مخصوص نشستیں:جس ریکارڈ پر اکثریتی فیصلہ دیا وہ قانونی نہیں مانا جاسکتا :جسٹس امین

مخصوص نشستیں:جس ریکارڈ پر اکثریتی فیصلہ دیا وہ قانونی نہیں مانا جاسکتا :جسٹس امین

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت دوران آئینی بینچ کے ججز نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے صرف انتخابی نشان کا فیصلہ کیا تھاتحریک انصاف پارٹی برقرار تھی، پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا۔

کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہی ،اقلیتی فیصلے میں لکھا جس ریکارڈ پر اکثریتی فیصلہ دیا وہ قانونی نہیں مانا جاسکتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک امیدوار تین یا چار کاغذات نامزدگی فائل کردے ۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دئیے ۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ نظرثانی کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جزوی طور پر آپ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔جسٹس امین الدین خان نے کہا جسٹس جمال صاحب کے فیصلے کیخلاف آپ نے نظرثانی تو دائر ہی نہیں کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ فیصل صدیقی صاحب آپ نظر ثانی کو سپورٹ کررہے ہیں یا مخالفت ؟ سنی اتحاد کونسل کو تیرہ ججز نے کہا سیٹوں کی حقدار نہیں۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا میں جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے کو کسی حدتک سپورٹ کررہا ہوں، کبھی کبھار ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔

جسٹس مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کیا کہ مرکزی کیس میں آپ پی ٹی آئی کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کو سپورٹ کررہے تھے ، وکیل حامد خان نے کہا کہ جان بوجھ کر پی ٹی آئی کو فریق نہیں بنایا گیا۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بینچ میں شامل ججز کی اکثریت نے مرکزی کیس نہیں سنا، اس بینچ میں چھ نئے ججز شامل ہیں، الیکشن کمیشن، ن لیگ نے کیس میں اضافی گراؤنڈز بھی شامل کئے ہیں، مجھے صرف الیکشن کمیشن کی فارمولیشنز ملی ہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی معروضات ملنے پر اگلی سماعت پر انکا جواب دے دوں گا۔ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی سیٹوں کے تناسب سے ملتی ہیں، آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا، ایک آپشن تھا کہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں، دوسرا آپشن تھا کہ تناسب سے ہٹ کر دیگر جماعتوں کو دی جائیں، تیسرا آپشن تھا کہ مخصوص نشستیں خالی چھوڑ دی جائیں، 13 میں سے 11 ججز نے قرار دیا کہ مخصوص نشستوں کی حقدار پی ٹی آئی ہے ۔

جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ کس بنیاد پر انہیں ریلیف دیا گیا جو فریق نہیں تھے ؟ فیصل صدیقی نے کہا ایک اعتراض یہ ہے کہ جن سے نشستیں واپس لی گئیں وہ بھی فریق نہیں تھے ، سیاسی جماعتیں روز اوّل سے کیس میں فریق تھیں،ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین سے بالاتر ہے ۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں مانے ، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے نشان چھین لیا، یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے تنازع شروع ہوا۔جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ یہ حقائق ہمارے سامنے نہیں ہیں، جسٹس امین الدین خان نے کہا پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہے ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پی ٹی آئی خود کو پارٹی سمجھتی تھی تب ہی ٹکٹ جاری کیے تھے ۔فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے درخواست دائر کی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام نے درخواستیں دائر کیں، درخواستوں میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں ، جس روز انتخابی نشان الاٹ ہونے تھے اسی روز سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ دیا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ہاں جو رات تک کیس سنا گیا اور فیصلہ دیا گیا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ اسی روز تحریک انصاف نے ایک نشان پر الیکشن لڑنے کیلئے تحریک انصاف نظریاتی کے ٹکٹس جمع کرائے ، کچھ دیر بعد پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین نے میڈیا پر آکر ٹکٹس سے انکار کردیا،جس کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو نشان دینے سے انکار کردیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں ملنا چاہئیں، وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ جی میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں ۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے دو سماعتیں چاہئیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہم نے اپنے اقلیتی فیصلے میں لکھا کہ جس ریکارڈ پر اکثریتی فیصلہ دیا وہ قانون کے مطابق مانا ہی نہیں جاسکتا تھا، وہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک امیدوار تین یا چار کاغذات نامزدگی فائل کردے ۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کل جمعرات ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں