آئینی ترامیم کی کوششیں تیز:خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں حکومتی مسودہ پیش،آج پھر اجلاس،اپنے موقف پر قائم ہیں،ہماری تجاویز مانی جائیں تو اتفاق ہوسکتا ہے: مولانا فضل الرحمٰن
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،اپنے رپورٹرسے ،نمائندہ دنیا ،مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کیلئے کوششیں تیز کردی ہیں اس حوالے سے مشاورت کے لئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومت نے مجوزہ ترامیم کا مسودہ پیش کردیا۔
اجلاس میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنا مسودہ پیش کیا جس میں پیپلز پارٹی نے وفاق اور صوبوں میں آئینی عدالتوں کے قیام اور ججز کے تقرر کے لیے آئینی کمیشن بنانے کی تجویزدی ہے ۔ وزیر قانون نے بار کونسلز کی تجاویز کمیٹی میں پیش کیں۔ 26ویں ترمیم کے حوالے سے کئی روز مشاورت اور اتحادیوں سے گفتگو کے بعد پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا تاہم خصوصی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار رہا ۔خصوصی کمیٹی کا اجلاس آج دوپہر 12 بجے دوبارہ طلب کرلیا گیا ۔ مولانا فضل الرحمن آئینی ترامیم کا اپنا مسودہ آج کمیٹی میں پیش کریں گے ۔ جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا اپنے مو قف پر قائم ہیں ، ہماری تجاویز مانی جائیں تو اتفاق ہوسکتا ہے ۔ بلاول بھٹو نے کہا میری ضد پر حکومت نے اتفاق رائے کے لئے ایک ماہ کا وقت دیا تھا اگر اب بھی اتفاق رائے نہ ہوا تو حکومت کے پاس نمبرز گیم پوری ہے ۔ وزیر قانون اعظم تار ڑ نے کہا مسودہ پیش ہونے سے ہیجان ختم ہوا ، بلاول نے اپنا اور مسلم لیگ ن نے اپنا ڈرافٹ اجلاس میں پیش کیا،امید ہے آج جے یو آئی اپنا مسودہ پیش کر دے گی ۔ تحریک انصاف نے کوئی رائے نہیں دی اور کہا ہم اس کا جائزہ لے کر واپس آتے ہیں۔ پچھلی بار بھی یہی ہوا تھا اور ہم ان سے بار بار کہتے ہیں آپ اپنی رائے دیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کہا اجلاس میں ڈرافٹ نہیں تجاویز زیر بحث آئیں۔ چیئرمین خورشید شاہ کی زیرصدارت اجلاس میں جے یو آئی (ف)کی شاہدہ اختر علی، پی پی کی شیری رحمٰن ، پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر، سینیٹر عرفان صدیقی، انوشہ رحمٰن، سینیٹر کامران مرتضیٰ، اعجاز الحق شریک ہوئے ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رانا محمود الحسن امریکا سے اسلام آباد پہنچے ۔ بعد ازاں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ،مولانا فضل الرحمن نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں کے اراکین بھی خصوصی کمیٹی میں شرکت کے لیے پہنچے جن میں بیرسٹر گوہر، صاحبزادہ حامد رضا،عامر ڈوگر، راجا ناصر عباس شامل تھے ۔ ذرائع کے مطابق ان کیمرا اجلاس میں چیئرمین پیپلز پارٹی نے آئینی ترمیم کا اپنا مسودہ پیش کیا۔جس میں 20 سے زائد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مسودے میں وفاق اور چاروں صوبوں میں آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز دی گئی ہے ۔ ججز کے تقرر کے لیے پیپلز پارٹی نے کانسٹیٹیوشنل کمیشن آف پاکستان (سی سی پی)کے قیام کی تجویز دی ہے ۔ کمیشن میں چیف جسٹس آئینی عدالت اور دو سینئر ترین جج شامل ہونگے ۔ چیف جسٹس آئینی عدالت کی تجویز پر سپریم کورٹ یا آئینی عدالت کا ریٹائرڈ جج بھی شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ ایڈووکیٹ شامل کرنے کی تجویز ہے ۔ قومی اسمبلی وسینیٹ کے دو دو ارکان کمیشن میں شامل ہونگے ۔ سی سی پی کا کوئی بھی ممبر کسی جج کی تقرری کے لئے نام تجویز کرسکتا ہے ۔ آرٹیکل 209میں ججوں کو ہٹانے کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیاہے ۔
