وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے 18877ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے جس کا نصف قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہو گا۔ یہ رقم دفاعی اخراجات سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ بجٹ میں ایف بی آر کے محصولات کا ہدف 12970ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں سے 7438ارب روپے صوبوں کو ادا کرنے کے بعد وفاق کے پاس بہت کم رقم رہ جائے گی۔ بجٹ میں وفاقی حکومت کی خالص آمدن کا تخمینہ 10377ارب روپے ہے جبکہ مجموعی اخراجات کا تخمینہ18877ارب روپے رکھا گیا ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اخراجات زیادہ ہیں اور آمدن کم۔ اسی سبب حکومت نے 8500ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ یعنی آئندہ مالی سال میں حکومت کو نظامِ مملکت چلانے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہو گی۔ پنجاب نے بھی بجٹ میں وفاق کی طرح تنخواہوں میں 25فیصد تک اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح سندھ نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں گریڈ ایک سے چھ تک کے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں 30فیصد تک اضافہ کیا ہے۔ خیبرپختو نخوا نے وفاق سے پہلے پیش کیے گئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا۔ وفاق میں تنخواہوں کی سلیب تبدیل کرنے کے صوبوں پر بھی اثرات مرتب ہوں گے‘ ہو سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کو بھی اپنے بجٹ پر نظر ثانی کرنی پڑ ے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب جولائی میں آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کے لیے پُرامید ہیں۔ اُن کے بقول خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری بھی معاشی اصلاحات کا حصہ ہے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا ہے کیونکہ فوری بندوبست کیلئے حکومت کے پاس یہی آپشن ہے۔ ہر وزیر خزانہ کی اپنی معاشی سٹریٹجی ہوتی ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ کی معاشی سٹریٹجی میں ٹیکس نظام میں اصلاحات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وہ کئی شعبوں میں نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو 45فیصد تک لے گئے ہیں۔ سادہ لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جو بھی شخص کاروبار کرنا چاہتا ہے‘ اسے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ دیر آید درست آید کے مصداق معاشی اصلاحات کا جو آغاز ہوا ہے اسے جاری رہنا چاہیے‘ تاہم غیر مساویانہ ٹیکس کا جو تاثر پایا جاتا ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی خوشحالی کا انحصار ایک منصفانہ اور مؤثر ٹیکس نظام پر ہوتا ہے۔ یہ نظام ریاست کو چلانے کیلئے ضروری وسائل فراہم کرتا ہے لیکن یہ نظام غیرمنصفانہ ہو تو معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے۔ بہترین ٹیکس نظام وہ ہے جو انصاف کے اصولوں پر مبنی ہو۔ اس نظام میں امیر اور غریب کیلئے الگ الگ ترازو نہیں ہوتے۔ آمدنی جتنی زیادہ ہو‘ ٹیکس کا تناسب بھی اتنا ہی بلند ہونا چاہیے تاکہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم میں کمی لائی جا سکے۔ منصفانہ ٹیکس کا نظام کم آمدنی والے طبقے کو سہولت اور تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ریاست کی مدد کرتا ہے۔ ٹیکس کی شرح بلند کرکے ایک ہی طبقے کو ٹارگٹ کرنا مسائل کا حل نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے ٹیکس کا نظام آسان بنا کر اور ٹیکس کی شرح کم کر اپنے ہاں کاروبار کو فروغ دیا ہے تاکہ نئی کمپنیاں قائم ہوں‘ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں اور ملکی معیشت مضبوط ہو۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں جب بھی حکومت کو مالیاتی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو آسان حل کے طور پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے‘ لیکن کیا معاشی مسائل کا یہی حل ہے؟ کیا اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں؟ تنخواہ دار طبقہ وہ طبقہ ہے جس کا ریکارڈ حکومت کے پاس ہوتا ہے‘ اس لیے ان سے ٹیکس وصولی آسان ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر حکومتیں ٹیکس بڑھانے کیلئے تنخواہ دار طبقے ہی پہ بوجھ ڈالتی ہیں‘ لیکن اس سے تنخواہ دار طبقے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے‘ ان کی بچت کم ہوتی ہے اور معیارِ زندگی متاثر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کاروباری طبقے کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہے‘ یہاں بڑے بڑے کاروباری ادارے آمدنی چھپانے اور کم ٹیکس ادا کرنے کیلئے مختلف حیلے بہانے سے کام لیتے ہیں۔
ہمارے ٹیکس نظام کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ منصفانہ نہیں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس نظام میں امیر طبقے پر کم ٹیکس لگایا جاتا ہے جبکہ تنخواہ دار اور متوسط طبقے کو زیادہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ کسی حد تک یہ تاثر درست ہے۔ ملک کی مجموعی آمدن میں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے‘ یہ شرح ظاہر کرتی ہے کہ مجموعی طور پر ملک میں ٹیکس کی وصولی کم ہے۔ زراعت کے شعبے کو بھی ٹیکس کے دائرے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے‘ حتیٰ کہ بڑے بڑے زمیندار‘ جو سینکڑوں‘ ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک ہیں وہ بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ زرعی شعبے کو ٹیکس استثنیٰ سے انہیں تو فائدہ پہنچتا ہے لیکن سرکاری خزانے کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ صنعتکاروں کو شکوہ ہے کہ جی ڈی پی میں صنعتوں کا حصہ 20فیصد ہے جبکہ ٹیکس میں صنعتوں کا حصہ تقریباً 69فیصد ہے ‘اس کے برعکس جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 24فیصد ہے لیکن ٹیکس میں زرعی شعبے کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ غیرمنصفانہ نظامِ ٹیکس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ معاشرے میں عدم مساوات کو بڑھاتا ہے۔ جب امیر طبقہ کم ٹیکس دے کر بچ جاتا ہے اور غریب اور متوسط طبقہ زیادہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو دولت کی تقسیم کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ غیرمنصفانہ ٹیکس کا نظام سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جب کاروباری اداروں کو لگتا ہے کہ ان کی محنت کی زیادہ تر کمائی ٹیکس کی نذر ہو جائے گی تو وہ نئی سرمایہ کاری کرنے اور کاروبار کو پھیلانے میں محتاط ہو جاتے ہیں۔ غیر منصفانہ ٹیکس کا نظام معاشرے میں اعتماد کا فقدان پیدا کرتا ہے۔ جب لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ محنت کرکے جو کچھ کماتے ہیں وہ سب ٹیکس کی ادائیگی میں جا رہا ہے اور اس ٹیکس کا پیسہ صحیح جگہ پر خرچ بھی نہیں ہو رہا تو وہ ٹیکس دینے سے گریزاں ہو جاتے ہیں۔ رواں مالی سال تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کا ہدف 360ارب روپے ہے جبکہ دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 5000 سے 6000 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ٹیکس چوری کو روکنے کے بجائے اس طبقے پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈال دیا جائے جو پہلے ہی ٹیکس کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ٹیکس کے نظام کو شفاف اور آسان ہونا چاہیے۔ ٹیکس کے قوانین الجھاؤ اور پیچیدہ نہ ہوں تاکہ عام آدمی انہیں سمجھ سکے اور اپنی ٹیکس ذمہ داریاں پوری کرنے میں آسانی محسوس کرے۔
ایسے موقع پر جب حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں معاشی محاذ پر مصروف ہیں تو سیاسی محاذ آرائی سے گریز کیا جانا چاہیے۔ بانی پی ٹی آئی نے حالیہ دنوں میں مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کے اپنے دیرینہ مؤقف کے برعکس سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن دو روز بعد ہی مذاکرات سے متعلق مؤقف تبدیل کر لیا۔ مذاکرات کی بات چل پڑی ہے تو اب مزید کسی قسم کی شرائط عائد نہ کی جائیں۔ غیر مشروط طور پر آگے بڑھنا ہی دانشمندی ہو گی۔ مذاکرات میں ہر فریق کے اپنے مفادات اور اہداف ہوتے ہیں‘ ان مفادات میں اکثر تضاد ہوتا ہے۔ مذاکرات ہمیشہ گلوں شکوؤں کے ساتھ ہی آگے بڑھتے ہیں‘ سو تحفظات کے باوجود مذاکرات کا عمل رکنا نہیں چاہیے۔ برسراقتدار جماعتوں کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ سیاسی تناؤ کم ہو۔ سیاسی تناؤ کا کم ہونا اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ معاشی اہداف کے حصول کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