"RKC" (space) message & send to 7575

سیالکوٹ کی خورشید بیگم

امریکی ریاست ڈیلاوئیر سے زبیر بھائی کا میسج تھا۔ امی جی فوت ہوگئی ہیں۔بعض تعلقات ایسے بن جاتے ہیں جن کا آپ نے سوچا تک نہیں ہوتا۔اماں سے بھی کچھ ایسا ہی تعلق بن گیا تھا۔ مجھے دس سال سے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا‘ لیکن مجھے ان کے نام تک کا علم نہ تھا۔ ماں کا ماں کے علاوہ اور کیا نام ہوسکتا ہے۔ سب مائوں کا ایک ہی نام ہوتا ہے۔مجھے اماں کی وفات کے چوبیس گھنٹے بعد اب نام کا پتہ چلا۔دس سالوں سے علم نہ تھا تو کیا ان سے تعلق میں کمی آئی تھی؟ وہی شیکسپیئر کی بات یاد آئی کہ نام میں کیا رکھا تھا۔
یاد آیا اگست 2014 ء کی ایک رات تھی۔ میری ریاست ڈیلاوئیر میں ڈاکٹر عاصم صہبائی کے گھرآخری رات تھی۔اگلی صبح اکبر چوہدری کے ساتھ ورجینیا سے پاکستان واپسی تھی۔میری بیوی کا علاج مکمل ہوچکا تھا۔ پاکستان میں ڈیڑھ سال کینسر کا علاج ہونے کے بعد ایک دن ڈاکٹرز نے میری بیوی کے منہ پر کہا: بس جتنا علاج ہم کر سکتے تھے کر چکے‘اب مزید ممکن نہیں۔ میری بیگم نے مجھے اور میں نے اُن کی طرف دیکھا۔ خاموشی سے ہم دونوں گھر آئے۔چند دن پہلے شاہین صہبائی کا ٹویٹ پڑھا تھا کہ اُن کا بیٹا امریکہ میں کینسر سپیشلسٹ ہے۔شاہین صاحب کو میسج کیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر عاصم صہبائی کا پیغام آیا‘ رئوف بھائی آپ باقی کام چھوڑیں فورا ًامریکہ آ جائیں۔آخری کوشش کر لیتے ہیں۔ پیسوں کا بندوبست کرنا تھا۔ کچھ ادھار دنیا گروپ کے میاں عامر محمود صاحب سے لیا۔میر شکیل الرحمن صاحب کی مہربانی انہوں نے بھی میرے بقایا جات فوراً دلوا دیے۔ ڈاکٹر عاصم نے پانچ ماہ اپنے گھر رکھا۔خدا کی مہربانی اور دل لگا کر علاج کرنے سے میرے بچوں کی ماں کو صحت مند کر کے واپس بھیج دیا۔میری بیوی امریکہ جانے کو تیار نہ تھی کہ جتنی زندگی ہے کافی ہے۔ قرضہ نہ لو‘ بچوں کے کام آئے گا۔میں نے کہا: کل کو بچے میرا گریبان پکڑیں گے کہ ہم نے کب کہا تھا ہمیں ماں نہیں پیسہ چاہیے تھا۔بڑی مشکل سے بیوی کو راضی کر کے امریکہ لے گیا۔جس امریکن ڈاکٹر نے آپریشن کیا اُس نے فیس لینے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر حیران تھے جو غلط علاج پاکستان میں کیا گیا تھا ان حالات میں وہ اب تک زندہ کیسے یہاں پہنچ گئی ہیں۔
خیر اس آخری رات ای میل چیک کررہا تھا تو ایک ای میل دیکھی جو ایک نوجوان اسد کی طرف سے تھی کہ میرے والد آپ کے کالم پڑھتے ہیں۔ میرے دادا جو ستر‘ اسی برس کے قریب ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔وہ اسی شہر میں رہتے ہیں جہاں آپ ہیں۔ انہیں آپ سے بڑا ضروری کام ہے۔ آپ ہمیں مل کر جائیں۔ یہ ای میل تین چار دفعہ آچکی تھی۔ میں نے پہلے جواب نہ دیا تھا۔اب آخری رات جواب دیا کہ کل دو بجے سے پہلے وہ ڈاکٹر عاصم صہبائی کے گھر آسکتے ہیں تو آجائیں۔ دو بجے ورجینیا سے دوست لینے آ جائیں گے۔اگلی صبح اٹھا تو زبیر صاحب پہنچ چکے تھے۔ یوں زبیر بھائی سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں انکے گھر گیا تو ان کے والدچوہدری محمد اسلم صاحب سے ملا اور اُن سے مل کر ایک کالم لکھا تھا ''محسنوں کی تلاش‘‘۔ اس فیملی کا تعلق سیالکوٹ کے ایک گائوں ماچھی کھوکھر سے تھا اور اب امریکہ سیٹل ہیں۔ زبیر بھائی کے والد کو اپنے چند محسنوں کی پاکستان میں تلاش تھی جنہوں نے مشکل وقت میں ان کی مدد کی۔مجھے کہا :آپ کالم لکھیں شاید وہ مل جائیں۔ میرے کالم لکھنے کے بعد وہ فیملی انہیں مل گئی اور رابطہ ہوگیا۔
خیر زبیر بھائی کی اماں سے ملاقات ہوئی۔وہ ایسی تھیں کہ جنہیں ملتے ہی آپ کے دل میں محبت اور احترام کے جذبات اُبھر آئیں۔ ایک میٹھی اور محبت بھری شخصیت۔مجھے لگا برسوں بعد میں اپنی اماں سے مل رہا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا۔ انہیں پتہ چلا مجھے زردہ ( میٹھے چاول) پسند ہے تو فورا ًبڑھاپے کے باوجود خود زردہ پکایا۔ جب بھی امریکہ چکر لگا تو میرے لیے خصوصی زردہ تیار ہوتا۔ ان کی زندگی کی کہانی سنی تو مزید حیران اور متاثر ہوا۔زبیر بھائی کے والد بینک میں اچھے عہدے پر تھے۔ بدقسمتی سے ایک مسئلہ ہوا تو اچانک خاندان پر برُے دن آگئے۔اماں نے آگے بڑھ کر حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ایک چھوٹا سا سٹور کھول لیا۔ اپنے بیٹے زبیر کو وہاں سٹور پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئی۔سولہ سال تک وہ سٹور چلایا۔مشکل زندگی کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ سات بچوں کو پالنا تھا۔ وقت بدلہ اور ایک دن وہ دیکھا کہ امریکہ میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ڈاکٹر بنے اور دو بیٹے بڑے بزنس مین۔ ایک بیٹا نیویارک میں بزنس مین اور لانگ آئی لینڈ میں رہ رہا تھا۔اماں کا ماننا تھا ہر وقت پیسہ بانٹنا چاہیے۔ غریبوں کی مدد کریں۔شاید خود مشکل وقت دیکھا تھا‘ لہٰذا غریبوں کیلئے بہت ہمدردی تھی۔ کورونا کے دنوں میں زبیر بھائی کا فون آیا کہ اماں نے آج انہیں برُا بھلا کہاہے کہ پاکستان میں لوگوں کا روزگار بند ہوگیا ہے‘تم اُن کی مدد کرو۔ زبیر بھائی نے دس ہزار ڈالرز بھیجے جو میں نے ان کے نام پر مختلف مستحقین اور اداروں کو دیے۔ زبیر بھائی کا فون آیا۔اماں ابھی ناخوش ہیں‘ کہتی ہیں مزید پیسے بھیجو۔ میں نے معذرت کر لی کہ جتنے ڈیزورنگ جانتا تھا دے دیے ہیں۔ اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اس امانت کا۔