چیف جسٹس دوسینئر ججز اور دو صوبائی ججز پر مشتمل کمیشن کو ججوں کو ہٹانے کا اختیار ہوگا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے اپنے اپنے مسودے ارا کین کے ساتھ شیئر کئے ہیں ۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاہے پی ٹی آئی نے مسودہ دیکھنے کیلئے ٹائم لیا ہے رائے نہیں دی۔ کمیٹی کے اجلاس میں کافی تجاویز سامنے آئی ہیں، ہیجان کی کیفیت جو پیدا کر رکھی تھی وہ کم از کم ختم ہو گئی ہے ۔انہوں نے کہا ہم نے اپنی اور بار باڈیز کی تجاویز سامنے رکھی ہیں، یہ وہی ڈرافٹ ہے جس میں آئینی عدالت کی قیام کی بات ہے ، جوڈیشل کمیشن کو کیسے ہونا چاہیے ججز کے احتساب کا نظام کیسا ہو۔مولانا فضل الرحمن نے اپنا مسودہ ابھی تک نہیں دیا ہم ان کے تحریری مسودے کے منتظر ہیں ۔ میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے لامحدود وقت نہیں ملے گا، اپوزیشن نے جلد اپنی تجاویز کو حتمی شکل نہ دی تو حکومت کو زیادہ دیر تک نہیں روک سکوں گا، حکومت کے پاس نمبرز پورے ہیں تاہم تمام جماعتوں سے مشاورت چاہتی ہے ۔ حکومت اپنا زور لگانے کے بجائے اتفاق رائے چاہتی ہے ۔ پوری کوشش ہو گی تمام جماعتوں سے مشاورت کر کے متفقہ مسودہ لا سکوں۔ انہوں نے کہا پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے مسودہ پیش کر دیا حکومت نے بھی وکلا تنظیموں کے ساتھ ہونے والی مشاورت اور تجاویز سے آگاہ کیا۔
بلاول نے کہا مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر متفقہ مسودہ تیار کرنے کا عزم دہرایا۔انہوں نے کہا مولانا کا باقاعدہ طور پر ڈرافٹ نہیں ملا۔بلاول نے ایک سوال کے جواب میں کہا حکومت نے مکمل وقت دیا اور ستمبر سے ہم اس پر کام کر رہے تھے اگر مکمل اتفاق رائے نہ ہوا تو حکومت کب تک انتظار کرے گی؟ میں کب تک صرف اپنا مسودہ لے کر پھرتا رہوں گا،اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر حکومت کو اختیار ہے وہ 25 اکتوبر سے بہت پہلے بھی آئینی ترمیم لاسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا ہم صرف مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنا چاہتے ،وزیر قانون پر بڑی تنقید ضرور ہوئی کہ آپ نے سب کیساتھ اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے تصدیق کی حکومت نے آئینی ترامیم کے حوالے سے اپنا ڈرافٹ پہلی بار ہمارے ساتھ شیئر کیا ہے ،حکومت کے ساتھ ہماری بات چیت شروع ہو گی، دیکھتے ہیں پھر بات کہاں تک پہنچتی ہے ۔ انہوں نے واضح کیا وہ حکومتی مسودہ اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کریں گے اور اس کے بعد اپنا موقف دیں گے تاہم ابھی آئینی مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی تاریخ کا حتمی تعین نہیں ہوا ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کب تک یہ معاملہ طے ہو جائے گا ہم ٹائم فریم نہیں دے سکتے ،ابھی اس معاملے پر مزید مشاورت ہوگی، کوشش ہے کہ اتفاق رائے ہو جائے ۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفد کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے مشاورت ہوئی۔اس موقع پر اسلم غوری ، مولانا جمال الدین ، نوید قمر، مرتضٰی وہاب اور جمیل سومرو بھی موجود تھے ۔
بلاول بھٹو کی قیادت میں پی پی وفد سے ملاقات کے بعد اسلم غوری اور کامران مرتضیٰ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا حکومت آئینی ترامیم کیلئے ہماری تجاویز قبول کرے تو اتفاق ہوسکتا ہے ،بلاول بھٹو سے بھی بات ہوئی اور اتفاق ہوا ہے کہ ہم ایک متفقہ مسودہ سامنے لائیں۔ ان کا کہنا تھا جمعیت علما اسلام اور پیپلزپارٹی متفقہ مسودے کی طرف آگے بڑھیں، ہم چاہتے ہیں کہ انیسویں ترمیم کو ختم کرکے 18ویں ترمیم کو اصل شکل میں بحال کیا جائے ۔ ان کا کہنا تھا حکومت نے آئینی ترمیم کے لیے مسودہ فراہم کیا ہے ، ہم اس پر غور کا آغاز کرنے جارہے ہیں،مسودے پر اتفاق اس وقت ہوسکتا ہے جب لچک کا مظاہرہ کیا جائے ، کوشش کررہے ہیں مسودے سے قابل اعتراض مواد کو مکمل صاف کیا جائے ۔سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا حکومت نے کالے بیگ میں جو مسودہ بھیجا تھا اسے ہم نے مسترد کردیا تھا عوام میں ہمارے موقف کو پذیرائی ملی اب ہم اور پیپلزپارٹی اتفاق کے بعد مسودہ پی ٹی آئی سے شیئر کریں گے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا ایک جج کی ریٹائرمنٹ یا توسیع کے معاملے پر عدلیہ کو تقسیم نہ کیا جائے ، جج کو جج رہنے دیں، آئینی عدالت یا بینچ کی صورت میں معاملہ طے ہوسکتا ہے ، بات صرف اصولوں کی ہے کہ آئینی اور سیاسی معاملات کو الگ عدالت سنے جبکہ دیگر عدالتیں عوام کو بروقت انصاف دیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا اٹھارہویں ترمیم کے لیے 9 مہینے لگائے تھے تو اس کے لیے 9 دن تو دئیے جائیں۔چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے آئینی ترامیم بارے ہمارے پاس کوئی ایسا ڈرافٹ نہیں آیا جسے ہم سمجھیں کہ یہ فائنل ہے ۔
میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا پیپلز پارٹی کی کچھ تجاویز تھیں وہ ہمارے پاس آئی ہیں، وزیر قانون کی طرف سے کچھ تجاویز ہمارے پاس پہنچی ہیں۔ کسی نے پورا ڈرافٹ نہیں دیا ۔انہوں نے کہا ابھی تک کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا، ہم نے نہ کوئی بات کی ہے اور نہ ہی زیادہ بات چیت ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا ہم نے یہی کہا ہم ڈسکس کیا کررہے ہیں، آپ نے رات کو فون کیا اور اتنی عجلت میں سیشن بلایا ہم آپ کے پاس آ گئے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کس چیز کو ڈسکس کرنا ہے کوئی خدوخال تو بتائیں کہ کن کن آرٹیکلز میں آپ نے کیا کیا ترامیم کرنی ہیں،اجلاس میں کوئی ڈرافٹ پیش نہیں کیا گیا، مولانا صاحب جس ڈرافٹ کا کہہ رہے ہیں وہ دراصل وہ تجاویز ہیں جو وکلا نے پہلے ڈرافٹ پر دی تھیں۔دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر نے تصدیق کی ہے حکومت نے مجوزہ آئینی ترمیم کا ڈرافٹ پی ٹی آئی کو دے دیا ہے ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عامر ڈوگر نے کہا حکومت اس معاملے پر ہفتہ کو عجلت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا چاہتی تھی تاہم کمیٹی میں اس معاملے کو ایس سی او سمٹ تک موخر کرنے کا فیصلہ ہوا جس کے بعد اب قومی اسمبلی کا اجلاس ایس سی او سمٹ کے بعد ہوگا۔عامر ڈوگر نے کہا حکومت نے جو ڈرافٹ دیا اس میں بھی بہت ابہام ہیں۔ حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے کمیٹی کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہی۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے خصوصی کمیٹی کی کچھ نشستیں مزید ہوں گی۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا حکومت اور پیپلز پارٹی کے ڈرافٹس پر اپنی سیاسی کمیٹی اور اکابرین کے ساتھ مشاورت کریں گے ۔انہوں نے بتایا پیپلز پارٹی کے ڈرافٹ میں بالکل وضاحت ہے جبکہ حکومت کے ڈرافٹ میں ابہام موجود ہے ۔ حکومتی ڈرافٹ میں وکلا سے لیا گیا ان پٹ اور کچھ ان کے اپنے نکات شامل ہیں۔