ووٹوں کے سامنے فارم45کی کوئی اہمیت نہیں:چیف جسٹس:انتخابی ٹربیونل بدلنے کے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم:اسلام آباد ہائیکورٹ

ووٹوں کے سامنے فارم45کی کوئی اہمیت نہیں:چیف جسٹس:انتخابی ٹربیونل بدلنے کے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم:اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(نمائندہ دنیا)سپریم کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 14 میں پیپلز پارٹی کے غلام رسول کی دوبارہ گنتی اور ریٹرننگ افسروں پر جانبداری کے الزامات کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ن لیگ کے محمد خان لہڑی کی کامیابی برقراررکھی ہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈبے کھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، ووٹوں کے سامنے فارم 45 کی کوئی اہمیت نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس شاہدبلال پرمشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 7 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ گنتی کی درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت وکیل درخواست گزار شاہد رسول نے بتایا کہ انہوں نے 96 پولنگ سٹیشنز میں سے 7 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ گنتی کی درخواست دائر کی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ غلط رزلٹ تیار کیا گیا؟ وکیل نے کہا فارم 45 کے مطابق یہ رزلٹ نہیں تھا اور افسر جانبدار تھے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈبے کھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی،جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ کاپیوں پر کیس چلا رہے ہیں، آپ کے گواہان نے پریذائیڈنگ افسروں کا نام تک غلط بتایا، آپ کے گواہ تو خود کو پولنگ ایجنٹس بھی ثابت نہیں کرسکے ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات میں سب سے اہم شواہد ووٹ ہوتے ہیں، فارم 45 تو پریذائیڈنگ افسر بھرتا ہے یا تو دوبارہ گنتی پر اعتراض کریں کہ ڈبے کھلے ہوئے تھے ؟جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ سے آپ کے الزامات ثابت نہیں ہوتے ، کیس بہت سادہ ہے ۔وکیل شاہد رسول نے مؤقف اپنایا کہ جج صاحب نے بغیر شواہد مجھے فیصلے میں جھوٹا کہہ دیا، چیف جسٹس نے کہا جھوٹا سچا اللہ جانتا ہے ہم حقائق پر فیصلہ کرتے ہیں، یہ کوئی میاں بیوی کا مقدمہ نہیں جو سچا جھوٹا فیصلہ کریں گے ، اس کا فیصلہ ریکارڈ پر ہوتا ہے ، پریذائیڈنگ افسروں کی جانبداری ثابت کریں، بتائیں کیا وہ رشتہ دار تھے ؟ دوبارہ گنتی پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، پریذائیڈنگ افسر جانی دشمن بھی ہوتو فیصلہ ووٹ سے ہوتا ہے ، ووٹوں کے سامنے 45 فارم کی کوئی اہمیت نہیں۔وکیل نے موقف اپنایا کہ پریذائیڈنگ افسروں نے سارا فراڈ کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا یونہی الزام نہ لگائیں قانون یا کوئی فیکٹ بتائیں،بعد ازاں سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے امیدوار غلام رسول کی دوبارہ گنتی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے امیدوار محمد خان لہڑی کی کامیابی کو برقرار رکھا۔یاد رہے کہ بلوچستان اسمبلی کے حلقہ 14 میں 2024 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کے امیدوار 22 ہزار 639 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے ۔ 

اسلام آباد(اپنے نامہ نگار سے )اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کوالیکشن ٹربیونل اسلام آباد سے تبدیل کرکے جسٹس (ر) عبدالشکورپراچہ کوتعینات کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن ٹربیونل تبدیلی کے الیکشن کمیشن کے اختیار کے خلاف پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواستیں مسترد کردیں اور کہاالیکشن ایکٹ کی سیکشن 151 کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس ٹربیونل تبدیلی کا اختیار ہے ،چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دیدیااور معاملہ واپس الیکشن کمیشن کو بھیج دیااوردوبارہ فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی،پی ٹی آئی رہنماؤں شعیب شاہین ، عامر مغل اور علی بخاری نے ٹربیونل تبدیلی کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔بعد ازاں چیف جسٹس عامرفاروق نے 44 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ کردیا،تحریری فیصلہ میں عدالت نے الیکشن کمیشن کا 10 جون کا الیکشن ٹربیونل تبدیلی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواستیں منظور کرلیں،عدالت کاکہناہے کہ ٹربیونل ٹرانسفر کی پرائیویٹ رسپانڈنٹس کی درخواستیں زیر التوا تصور ہونگی،الیکشن کمیشن درخواستوں پر قانون کے مطابق عدالتی آبزرویشن کی روشنی میں فیصلہ کرے۔

الیکشن کمیشن نے ٹربیونل تبدیلی کی درخواست پر جلد بازی میں کارروائی کی،متعصب ہونے کے معاملے پر بیان حلفی لئے بغیر کارروائی آگے بڑھائی ، درخواست گزاروں کو مناسب موقع نہ دینا الیکشن کمیشن کی ناکامی اور آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہے ،کیس ٹرانسفر کا اختیار سپروائزری اور انتظامی نوعیت کا ہے ،یہ اختیار تمام فریقین کو سن کر استعمال کیا جاسکتا ہے ،مناسب ہوگا الیکشن کمیشن ٹرانسفر کے فیصلے کو دوبارہ دیکھے اور فیصلہ کرے ، کیونکہ ٹربیونل ٹرانسفر کیس میں فریقین کو سنا نہیں گیا اس لیے یہ فیصلہ قانون کی نظر میں برقرار نہیں رہ سکتا،طریقہ کار یہ ہونا چاہئے کہ ٹرانسفر درخواست پہلے متعلقہ جج کو دی جائے ،کسی کیس کو سننے سے معذرت کرنا اسی جج پر منحصر ہے ،عدالتی آبزرویشنز یا التوا نہ دینا تعصب کی وجہ نہیں ہو سکتی،کوئی درخواست مسترد ہونے کو بھی تعصب کی بنیاد نہیں ٹھہرایا جا سکتا،تحریری فیصلہ میں عدالت کایہ بھی کہناہے کہ تینوں ایم این ایز انجم عقیل خان ، ڈاکٹر طارق فضل چودھری اور راجہ خرم نواز کی درخواستیں زیر التوا تصور ہوں گی،الیکشن کمیشن عدالتی آبزرویشنز کو مدنظر رکھ کر تینوں درخواستوں پر دوبارہ فیصلہ کرے ،عدالت نے پی ٹی آئی کے تینوں امیدواروں کی ٹربیونل تبدیلی پر الیکشن کمیشن کے اختیار کے خلاف درخواستیں مستردکرتے ہوئے کہاکہ الیکشن ایکٹ کی سیکشن 151 کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس ٹربیونل تبدیلی کا اختیار ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں