الیکشن نہ لڑنے ، سیٹ نہ جیتنے والی پارٹی مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں :سپریم کورٹ
اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل سے صدیقی کے دلائل مکمل نہ ہو سکے جبکہ خیبرپختونخوا حکومت اور سپیکر کے پی کے اسمبلی نے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی، جس پر عدالت نے نوٹس جاری کر دئیے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے کہ ریلیف سنی اتحاد کونسل کی جگہ پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا، انہوں نے وکیل فیصل صدیقی سے دریافت کیا کیا بطور وکیل سنی اتحاد آپ فیصلے سے متفق ہیں؟، جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا جی میں اس فیصلے سے متفق ہوں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی چھوڑی جا سکتی تھیں؟ ساتھ ہی کہا کہ آپ اس نکتے پر بھی ہماری معاونت کریں۔ فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ ان کا اور پی ٹی آئی کا مفاد ایک تھا، اس لئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنے پر کوئی اعتراض نہیں ، تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا جب آپ کا اور پی ٹی آئی کا آئین اور پارٹی کا ڈھانچہ مختلف ہے تو مفاد ایک کیسے ؟ ،جس پر جسٹس مندوخیل نے رائے دی کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا مفاد مخصوص نشستوں میں ایک ہی تھا،جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا جو ناانصافی سپریم کورٹ نے پہلے کی، اس کا مداوا مخصوص نشستوں کے فیصلے نے کیا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا جب ریٹرننگ افسر کو اختیار نہیں کہ کسی امیدوار کو آزاد قرار دے تو سپریم کورٹ کو کیسے ہے ؟۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اس کا جواب جسٹس امین الدین اور جسٹس مندوخیل کے ایک فیصلے میں موجود ہے ، جسٹس مندوخیل نے کہا آپ ہمارے پاس نہیں آئے ، پھر بھی فائدہ دیا، اگر آتے تو ہم کیا نہ کرتے ، اکثریتی فیصلے میں 41 ارکان کو کسی پارٹی کا امیدوار نہیں قرار دیا گیا، اس کا مطلب ہے الیکشن کمیشن نے 41 کی حد تک درست کیا اور 39 کی حد تک غلطی کی۔
تمام ججز نے فیصلہ دیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں، صرف ایک سوال تھا کہ کیا سنی اتحاد نشستوں کی حقدار ہے یا نہیں، جو پارٹی الیکشن میں حصہ نہ لے ، کوئی سیٹ نہ جیتے وہ مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، البتہ کسی رکن کو کسی پارٹی کو جوائن کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ دوران سماعت خیبرپختونخوا حکومت اور سپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے موقف اپنایا کہ ہم پشاور ہائیکورٹ میں مرکزی کیس اور پھر سپریم کورٹ میں فریق تھے ، ہمیں نظر ثانی کیس میں بھی فریق بنایا جائے ۔ اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا پشاور ہائیکورٹ میں یہ مرکزی کیس میں فریق نہیں تھے ، سپریم کورٹ میں فریق بنے ۔ عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت اور سپیکر کے پی اسمبلی کو فریق بنانے کر درخواست پر نوٹس جاری کر دئیے ۔ دوران سماعت فیصل صدیقی نے موقف اپنایا ہم نے بینچ پر اعتراضات عائد کیے تھے جن کو مسترد کیا گیا، اعتراضات مسترد کرنے کی تفصیلی وجوہات نہیں دی گئیں۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے شاید اعتراضات پر تفصیلی وجوہات جاری ہو چکی ہوں۔ فیصل صدیقی نے کہا تفصیلی وجوہات جاری ہونے پر نظر ثانی درخواست دائر کریں گے ۔ بعدازاں سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