ایک دن ٹی وی پر کسی کے طعنے پر کہ بیوی کے علاج کیلئے پیسہ کہاں سے آیا‘ تو میرے منہ سے نکل گیا کہ فلاں فلاں سے قرض لے کر بیوی کا امریکہ میں علاج کرایا تھا۔زبیر بھائی کا امریکہ سے فون آیا کہ آپ نے ٹی وی پر جو کچھ کہا ہے‘اماں نے ابھی سنا ہے‘ مجھے فون کر کے کہا‘ رئوف بیٹے کو فون کرو۔اُس نے جتنا قرضہ دینا ہے اسے فوراً پیسے بھیجو۔میں نے کہا :اماں کو پیار دیں‘قرضہ تو ادا کر چکا ہوں۔بس ذکر آیا تو کہہ دیا تھا ٹی وی شو میں۔زبیر بھائی بتانے لگے :وہ ہر وقت مجھے یہی کہتی تھیں کہ غریبوں کی مدد کیا کرو۔زبیر نے بتایا وہ ہرماہ پانچ ہزار ڈالرز سیالکوٹ میں غرییوں کی مدد کیلئے بھیجتے ہیں۔اماں نے ڈانٹا اور کہا :زیادہ بھیجا کرو۔
اس وقت اُن کی عمر نوے برس ہوچکی تھی لیکن ہر وقت زبان پر شکرانے کے الفاظ۔ مجھے کہتیں :بیٹا خدا ہمیں کہاں سے کہاں لے آیا۔سیالکوٹ کے ایک گائوں سے اُٹھ کر ہم امریکہ آگئے۔ یہاں میرے بچوں نے اپنا مستقبل بنایا۔میرے نواسے‘ نواسیاں‘ پوتے پوتیاں سب نے یہاں تعلیمی اداروں میں جھنڈے گاڑے۔ میں اللہ سے اور کیا مانگتی جو مجھ غریب پر احسان کیا۔ ایک دن زبیر بھائی نے ایک خاتون کا واقعہ سنایا۔ برسوں پہلے اُنکے محلے میں ایک بیوہ خاتون جو بچوں کی ماں تھی‘ کو ایک بندہ تنگ کررہا تھا۔خاوند کی تیس ہزار کی کمیٹی کی ادائیگی سے پہلے ڈیتھ ہوگئی۔ اس بندے نے ان کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔کسی نے کہا :اس خاتون کے پاس جائو۔نہ جان نہ پہچان۔ زبیر کو کہا :جائو دکان کے اکاؤنٹ سے تیس ہزار نکال کر اسے دو۔ وہ خاتون بولی: تھوڑے تھوڑے کر کے لوٹا دوں گی۔ بولیں: نہیں یہ قرض نہیں ہے۔ بس جائو اپنی ضرورت پوری کرو۔اپنی وفات سے چند ماہ پہلے زبیر کو کہا :میں نے کل رات خواب دیکھا ہے میں ایک بہت بڑی قبر میں بیٹھی ہوں۔خوبصورت ماحول ہے۔ تاحدِ نظر درخت‘ پھل‘ بوٹے لگے ہیں۔ وہ پھلدار بوٹے مجھے بلا رہے ہیں کہ آپ ہمیں کھانے کیوں نہیں آتیں۔جس وقت فوت ہونے لگیں بیٹیاں ساتھ تھیں۔وہ رونے لگیں تو اشارے سے منع کیا کہ رونا نہیں۔ اونچی آواز میں خود کلمہ پڑھا۔بچوں کو کہا: آپ بھی پڑھیں۔اچانک خاموش ہوئیں۔ بچوں نے آنکھیں کھولیں تو ماں کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔ نوے برس قبل سیالکوٹ کے علاقے ماچھی کھوکھر کی خورشید بیگم کا طویل سفر امریکہ کی ڈیلاوئیر ریاست میں ختم ہوگیا تھا۔ایک نیک انسانی روح اگلے سفر پر اطمینان اور سکون کے ساتھ روانہ ہوگئی تھی اور اپنے بیٹے کے گھر کے قریب ایک خوبصورت قبرستان میں دفن کی گئیں۔اُن کی آخری خواہش تھی کہ وہ کسی صاف ستھرے ‘ سرسبز قبرستان میں دفن کی جائیں۔خدا نے ان کی آخری خواہش بھی پوری کر دی۔برسوں بعد ایک دفعہ پھر ماں کھو دی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں