اسرائیل کی ’ لسٹ آف شیم‘ میں شمولیت

فلسطین میں اسرائیلی جارحیت ایک غیرمعمولی سانحہ ہے۔ غزہ اور رفح میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نیتن یاہو حکومت کی مسلط کردہ جنگ کے آغاز سے اب تک 37ہزار سے زائد نہتے فلسطینی صہیونی جارحیت و بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے پیش کردہ سالانہ رپورٹ میں غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق گزشتہ ہفتے غزہ میں کم از کم پانچ میں سے چار بچے تین دنوں میں پورا ایک دن خوارک کے بغیر رہے۔ صہیونی افواج کی بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے پناہ گزین کیمپوں پر بمباری سے یہ علاقے قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ عالمی عدالتِ انصاف نے حال ہی میں اسرائیلی افواج کو غزہ میں اپنی انتہا پسندانہ کارروائیاں فوری طور پر روکنے کا حکم جاری کیا تھا لیکن مقامِ افسوس کہ اس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی‘ جو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا سخت مخالف ہے‘ نے 2013ء میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ''میں نے اپنی فوجی زندگی میں کئی عربوں کو ہلاک کیا کیونکہ فلسطین کا اسرائیل کے لیے وجود ایسے ہی ہے جیسے پشت پر مسلسل کیل چبھ رہا ہو‘‘۔ اسرائیل کا بدمست ہاتھی کی طرح نہتے فلسطینیوں کو اپنے پیروں تلے روندنا انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ دیر آید درست آید کے مصداق بچوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور صہیونی دہشت گردی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے بالآخر آٹھ ماہ بعد اسرائیل کو ''لسٹ آف شیم‘‘ میں شامل لیا ہے‘ لیکن قبل ازیں 2015ء میں عالمی تنظیموں کی تشویش اور تنقید کے باوجود بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک اور مسلح گروہوں کی فہرست سے اس کا نام حذف کر دیا گیا تھا۔ حقیقت میں اقوامِ متحدہ کی خاموشی اور مغرب کی ہمہ گیر حمایت نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کی سند فراہم کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کا عالمی عدالتِ انصاف کی طرف سے اسرائیل کو جنگ روکنے کا حکم دینے کے بعد یہ کہنا کہ رفح پر انہوں نے جومؤقف اختیار کیا اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ بڑا معنی خیز تھا۔ عالمی یا علاقائی سطح پر جب بھی کوئی فوجی تصادم ہوتا ہے تو دنیا کی نظریں اقوامِ متحدہ کی جانب اٹھتی ہیں کہ وہ جنگ بندی کیلئے اپنا کردار ادا کرے‘ یہی صورتحال اس وقت غزہ میں درپیش ہے لیکن اس کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہو پا رہے۔ غزہ اور رفح میں جس طرح قتلِ عام ہو رہا ہے اس پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ چین‘ روس‘ یورپ اور دیگرخلیجی و مغربی ممالک فلسطین میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت تو کر رہے ہیں لیکن ان کی اس ڈپلومیسی سے صہیونی ظلم و سفاکیت کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ غزہ میں لوگ کھانے اور پانی تک کو ترس رہے ہیں لیکن بڑی عالمی طاقتوں کی ڈپلومیسی باتوں سے آگے نہیں بڑھ رہی؟ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حماس کی اسرائیل کے خلاف کارروائی دہائیوں کی گُھٹن کا نتیجہ تھی لیکن بعض حلقوں کی طرف سے اب یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد کہیں عرب اور اسرائیل تعلقات میں بڑھتی پیشرفت کا دروازہ بند کرنا تو نہیں؟ گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے پانچ ہزار سے زائد راکٹوں کے ذریعے اسرائیل پر حملے اور زمینی کارروائی سے دنیا حیرت زدہ تو ہوئی لیکن اس کے بعد جو کچھ فلسطینی بچوں‘ خواتین اور بوڑھوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اسے روکنے والا کوئی نہیں۔
صہیونی افواج نے غزہ میں سارا انفراسٹرکچر تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ غزہ میں قیام پذیر دیگر ممالک کی شہریت رکھنے والوں کا مصر کے راستے انخلا اور اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام خوراک‘ ادویات اور دوسری امداد کی فراہمی کی صورت میں ذرا سی اشک شوئی تو ہوئی لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جنگ سے پہلے بھی اہلِ غزہ محاصرے میں تھے اور اب بھی ہیں۔ کیا اب وہ وقت نہیں آگیا کہ فلسطین کے باشندوں کو بھی وہ آزادی اور مواقع فراہم کیے جائیں جو دنیا کے باقی انسانوں کو حاصل ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ کون کس کے خلاف ویٹو پاورز کا استعمال کر رہا ہے؟ انسانیت اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟ کیونکہ سبھی اس سے بخوبی آگاہ ہیں مگر مقامِ افسوس کہ سلامتی کونسل کی ناکامی یہ رہی کہ اس کے مستقل اراکین اپنے مفادات کو امن اور سیز فائر پر فوقیت دیتے ہیں لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ سیز فائر کے ساتھ مسئلہ فلسطین کا پائیدار حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو پائے گا؟
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں تین مراحل پر مشتمل فوری اور جامع جنگ بندی کے لیے امریکہ کی پیش کردہ قرارداد منظور تو کر لی لیکن ماضی کی طرح اب بھی اس کے کوئی دور رَس نتائج برآمد ہوتے نظر نہیں آرہے کیونکہ صہیونی افواج اپنے اہداف کے حصول تک نہ تو مکمل انخلاء کرے گی اور نہ ہی فلسطینی قیدی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔ غزہ میں جنگ بندی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کی پیچیدہ سیاست بھی ہے۔ اسرائیلی جنگی کابینہ کے اہم رہنما سمجھے جانے والے بینی گانٹز نیتن یاہو سے اختلاف کی بنا پر کابینہ سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ بینی گانٹز اکیلا شخص نہیں جو کابینہ سے مستعفی ہوا ہے بلکہ اس سے قبل گاڈی ایزنکوٹ بھی اپنے استعفیٰ پیش کر چکے ہیں۔ یہ دونوں افراد اسرائیلی فوج میں چیف آف سٹاف کے عہدے پر رہنے کے ساتھ ساتھ جنرل کے عہدوں پر ریٹائر ہوئے۔
اُدھر G7رکن ممالک نے بھی امریکی منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی‘ تمام یرغمالیوں کی رہائی‘ غزہ کے تمام علاقوں میں امدادی سامان کی فراہمی سمیت عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز مدد کریں۔ اب تک غزہ میں صہیونی جارحیت سے 37ہزار سے زائد مظلوم فلسطینی شہید‘ 82ہزار سے زائد زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے علاقے میں خوراک‘ پانی و ادویات کی بدترین قلت ہے۔ اسرائیل جب ایک الگ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرا تو اس کے کل رقبے تقریباً 5ہزار مربع کلو میٹر پر کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔ آج اسرائیل کا رقبہ 22ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 90لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ 1967ء میں فلسطین پر قبضے کے بعد اس سر زمین کے اصل وارث اردن‘ شام اور لبنان میں پناہ لینے پر مجبور کر دیے گئے مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکلنے پر مجبور کر دیا۔ مقامِ افسوس ہے کہ تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ساتھ ہی ظلم و جبر اور سفاکیت کا سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ صیہونی جارحیت کو روکنے اور غزہ میں ایک بڑے انسانی المیے سے بچنے کے لیے عالمی قیادتوں کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ مسلمہ امہ کو بھی جاگنے کی ضرورت ہے جو سالہا سال سے غزہ سے لے کر کشمیر تک لاکھوں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ماضی ایسی افسوسناک مثالوں سے بھرا پڑا ہے جو اُمت کی غفلت پر نوحہ کناں ہیں۔ امریکہ عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار ڈھونڈنے آیا‘ وہ نہ ملے لیکن عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اس تباہی سے ہونے والی ہلاکتیں ایک جانب‘ عراق میں امریکی پابندیوں کے نتیجے میں خوراک و ادویات کی عدم دستیابی سے لاکھوں بچے موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ 2017ء سے 2018ء تک 30ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام ہو۔ نو لاکھ 60ہزار روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ شامی خانہ جنگی میں بھی چھ لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ لیکن افسوس کہ اُمت مسلمہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں