حکومت ،اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی قائم:پارلیمنٹ گرفتاریوں پر سار جنٹ ایٹ آرمز سمیت5اہلکار معطل،سپیکر کا وزارت داخلہ کو تحقیقات کیلئے خط،گرفتار ایم این ایز کی اجلاس میں شرکت کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری

حکومت ،اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی قائم:پارلیمنٹ گرفتاریوں پر سار جنٹ  ایٹ آرمز سمیت5اہلکار معطل،سپیکر کا وزارت داخلہ کو تحقیقات کیلئے خط،گرفتار ایم این ایز کی اجلاس میں شرکت کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،دنیا نیوز ،مانیٹرنگ ڈیسک،خبر ایجنسیاں)سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے چارٹر آف پارلیمنٹ کی تجویز کے تحت پارلیمانی کارروائی میں اتفاق رائے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کی 18 رکنی خصوصی کمیٹی قائم کردی ۔

کمیٹی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا، کمیٹی پارلیمانی امور کے مسائل کے حل کیلئے تجاویز پیش کرے گی۔ سپیکر ایاز صادق نے اجلاس میں شرکت کیلئے تحریک انصاف کے گرفتار ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دئیے ۔ سپیکر نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے وزارت داخلہ کو خط لکھاہے جبکہ 4 رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی قائم کردی ۔ انہوں نے سکیورٹی میں ناکامی پر سارجنٹ ایٹ آرمز سمیت 5 اہلکار وں کو 4 ماہ کیلئے معطل کردیا،ایاز صادق نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میثاق پارلیمنٹ کی تجویز بھی دی ۔ تفصیل کے مطابق خصوصی کمیٹی قومی اسمبلی کی کارروائی کو موثر طریقے سے چلانے سے متعلق امور کو زیر غور لا کر سفارشات مرتب کرے گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی میں وفاقی وزرا اسحاق ڈار، خواجہ آصف، اعظم نذیر تارڑ،پیپلزپارٹی سے سید خورشید شاہ، سید نوید قمر، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی،سید امین الحق،مسلم لیگ ق سے چودھری سالک حسین، آئی پی پی سے عبدالعلیم خان،پی ایم ایل زیڈ کے اعجازالحق، بی اے پی کے خالد مگسی، نیشنل پارٹی کے پولین بلوچ ، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا، پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر علی خان ،جے یو آئی سے شاہدہ بیگم، بی این پی کے اختر مینگل، ایم ڈبلیو ایم کے حمید حسین اور پختونخوا میپ کے محمود اچکزئی شامل کئے گئے ہیں ۔

قبل ازیں سپیکرنے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میثاق پارلیمنٹ کی تجویز دی تھی جبکہ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے پارلیمنٹ کی کارروائی چلانے کے لیے 18 اراکین پر مشتمل کمیٹی بنانے کی قرار داد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔بدھ کو بیرسٹر گوہر کی سربراہی میں پی ٹی آئی وفد نے گرفتار ساتھیوں کے پروڈکشن آرڈرز جاری کروانے کے لیے سپیکر سے چیمبر میں ملاقات کی۔ پی ٹی آئی وفد میں داوڑ کنڈی اور علی محمد خان شامل تھے ۔بیرسٹر گوہر خان نے کہا آپ نے گزشتہ روز پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک گرفتار ممبران کو اسمبلی لانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوئے ، آپ نے کل زبانی کہا تھا ہم تحریری حکم نامے کے لئے آئے ہیں۔بعدازاں بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا سپیکر ایاز صادق نے تحریک انصاف کے گرفتار ایم این ایز کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دئیے ہیں، تمام ارکان آج ایوان میں آئیں گے ۔سپیکرایاز صادق نے پی ٹی آئی کے جن 10 گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے ان میں شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، احمد چٹھہ، زین قریشی، زبیرخان، وقاص اکرم، اویس حیدر، احد علی شاہ، نسیم علی شاہ اوریوسف خان شامل ہیں ۔

اسمبلی سیکرٹریٹ کے جاری پروڈکشن آرڈر میں حکم دیا گیا ہے پولیس گرفتار ارکان کو اجلاس شروع ہونے سے قبل سارجنٹ ایٹ آرمز کے حوالے کرے اور اجلاس ختم ہونے کے بعد ارکان کوپولیس کی تحویل میں واپس دے دیا جائے گا۔بتایا گیا ہے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد تمام ارکان آج قومی اسمبلی کی کارروائی میں شرکت کریں گے ۔پروڈکشن آرڈر موجودہ اجلاس کیلئے جاری کیے گئے ہیں۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر ، آئی جی اسلام آباد کو مراسلہ جاری کیا گیا ۔سپیکر ایاز صادق نے تحریک انصاف اراکین کی پارلیمنٹ ہائوس سے گرفتاری کے معاملے کی تحقیقات کے لئے وفاقی وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا۔سپیکر نے وزارت داخلہ سے تحقیقات کی رپورٹ 7روز میں طلب کرلی اور ہدایت کی ہے تحقیقات کے حوالے سے وزارت داخلہ سپیکر کو بھی آگاہ کرے ۔دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دئیے جانے کے حوالے سے مشاورت کا عمل جاری ہے ۔سپیکر نے پارلیمنٹ کی حدود میں پیش آ نے والے واقعے کی تحقیقات کیلئے 4 رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ۔ایڈیشنل سیکرٹری افتخار احمد کی سربراہی میں 4رکنی کمیٹی پارلیمنٹ کی حدود میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات کرے گی اور اپنی رپورٹ مرتب کرے گی۔فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی میں جوائنٹ سیکرٹری رضوان اللہ،ارشاد علی خان اور ڈپٹی سارجنٹ ایٹ آرمز راجہ فرحت عباس شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق کمیٹی 9 ستمبر کو پیش آنیوالے واقعے کے محرکات کا جائزہ لے گی۔ کمیٹی جائزہ لے گی پولیس اور سکیورٹی ادارے کس کی اجازت سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے ۔ پارلیمنٹ کی سکیورٹی نے انہیں اندر آنے کی اجازت کیوں دی؟ ۔

سپیکر ایاز صادق نے پارلیمنٹ میں سکیورٹی کی ناکامی پر سارجنٹ ایٹ آرمز قومی اسمبلی کو 4 ماہ کے لئے معطل کر دیا ہے ۔گزشتہ روز سپیکر نے پارلیمنٹ ہاؤس سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا گرفتاریوں پر ایکشن ہو گااب سپیکر نے پارلیمنٹ ہاؤس کی سکیورٹی کے معاملے پر 20 گریڈ کے سارجنٹ ایٹ آرمز قومی اسمبلی محمد اشفاق اشرف کو 4 ماہ کے لیے معطل کر دیا۔اس کے علاوہ سردار ایاز صادق نے سکیورٹی کی ناکامی پر چار اہلکاروں کو بھی 4 ماہ کے لیے معطل کر دیا جن میں سکیورٹی اسسٹنٹ وقاص احمد اور 3 جونیئر اسسٹنٹ سکیورٹی آفیسرز عبیداللہ، وحید صفدر اور محمد ہارون شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کے زیر صدارت شروع ہوا۔ اپوزیشن نے بات کرنے کی اجازت مانگی تاہم نہ ملی۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے اظہار خیال کا موقع نہ ملنے پر احتجاج کیا اور گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے نعرے لگائے ۔پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ اپوزیشن کے حق میں کھڑے ہوگئے اور کہا اگر پی ٹی آئی ارکان بولنے کی اجازت مانگ رہے ہیں تو انہیں بولنے دیں، پی ٹی آئی والے بھی ایوان کاحصہ ہیں انہیں بھی بولنے دیں۔ خورشید شاہ کی اس بات پر پی ٹی آئی نے ڈیسک بجائے ۔

سپیکر نے کہا جو واقعہ ہوا ہے اسکی تہہ تک جانے کی کوشش کروں گا، جو میں کرسکتا تھا میں نے کیا، میں نے سارجنٹ ایٹ آرمز سمیت متعلقہ سٹاف کو غفلت برتنے پر معطل کیا ان لوگوں نے غیر متعلقہ افراد کو کیوں نہیں روکا جوپارلیمنٹ میں آئے ۔ ایازصادق نے کہاہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا، ہماری لیڈرشپ چاہے آپس میں بیٹھے یا نہ بیٹھے مگرکیا پارلیمیٹرینز آپس میں بیٹھ کرمیثاق پارلیمنٹ پر اتفاق نہیں کر سکتے ، کیا ہم بہتری کی طرف نہیں جاسکتے ۔سپیکر نے کہا پی ٹی آئی نے اپنے دور میں ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے ، حکومت پر تنقید ضرور کریں لیکن ذاتیات پر مبنی نہ ہو، جوبھی مناسب ہوگا میں اپنی ذمہ داریاں ادا کروں گا اور اس واقعہ کی تہہ تک جاؤں گا۔ علی محمد خان نے کہا نقاب پوش لوگ کالی گاڑیوں میں آئے اور ہمارے اراکین کو اٹھا کے لے گئے اس معاملے پر پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بات کی ،یہ پارلیمان کی بے توقیری ہوئی اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں ۔ جواب میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کچھ ویڈیو ثبوت سامنے آئے ہیں کہ ارکان کو ایوان کے اندر سے نہیں اٹھایا گیا۔ اس کا مشاہدہ کرلیں جو سپیکر آفس میں موجود ہیں۔نکتہ اعتراض پر انہوں نے کہا اسد قیصر صاحب میرے لئے قابل احترام ہیں ان کے دور میں حکومتی بینچوں سے انہیں برا بھلا کہا جاتا کہ آپ اپوزیشن کی باتیں کیوں سن رہے ہیں لیکن آج پورا ایوان سپیکر کے پیچھے کھڑا ہے ۔انہوں نے کہا پی ٹی آئی والوں کی فاشسٹ سوچ ہے ، ان میں بات سننے کا حوصلہ نہیں۔ بات چیت سے ہی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔

وزیر اطلاعات کی بات پر پی ٹی آئی اراکین نے سخت احتجاج کیا۔وفاقی وزیر کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے آوازیں لگائیں اور شور شرابہ کرتے ہوئے گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا اس پورے واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہم بھاگنے والے نہیں، لیکن جبری گمشدگیاں نہ ہوں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا جب تک ہمارے ساتھیوں کو رہا نہیں کیا جاتا ہمارے 10ایم این ایز کے سوا کوئی ایوان میں نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا پرسوں جو ہوا امید ہے آئندہ ایسے نہیں ہوگا،10ستمبر پارلیمان کیلئے سیاہ دن ہے ۔ انہوں نے کہا ہمارا ارادہ 6 بجے جلسہ ختم کرنے کا تھا، دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں جلسہ ایک گھنٹہ لیٹ کرنے پر دہشت گردی کا پرچہ درج ہوگا؟ میں مذاکرات کا قائل ہوں لیکن اسے کمزوری نہ سمجھا جائے ، ایوان پر بڑا ڈاکا ڈالا گیا ہے ، ہماری بہن سیمابیہ کے خلاف پرچہ ہوا ہے ،آپ کے اراکین اور وفاقی وزیر کے خلاف خیبرپختونخوا میں پرچے کرائیں تو کیا ہوگا، ہم آپ کی خواتین کے خلاف پرچہ دے سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے ریاست کو نقصان ہوگا، میرے بارے میں کہا میرے پاس پستول تھامیں نے زندگی میں کسی کو دھکا دیا نہ کسی نے مجھے دھکا دیا ،ہمیشہ جمہوریت کی خاطر مذاکرات کی بات کی ۔

بیرسٹر گوہر نے کہا ہمارے 10 اراکین اسمبلی تھانوں میں گرفتار ہیں، پولیس کے شکرگزار ہیں اس نے ہمارے ساتھ بہترسلوک کیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا حکومت یہ سوچے گی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہے تو یہ ایک دن کی خوشی ہوگی،بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے لیکن جو انہوں نے کیا ہم بھی وہی کریں گے تو کل آپ اور میں بھی جیل میں ہوں گے ۔ اگر ہم آپس کی لڑائی میں لگے رہے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا۔ آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، سیاست اپنی جگہ تاہم ہمیں ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے ،حکومت کاکام آگ بجھانا ہے ، مزید آگ لگانا نہیں، اپوزیشن کا بھی یہ کام نہیں کہ ہر وقت گالی دے ۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا اگر حکومت کا کردار یہ ہے کہ عمران خان نے ہمیں جیل میں بند کیا تھا اب ہم نے پتھر کا جواب پتھر سے دینا ہے تو ایک دن کے لیے ہم خوش ہوں گے لیکن کل میں اور آپ اسی جیل میں ہوں گے ۔

انہوں نے کہا ہم نے سیاست کو گالی بنادیا ہے ،ہمارا بھی حکومت سے اختلاف رائے ہوتا ہے ، الیکشن مہنگائی کے نکتے پر لڑا، جہاں مناسب سمجھا تنقید کی لیکن وقت آگیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں،ہم نے دیکھنا ہے کہ حکومت کی کارکردگی اس بنیادی معاملے پر کیا ہے ، وزیر اعظم ان کی معاشی ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں ایوان کو بتانا چاہوں گا کہ 8مہینے پہلے مہنگائی کی شرح کیا تھی ابھی سال بھی پورا نہیں ہوا اور مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد پر پہنچ گئی ہے ۔بلاول بھٹو نے کہا جہاں ہم حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے آر ہے ہیں وہیں اس بات پر تعریف کرنی چاہیے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے اور مزید کمی کے لیے تجاویز دینی چاہئیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو نقصان پہنچے ۔انہوں نے کہا ایسی ہائی پاور کمیٹی بنائیں جس میں تمام جماعتوں بشمول وہ جماعت جو حکومت کو پسند نہیں شامل ہو، ان کاموقف سنیں، جو بہتر تجویز ہوئی، اسے ہم سب ماننے کیلئے تیار ہوں گے ۔ انہوں نے کہا میں سپیکر سے کہتا ہوں وہ اس ایوان کو متحرک کریں، پھر ہم اس ملک کو متحرک کر سکتے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا ایک قابل احترام، سینئر بلوچ سیاستدان نے ایوان سے استعفٰی دیا، مجھے بہت افسوس ہوا، ان کے استعفے کی خبر سے مایوس ہوا۔

انہوں نے کہا پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کہا اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے ، میں اپوزیشن سے کہوں گا اسمبلی نہ چھوڑیں، ذمے داری اپنائیں، جب پی ڈی ایم کی حکومت تھی میں کہتا رہا اسمبلی نہ چھوڑیں، ضد، جوش، جذبہ تھا، چھوڑ دی، کیا جو کرنا تھا، اب وہ خود بھگت رہے ہیں، نہ صرف وہ بلکہ ملک بھی بھگت رہا ہے ۔نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈارنے کہا سیاست ضرور کریں لیکن ریڈ لائن کراس نہ کریں، ریڈلائن کراس کرنا کسی کے حق میں بہتر نہیں، پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن )کے دو دور حکومت بڑے تلخ گزرے تھے ، نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے ، اس کے بعد 18 ویں ترمیم کا سلسلہ شروع ہوا،کمیٹی ضرور بننی چاہیے اور اس میں 18 ویں ترمیم کی طرح تمام پارٹیز کو شامل کیا جائے ۔ انہوں نے کہا جس کمیٹی کی بات ہورہی ہے وہ اس کمیٹی کی تائیدکرتے ہیں، سپیکر تمام جماعتوں کی کمیٹی بنائیں اوراس کیلئے جینوین ٹی او آرز دیں تاکہ ملکی مسائل کے حل کیلئے کسی راستے کاتعین ہوسکے ۔ حکومت اس ضمن میں مکمل معاونت فراہم کرے گی۔ ایم کیو ایم کے مصطفی کمال نے کہا بلاول بھٹو زرداری کی بات سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتامسئلہ پاپولر بیانیہ بنانے کا ہے ،جب تک اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا نہیں کہیں گے ووٹ بینک نہیں بنے گا۔یہاں پر جوڑنے کی بات ہورہی ہے تو یہ خبر نہیں بنے گی،ایوان کے باہر بھی ملک چلانے کیلئے بات ہونی چاہیے ،بات ہونی چاہئے کہ برا بھلا کہے بغیر بھی آگے بڑھ سکتے ہیں، پی ٹی آئی کا لیڈر قید ہے ان کی باتوں کا برا نہ مانیں۔اپوزیشن رہنما محمود خان اچکزئی نے کہا جلسے میں جو بھی غلط ہوا اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمان پر حملہ ہو جائے ، نقاب پوش افراد پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوں یہ ناقابل برداشت ہے ۔

انہوں نے کہا علی امین گنڈا پور8گھنٹے یہاں تھا اس کو گرفتار کرتے اس کو بہانہ بنا کر پارلیمنٹ پر حملہ قبول نہیں ہے میں وعدہ کرتا ہوں پارلیمنٹ کو طاقتور بنانے کیلئے آپ کے ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما عاطف خان نے کہا یہ کہتے ہیں یہ ڈر گئے ہیں اسی لیے ایوان میں نہیں آئے ۔ہمارے کچھ وزیر سمجھتے تھے کہ ہمیشہ کیلئے وزیر رہیں گے اب بھی ان کے کچھ وزیریہی سمجھتے ہیں ،امید ہے آپ انکوائری کرکے ملوث افراد کو سزا دیں گے ۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے نکتہ اعتراض پر کہا جو واقعہ ہوا کوئی اس کی تعریف نہیں کرتا اگر پولیس یہاں آئی تو یہ ہمارا مشترکہ نقصان ہے نقاب پوش لوگوں کا آنا ہم سب کا نقصان ہے ایک بندہ گالی دیتا ہے کوئی اس کی بھی تو مذمت کرے ۔خواجہ آصف نے کہا پی ٹی آئی کے جلسے میں کی گئی باتیں خود کشی کے مترادف ہیں،سیاسی اختلافات جمہوریت کاحسن ہے ، اسے ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے ،اگر پارلیمنٹ میں ریڈ لائن کراس ہوئی تو جلسے میں کئی لائنیں کراس ہوئیں۔ انہوں نے کہا جلسے میں یہ کیا کہا کہ پندرہ دن میں جیل سے عمران خان سے چھڑا لیں گے ؟ آپ کو عدالت جانا چاہیے ۔ وزیردفاع نے کہا بلاول کی باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا، ہائوس میں ہماری وابستگی پارٹی کے ساتھ ضرورہے مگرایوان کی ذمہ داریاں بھی ہم نے اداکرنی ہیں۔انہوں نے کہازرداری صاحب نے کسی سزاکے بغیرگیارہ سال جیل کا ٹی دوسری طرف مقدمات موجودہیں اس کیلئے آئین کو کمزورنہ کیا جائے اور ملکی حدودکوکراس نہ کیا جائے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں