیئے یہ بھی ہٹائیں، بعد میں معاوضہ دے دیجیے گا، تھوڑی سی زندگی ہے اس کو بچاتے رہیں کیا طریقہ ہے ، وی آئی پی بنے پھرتے رہیں، میں نے تو منع کردیا ہے میرے لیے روٹ نہ لگائیں، آئی جی کو کہا ہے اب روٹ لگائیں گے تو توہین عدالت کا نوٹس کریں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر ہاؤس کے اندر رکھ دیں کنٹینرز باہر کیوں رکھتے ہیں؟ پبلک کو پریشان کرنا چاہتے ہیں، ہم کہتے ہیں سپریم کورٹ کے سامنے اگر انکروچمنٹ ہے تو وہ بھی توڑ دیں، رکاوٹیں ہٹانے میں جو اخراجات آئیں کے ایم سی متعلقہ ادارے کے سربراہ سے وصول کرے ۔سپریم کورٹ نے تمام متعلقہ اور سکیورٹی اداروں کو عدالتی حکم کی کاپی بھیجنے کی ہدایت کی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی اداروں کو آگاہ کرنے کا حکم دیا اور تجاوزات کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ رجسٹری میں نسلہ ٹاور کیس کی سماعت کے دوران متاثرین کے وکیل ایڈووکیٹ شہاب سرکی نے بتایا کہ بلڈر عبدالقادر کا ٹیلا کا انتقال ہوچکا ہے ، تاحال معاوضہ نہیں ملا، عدالت نے 44 متاثرین کو معاوضہ ادائیگی کا حکم دیا تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ کمشنر نے زمین تحویل میں لے کر کارروائی مکمل کرکے رپورٹ جمع کرادی تھی۔متاثرین کے وکیل نے کہا کہ نسلہ ٹاور سے ملحقہ 240 گز کا پلاٹ بھی فروخت کرکے متاثرین کو رقم دی جائے ئے۔عدالت نے سندھی مسلم سوسائٹی سے نسلہ ٹاور کے مرحوم بلڈر کے ورثا کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔عدالت نے نسلہ ٹاور کے پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو سے متعلق رپورٹ اور نسلہ ٹاور سے ملحقہ پلاٹ کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ مانگ لی جبکہ نسلہ ٹاور کی زمین کی فروخت کا اشتہار شائع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سندھی مسلم کو آپریٹو سوسائٹی کو نوٹس جاری کردیئے ۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ نیلامی میں آنے والی بولی کی بھی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے ،نسلہ ٹاور کے متاثرین ملکیت کے دستاویزی شواہد کے ساتھ آفیشل سوسائٹی سے رابطہ کریں۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 16 جون 2021 کو کراچی کے اہم ترین مقام شارع فیصل پر قائم نسلہ ٹاور گرانے کا حکم دیا تھا۔مزید برآں سپریم کورٹ نے برطرفی کیخلاف حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے ؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے ؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے ؟ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے کراچی رجسٹری میں حیدر آباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ میں کنٹریکٹ ملازم نہیں، ریگولر ملازم تھا، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ملازم تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ کی تقرری میں تمام ضابطہ کار کو فالو کیا گیا تھا،ہمیں کیا پتا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے یا نہیں۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ آپ کنٹریکٹ ملازم تھے ، ذرا اپوائنٹمنٹ لیٹر پڑھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتا ہے کمیٹی میں کیا ہوتا ہے ، لسٹ آ جاتی ہے کہ اِن کو رکھنا ہے ،بس ملازمین بھررہے ہیں، عوام کی خدمت کہاں ہو رہی ہے ، ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے اورادارے کر کیا رہے ہیں، صرف ملازمین کو پال رہے ہیں،لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے ، ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں، بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں، ایک ایک اسامی پر 3، 3 ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں،سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنا ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے ، غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟۔درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے خود پروجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی، حکومت وہ خود چلائیں۔وکیل نے کہا کہ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کی کیا دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر،صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے ؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے ؟ آئین کی دھجیاں اُڑائیں گے تو ہم اجازت نہیں دیں گے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں بتا دیں کہ صدر کے پاس کہاں اختیار ہے ایسے ملازم رکھنے کا، آپ کو یہ قانون کی کتاب اچھی نہیں لگتی، کون تھے صدر؟۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف تھے ۔ سابق صدر کا نام سن کرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بس آپ رہنے دیں ،جب بنیاد خراب ہو گی تو ایسا تو ہوگا، آپ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں صوبے کی بات نہیں کررہے ، صوبے میں ملازمین کو دینے کے لئے تنخواہیں نہیں ہیں، حیدر آباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کوئی سرکاری باڈی نہیں ہے ۔عدالت نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں