سستی بجلی کیلئے آئی پی پیز سے مذاکرت:معاہدوں میں تبدیلی کی تجاویز میں غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی نہ کرنا شامل موجودہ نرخ نا قابل برداشت:وزیر توانائی

سستی بجلی کیلئے آئی پی پیز سے مذاکرت:معاہدوں میں تبدیلی کی تجاویز میں غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی نہ کرنا شامل موجودہ نرخ نا قابل برداشت:وزیر توانائی

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے حکومت آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کر رہی ہے تاکہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کیا جاسکے ۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے ملک میں سماجی بدامنی پیدا کی ہے اور 350 ارب ڈالر کی معیشت میں صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔پاور سیکٹر سے تعلق رکھنے والے 4 ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ معاہدوں میں تبدیلی کی تجاویز میں ضمانتی منافع میں کمی، ڈالر کی شرح کی حد بندی اور غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی نہ کرنا شامل ہے ۔ وفاقی وزیر توانائی نے رائٹرز کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ اس ملک میں بجلی کی قیمتوں کا موجودہ نظام ناقابل برداشت ہے ۔پاور پروڈیوسرز اور حکومت کے درمیان بات چیت جاری ہے اور دونوں فریق یہ بات سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال برقرار نہیں رہ سکتی۔وزیر توانائی نے زور دے کر کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک خاص حد تک کاروباری سمجھوتا کیے بغیر رعایت فراہم کرنی ہوگی اور یہ کام جتنا جلد ممکن ہو سکے کرنا ہوگا۔ اویس لغاری نے بتایا کہ پاور کمپنیوں کو معاہدے کا کوئی نیا مسودہ یا خاص شرائط نہیں بھیجی گئیں اور نہ ہی حکومت کوئی نئے کمزور معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے انہیں مجبور کرے گی۔ہم ان کے ساتھ شائستہ اور پیشہ ورانہ انداز میں بیٹھ کر بات کریں گے ۔ حکومت نے ہمیشہ غیر ملکی اور مقامی دونوں طرح کے سرمایہ کاروں کے لیے معاہدے کی ذمہ داریوں کو برقرار رکھا ہے ، معاہدے میں تبدیلیاں باہمی رضامندی سے ہوں گی۔

اویس لغاری نے کہا کہ موجودہ نرخ گھریلو یا تجارتی صارفین کے لیے قابل برداشت نہیں ہیں اور اس سے ملکی ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ بجلی کی قیمتیں اب علاقائی طور پر مسابقتی نہیں رہیں جس سے برآمدات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ اس کا مقصد تجارتی صارفین کے لیے فی یونٹ ٹیرف کو 28 سینٹس سے کم کر کے 9 امریکی سینٹس تک لانا ہے ۔خیال رہے ایک دہائی قبل ملک میں بجلی کی کمی کے باعث آئی پی پیز کے درجنوں نجی منصوبے منظور کیے گئے تھے جن کی مالی اعانت زیادہ تر غیر ملکی قرض دہندگان نے کی، ان ترغیبی معاہدوں میں بلند ضمانتی منافع اور غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی کے وعدے شامل تھے ، تاہم ملک میں جاری اقتصادی بحران نے بجلی کی کھپت کو کم کر دیا جس کی وجہ سے ملک میں اضافی بجلی موجود ہونے کے باوجود بھی ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے ۔پاور سیکٹر سے تعلق رکھنے والے 4 ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ معاہدوں میں تبدیلی کی تجاویز میں ضمانتی منافع میں کمی، ڈالر کی شرح کی حد بندی اور غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی نہ کرنا شامل ہے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے میں صلاحیت پر مبنی ماڈل سے لے کر لین دین کے ماڈل میں تبدیلی کے لیے 24 شرائط تجویز کی گئی ہیں۔ توانائی کے شعبے کا استحکام مئی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 7 ارب ڈالرز کے سٹاف لیول قرض معاہدے کا مرکز تھا، آئی ایم ایف نے بجلی کے معاہدوں پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ 

اسلام آباد (عدیل وڑائچ) ڈالر کا استحکام بھی کپیسٹی پیمنٹس کو کنٹرول نہ کر سکا ، ڈالر کو لگام ڈالے جانے کے باوجود مالی سال 2023-24 میں 37 پاور پلانٹس کی کپیسٹی پیمنٹس میں 323 ارب روپے اضافہ ہوا ہے ۔ دنیا نیوز کو موصول دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ کوئلے ، آر ایل این جی ، فرنس آئل اور ہائیڈل کے 37 آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹس میں 323 ارب روپے کا اضافہ ایسے وقت میں ہوا جب ڈالر سال 2022-23 کی نسبت مستحکم ہو چکا تھا۔ سال 2021-22 اور سال 2022-23 میں جب روپے کی قدر مسلسل گر رہی تھی تو اس عرصے میں ان 37 آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹس میں 319 ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا۔ 2021-22 میں ان پاور پلانٹس کی کپیسٹی پیمنٹس 336 ارب روپے تھیں جو 319 ارب روپے اضافے کیساتھ 2022-23 میں 656 ارب روپے تک پہنچ گئیں۔ مالی سال 2023-24 میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر میں استحکام آنا شروع ہوا مگر کپیسٹی پیمنٹس کا جن قابو میں آنے کی بجائے مزید بڑا ہوتا گیا اور مالی سال 2023-24 میں ان 37 پاور پلانٹس کی کپیسٹی پیمنٹ میں 323 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور یہ رقم 979 ارب روپے سالانہ سے بھی تجاوز کر گئی۔ پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق روپے کے استحکام کے باوجود کپیسٹی پیمنٹس میں اضافے کی بڑی وجہ بجلی کی کھپت میں کمی ہے ۔

جہاں مہنگی بجلی کے باعث عام صارفین سولر پر منتقل ہو رہے وہیں بجلی کے بھاری نرخوں نے انڈسٹری کیلئے بجلی کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ بجلی کے کم استعمال کے باعث آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹس میں ہوشربا اضافہ ہوا کیونکہ معاہدوں کے تحت بجلی نہ خریدنے پر بھی ان کمپنیوں کو رقم ادا کرنی ہوتی ہے ۔ پاور ڈویژن کے حکام کے مطابق کپیسٹی پیمنٹس کے اس بحران سے نمٹنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو بجلی مزید مہنگی اور کھپت میں کمی ہو گی اور یہ سائیکل توانائی بحران بڑھاتا چلا جائے گا۔ صرف جولائی 2024 میں بجلی کی کھپت میں 3 فیصد کمی ہوئی جس پر نیپرا اور حکومت کو تشویش ہے ۔ دستاویزات کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ان 37 پاور پلانٹس کو 3 ہزار 453 ارب روپے ادائیگیاں کی گئیں جن میں ایک ہزار 635 ارب روپے صرف گزشتہ دو برسوں میں ادا کئے گئے ۔ ان پاور پلانٹس میں امپورٹڈ کوئلے سے چلنے والے 4، مقامی کوئلے پر چلنے والے 4 پاور پلانٹس شامل ہیں۔ آر ایل این جی پر چلنے والے 14 پاور پلانٹس ، ہائیڈل کے تین اور فرنس آئل پر چلنے والے 12 پاور پلانٹس شامل ہیں ۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں