سینیٹ:حکمراں اتحاد کی ججز پر تنقید:کسی عدالت کو یہ حق نہیں کہ غصے میں جو مرضی کہہ دے:وفاقی وزیرقانون،فیصل واوڈا کا معاملہ سینیٹ سیکرٹریٹ کے سپرد

سینیٹ:حکمراں اتحاد کی ججز پر تنقید:کسی عدالت کو یہ حق نہیں کہ غصے میں جو مرضی کہہ دے:وفاقی وزیرقانون،فیصل واوڈا کا معاملہ سینیٹ سیکرٹریٹ کے سپرد

اسلام آباد (اپنے رپورٹرسے ،نیوز ایجنسیاں) سینیٹ میں بحث کے دوران حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان نے ججز پر تنقید جاری رکھی،وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین پاکستان کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ غصے میں آکر جو مرضی کہہ دے۔

 جبکہ اپوزیشن سینیٹر ز کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کچھ ججز کیخلاف ایک پراکسی وار شروع ہوئی ہے اورپارلیمان استعمال ہورہا،سینیٹر شیری رحمان نے سینیٹر فیصل واوڈا کا معاملہ سینیٹ سیکرٹریٹ کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی کہ سینیٹ سیکرٹریٹ اس معاملے پر اپنی رپورٹ بناکر چیئرمین سینیٹ کو ارسال کرے ۔قائم مقام چیئرمین سیدال خان کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا تاہم بعدازاں سینیٹر شیری رحمان نے ایوان کی کارروائی کو چلایا ،اجلاس میں سینیٹرز نے دوسرے روز بھی بحث جاری رکھی ۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اداروں میں ٹکرائو کی صورتحال نہیں، چیف جسٹس آف پاکستان ایک متحمل اور بیلنسڈ جج ہیں، آئین پاکستان کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ غصے میں آکر جو مرضی کہہ دے ، پارلیمان ایک سپریم ادارہ ہے ، میں امید رکھتا ہوں چیف جسٹس شفافیت کو سامنے رکھ کر کیس پر فیصلہ کریں گے ، اس معاملے کو سینیٹ سیکرٹریٹ کو بھیجا جائے ۔ سینیٹ میں بحث کے دوران ن لیگ کے سینیٹر طلال چودھری نے کہا کہ پوری مہذب دنیا میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوچکا ہے ، کسی مہذب دنیا میں عدالتیں کسی عام شہری کو بھی نوٹس نہیں کرتیں، آئین بنانے والوں کو سزا دینے سے نہیں آئین توڑنے والوں کو سزا دینے سے عدلیہ کا وقار بلندہو گا، پارلیمنٹ کی توہین کب نہیں ہوئی، وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا گیا، طلال چودھری نے کہا کہ عدالت اپنا وقار اپنے فیصلوں سے بلند کرے ، عدالتیں اپنی کارکردگی سے وقار بہتر کریں، اگر آپ سسلین مافیا، گا ڈ فادر اور پراکسی کے الفاظ استعمال کریں گے تو کون برداشت کرے گا؟۔طلال نے دعویٰ کیا ہے کہ ثاقب نثار نے مجھے پیغام بھیجا نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیان دو، پیغام بھیجا کہ بیان دو گے تو پارلیمنٹ جاؤ گے ورنہ جیل جاؤ گے ۔

ا یم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ فیصل واوڈا نے ایک اہم نکتہ اٹھایا، ایسا لگتا ہے لاکھوں ووٹ لینے والے اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ سب کی عزت ہے ، آئین صرف ججوں کی عزت کی بات نہیں کرتا بلکہ اراکین پارلیمنٹ کی عزتوں کی بات بھی کرتا ہے ۔ اداروں میں بیٹھے لوگوں کو بھی حق نہیں کہ وہ ہماری عزتیں اچھالیں، پارلیمان سے سپریم کوئی ادارہ نہیں ، آپ کی عزتیں ہماری عزتیں ہیں، اگر آپ کی جانب سے سلیکٹو جسٹس ہوگا تو لوگ آواز اٹھائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ توہین ہے کیا ؟ کس کی ہوسکتی ہے اس پر بھی وضاحت ہونی چاہیے ، یہاں توہین عدالت میں بھی تفریق کی جاتی ہے ، انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کو بازیاب ہونا چاہیے ، یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے ، ہمارے بھی تیس کارکن چار سال لاپتہ ہونے کے بعد واپس آئے کوئی اس کا نوٹس لینے کو تیار نہیں، ان کی بات کرنے کو کوئی تیار نہیں ،یہ نہیں ہونا چاہیے کہ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کراچی کے ہیں توانہیں توہین عدالت کا نوٹس کردو۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ جب ہماری پارٹی کو جھنڈا لگانے کی اجازت نہیں تھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی، سینیٹر چودھری اعجاز کے کئی مرتبہ پروڈکشن آرڈر جاری کئے ، اس ایوان میں بارہ لوگوں کی موجودگی میں الیکشن میں تاخیر کا بل پاس کیا گیا تو کیا یہ پارلیمنٹ کی عزت تھی؟ ایک چیف جسٹس نے کہا الیکشن کروائے جائیں تو اس پر عمل نہیں کیا گیا، ایک جج کے پاس کون سی فورس ہوتی جو وہ اپنے فیصلے پر عمل کرائے ، پارلیمنٹ کی توقیر کا آئین کے حوالے سے تحفظ کرنا بہت ضروری ہے ، اس کو ذاتی ایجنڈا نہ بنایا جائے ، جب ذاتی ایجنڈوں پر بات ہوتی ہے تو ہمیں طیش آتا ہے ۔

جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ تاثر مل رہا ہے یہ اجلاس بلانے کا مقصد ایک ہی ہے ، ایک سپریم کورٹ اور کچھ ہائی کورٹس کے ججز آج بھی نشانے پر ہیں، شاید وجہ یہ ہے کہ کوئی فیصلہ یا ریمارکس نہ آئیں ، لگتا ہے کچھ ججز کیخلاف ایک پراکسی وار شروع ہوئی ہے اور ہم بھی اسی کیساتھ چل رہے ہیں،ججز کو نشانہ بنائیں گے تو پراکسی کا تاثر پیدا ہو گا ۔ ایسے محسوس کروانا کہ یہ ادارہ کسی اور ادارے سے برتر ہے ، محسن اختر کیانی، بابر ستار اور اطہر امن للہ کو نشانہ بنایا گیا، محسن اختر کیانی لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھا رہے ، ہم میں سے کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھائے ، بابر ستار کا مسئلہ بھی آپ کو پتہ ہے کیا چیز چل رہی ہے ، اس طرح ججز کے ساتھ نہ کریں، جسٹس اطہر من اللہ کا گناہ کیا ہے وہ بھی ہم جانتے ہیں۔جو کچھ ہورہا ہے ٹھیک نہیں ہورہا۔سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ لگتا ہے اس اجلاس کو خاص اس مقصد کیلئے بلایا گیا ہے کہ ہم اس ایوان سے عدلیہ، ججز کو جواب دہ بنائیں، آج ایک دفعہ پھر پارلیمان استعمال ہورہا ہے ، جو استعمال کررہے اس کی بات نہیں ہورہی،ہم کیوں پرائی لڑائی میں گھسیں، پراکسی کو پراکسی کہنے سے تکلیف ہو گی، قصہ مسنگ پرسنز سے شروع ہوا اور اختتام میں پارلیمان اور عدلیہ کو آمنے سامنے ہونا پڑا،علاوہ ازیں سینیٹ کی انٹرنل فنانس کمیٹی کے لئے تحریک ایوان نے منظور کرلی۔ بعدازاں سینیٹ کااجلا س کل جمعہ تک ملتوی کردیا گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں