نوجوان میں گٹکے کا بڑھتا ہوارجحان

نوجوان میں گٹکے کا بڑھتا ہوارجحان

اسپیشل فیچر

تحریر : وجاہت رضوی


انسان دورِ نوجوانی میں اپنی صحت سے لاپروائی کرتاہے جب کہ اسی دور میں اس پر ماحول اور اس سے زیادہ دوستوں کی صحبت اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان جوانی کے دَور میں اچھی بری عادتوں میں جلد مبتلا ہوجاتا ہے۔بری صحبت کی وجہ سے اس کی طبیعت تمباکو نوشی یا دوسرے نشوں کی طرف مائل ہونے لگتی ہے ۔کراچی کے نوجوانوںمیں گٹکے کی وبا عام ہے۔ گٹکے کی تیاری کا طریقہ انتہائی غلیظ اورمہلک ہے ۔ اس کی تیاری میں تیسرے درجے کا چونا، کتھا،تمباکو کا کچرا،بیٹری کا پانی،جانوروں کا خون، پسا ہوا شیشہ،ربڑ کے باریک ٹکڑے ، تھِنر اور پھپھوند لگی چھالیہ استعمال کی جاتی ہے ۔ ان سب چیزوں کا نام سن کر ہی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے۔ اس جان لیوا گٹکا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی میں خوب ترقی کررہا ہے۔ اسے اب کئی طریقوں سے بنایا جاتا ہے جب کہ اس کے مختلف نام بھی رکھ لیے گئے ہیں مثلاً مین پوری، ماوا وغیرہ۔ افسو س ناک بات یہ ہے کہ ان کے رپیر پرتحریر ہوتا ہے’’ حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق۔‘‘ اگر نوجوان اس کے مضر اثرات کا جائزہ لینا چاہیں تو رات ان میں سے کسی بھی شے کو تھوڑے سے پانی میں ڈال کر اس میں ایک بلیڈ رکھ دیں ۔ صبح آپ کو حیرانی ہوگی کہ بلیڈ گل چکا ہے مگر ہمارا نوجوان اس کے باجوود یہ زہر اپنی رگوں میں انڈیل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے یہاں منہ کے کینسر سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوان طبقہ اس تیزی سے اس لت کی طرف کیوں راغب ہے ۔ کیا نوجوان اسے صرف مزے کے لیے استعمال کررہے ہیں یا معاشرے کی ناہمواریوں نے انہیں اس جانب راغب کیا ہے؟ اس حوالے سے چندنوجوانوں سے بات کی گئی آپ بھی ان کا نقطۂ نظر ملاحظہ کیجیے۔احسن علی( طالب علم جامعہ کراچی): آج کل جو حالات چل رہے ہیں انسان اس میں اتنا پریشان ہے ۔جس چیز سے اسے سکون ملے اسی کے نزدیک ہوجاتا ہے۔نوجوانوں کو گٹکا کھانے کی عادت کی وجہ سے ان کی صحت تو خراب ہوتی ہی ہے مگر ان کا چہرہ بھی بہت برالگتا ہے۔ سرکاری جامعات میں یہ خطرناک چیز پابندی کے باوجود دستیاب ہے دیکھا گیا ہے کہ غریب طبقہ نشے کی اس عادت میں زیادہ مبتلا ہورہا ہے۔سلمان اعظمی(طالب علم) :ہمارے یہاں ہر نوجوان کسی نہ کسی بری عادت میں مبتلا ہے جس سے وہ آسانی سے جان نہیں چھڑا سکتا کسی چیز یا عمل کو عادت بنانا انسان کے اختیا رمیں ہوتا ہے لیکن اسے ترک کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا ۔ میری کلاس میں کافی لڑکے گٹکا کھاتے ہیں، جو اپنی ذمے داریوں سے بھاگتے ہیں۔ وہ جواز دیتے ہیں کہ ہم تو اتنے سال سے کھارہے ہیں اب تک تو کچھ نہیں ہوا ، اس کے بغیر دماغ نہیں چلتا ۔ گٹکا کھانے والے عموماً ضدی ہوتے ہیں ۔ یہ خطرناک شے بیماریوں میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ جلد ازجلداس برائی کا خاتمہ کرے۔عارف (آرکیٹکچر): ہمارے معاشرے کی اچھائیاں مخفی او ر برائیاں واضح رہتی ہیں۔ جن میں سے ایک برائی گٹکا اور مین پوری وغیرہ ہے۔ کچی آبادیوں سمیت پوش علاقو ں میں بھی گٹکا دستیاب ہے۔ شاباش ہے ان نوجوانوںکو جو گٹکا کھاتے ہیں اور خود اپنا نقصان کرتے ہیں۔ حالاں کہ اخباروں میں اتنے مضامین اور ٹی وی پر اتنے پروگرام نشر ہوچکے ہیں مگر شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں اس گٹکے کی وجہ سے جنازہ نہ اٹھا ہو۔ پوش علاقوں میں کمپنی کا بنایا ہوا اور کچی آبادیوں میں گھروں میں تیار کردہ گٹکا با آسانی فروخت ہوتا ہے۔ دکانوں پر گٹکے کی تھیلیاں لٹکا کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ وہ نوجوان کم زور اور بزدل ہیں جو گھریلو پریشانیوں سے فرار کے لیے یہ زہر اپنے جسموں میںاتار کر اپنی صلاحیتیں کھورہے ہیں ۔ گٹکا کھا کر پاکستان کی ترقی کی باتیں کرنے والے بھی قابل مذمت ہیں۔فیاض رضا( نجی کمپنی ملازم): سکون کی تلاش تو ہر انسان کو رہتی ہے اور اس کے حصول کے لیے مختلف طریقے ڈھونڈتے ہیں جن سے وقتی طور پر سکون حاصل ہوتا ہے جب کہ بعض لوگ اسی سکون کے لیے نشہ کرتے ہیںاب مہنگائی کے باعث آج کا نوجوان سستے نشے کی طرف راغب ہے گٹکا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ نوجوان گٹکا مین پوری وغیرہ کھا کر خود کو تازہ دم تصور کرنے کی خوش فہمی میں مبتلارہتے ہیں اور اپنی صحت کی طرف سے بالکل لاپروا ہوجاتے ہیں۔عمران متقی(بینک ملازم): نوجوانوںمیں گٹکے کی عادت خطرناک حد تک معاشرے کو برباد کررہی ہے اور گٹکا کھانے والے جوان و بزرگ اپنا وقار کھودیتے ہیں ا س عادت سے ان کی صحت اور شخصیت دونوںمتاثر ہوتی ہیں۔لوگ ایسے لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتے کیوں کہ ان کے منہ سے بوآتی ہے جو لوگ گٹکا کھا کر کائونٹر پر آتے ہیں میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کا کام جلدی ختم کروں تاکہ وہ جلدی روانہ ہوجائیں ۔میر ا سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ایسی جگہوں پر چھاپے کیوں نہیں مارتے اور گٹکا بنانے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے ؟ ایسے دکان دار جو موت بیچنے کے گناہ گار ہیں انہیں سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ جمال حیدر( ملازم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی) : معا شرے میں ویسے ہی کم خرابیاںنہ تھیں جو یہ گٹکا نامی برائی بھی پیدا ہوگئی ۔ ایسے نوجوانوںپر دکھ ہوتاہے جواسے عادت بنا لیتے ہیںجس کی وجہ سے ہر جگہ شرمندگی بھی اٹھاتے ہیں۔کہیں انٹرویو دینے جائیں تو ان میںخود اعتمادی فقدان نظر آتا ہے ۔دراصل اس سے دانت اتنے گندے ہوجاتے ہیں کہ سامنے والا کراہیت محسوس کرتاہے۔میرا تعلق میڈیکل سے ہے مجھے اسی حوالے سے بہت سے مریض نظر آتے ہیں جن کو سرطان ،دانتوں کا سڑنا،آنتوں کا سکڑنا جیسی بیماریاں ہوتی ہیں جن کی سب سے بڑی وجہ گٹکا،مین پوری کا استعمال ہے۔قانون نافذ کرنے والے خو د اس کااستعما ل کر تے ہیںتو وہ روک تھام کیاکریںگے۔ کاشف عباس (ملازم نجی کمپنی): آج کے نوجوان میں تعمیری سو چ کا فقدان ہے ۔ہر طرف برائیا ں ہیںجس میںہمارا نوجوان پھنستا چلا جا رہا ہے۔ملازمت نہ ملنا،کم تن خواہ اورضروریاتِ زندگی پوری نہ ہونے سے زیادہ تر انسان برائی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔اس لیے یہ برائی بھی معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہے۔ پہلے لوگوں سے چھپ کے کھاتے ہیں پھر تو اپنے والدین کے سامنے بھی اس کے استعمال سے گریز نہیں کرتے جب کہ جگہ جگہ پیک تھوک کر گندگی الگ پھیلاتے ہیںاور مختلف بیماریوں میں خود بھی گرفتار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی مبتلا کرتے ہیں۔ گٹکا کھانے والے جوان ذہنی طور پر کم زور پڑجاتے ہیں ،ان میںقوتِ فیصلہ اورخود اعتمادی بھی ختم ہو جا تی ہے ، یہ عموماً محفلوں میںجانے سے بھی گھبراتے ہیں۔ ہمیں خود بھی اس بیماری کو خاتمے کے لیے کاوشیں کرنی ہوںگی۔ورنہ آہستہ آہستہ یہ برائی ہماری آنے والی نسلوں میں سرائیت کر جائے گی۔مہروزاحسن(حکیم) : گٹکا ،پان،مین پوری ،ماوا،وغیرہ۔ایسے امراض ہیں جن سے نجات ٖنہایت مشکل ہے ۔اس کی تشویش ناک علامات میںمنہ میں چھالے ،گال کی کھال پرابھرنے والے نشانات شامل ہیں۔منہ کا سرطان ،آنتوںکا خشک ہوجانا جیسی جان لیوا بیماریاں اسی وجہ سے ہیں۔جن کاعلاج بہت مشکل اور مہنگا بھی ہے۔اس سے قوتِ مدافعت ختم ہو کر رہ جاتی ہے، نزلے جیسی چھوٹی بیماری بھی ختم ہونے میں وقت لیتی ہے ،لیکن انسان جانتے بوجھتے اس نقصان کو اپنے گلے ڈال رہا ہے۔ بہت سے مریضوں سے وجہ پوچھوتو جوا ب آتا ہے کھا نا ہضم کرنے کے لیے کھاتے ہیں۔اس گٹکے میں پانی ملاکررکھ دیںتو صبح اس میں باریک باریک کیڑے بلبلاتے صاف نظر آئیں گے۔ برانڈوالے گٹکے میں بلیڈ ڈال دیں تو صبح اس کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔سرکاری اداروںکی سرپرستی میں زہر فروشی کا کام جار ی و ساری ہے اورکوئی روکنے والا نہیں۔جوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ گٹکا کھانے سے وقت نہیں گزر رہا بلکہ گٹکا نوجوانوں کو گزار رہا ہے۔ محمد علی(نان لینئر ایڈیٹر ): گٹکاایک لعنت ہے ۔آج کل نوجوان اس کو ختم کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں ،اسی لیے طر ہرف کھاتے نظر آتے ہیں۔ہمارے یہاںزیادہ تر ڈرائیور، کنڈیکٹر جگہ جگہ تھوک کے لوگوں کو بھی اس کے زیرِاثر لا رہے ویسے مجھے یاد آرہا ہے کہ اس کے بیچنے اور خریدنے پرپابندی لگی تھی مگر وہ پابندی نظر نہیں آتی۔چھے مہینہ پہلے میں گٹکا کھاتا تھا کیوں کہ تدوین نگاری کے دوران کمپیوٹر کا استعمال رہتا ہے تو منہ چلانے کے لیے گٹکا کھا لیتا تھا ۔وقتی طور پر تو خوب کام ہوتا تھا پھر نیند بھی خو ب آتی تھی اور اگر نہیں کھاتا تو جسم بھاری بھاری لگتا تھا ۔ڈاکٹر کے مشورے کے بعد اس سے نجات ملی۔گٹکا منہ کا اس قدر برا حال کرتا ہے، دانتوںمیں درد ،زبان پر چھا لے او ریہ نہیںکہ صرف غریب آدمی ہی گٹکا کھا رہا ہے۔بلکہ اچھے خاندان کے خوش شکل افراد بھی اس لت میں گرفتار ہیں ۔مجتبیٰ شاہ(پرائیویٹ کالج کے طالبِ علم ): یہ آج کل کا فیشن بن گیا ہے،خاص کر نوجوانوں میںیہ فیشن عام ہے۔ دوستوں کی صحبت میں رہ کر سگریٹ جیسی بری عادت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔زیادہ تر افراد مسائل سے گھبرا کر گٹکا کھانے عادت ڈال لیتے ہیںاور اپنی ذمے داریوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔جس طرح سگریٹ پھیپھڑوں کے لیے مضر ہے اسی طرح چھالیہ، گٹکامنہ کے سرطان جیسی جان لیوا بیماری کی بنیادی وجہ ہے لیکن منع کرنے پرنوجوان باز نہیں آتے۔یہ انتہائی خطرناک عادت ہما را مستقبل تباہ کر رہی ہے۔ ہمیں اس برائی کا خا تمہ کرنے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ سارہ محمود(انٹیریر ڈزائینر): میں کمپیوٹر کے استعمال کرتے وقت پاپ کارن کھاتی رہتی ہوں جب کہ میرے ساتھ کام کرنے والے نوجوان لڑکے گٹکا اورچھا لیہ کا استعمال کرتے ہیں ۔ان میں سے زیادہ تر کو دانتوں کی تکالیف کی شکایت اورکم مرچوں کے کھانے میں بھی مرچیں تیز لگتی ہیں۔افسوس گٹکا پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا اورمخصوص کمیونٹی کی خواتین بھی اس کا ستعمال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ہر جگہ اس کی پیک نظر آتی ہے۔نوجوان اموات کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ نوجوان جانے کیوں کینسر جیسے جان لیوا مرض کو خرید رہے ہیں؟ اور خودکشی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کی خوبصورت مساجد

دنیا کی خوبصورت مساجد

الفاتح مسجد( بحرین)بحرین کے دارالحکومت منامہ میں واقع الفاتح مسجد کا شمار دنیا کی انتہائی خوبصورت اور چند بڑی مساجد میں ہوتا ہے، مسجد کی لمبائی 330 فٹ اور چوڑائی246فٹ ہے۔ اس طرح اس کا کل رقبہ81180مربع فٹ ہے۔ اس میں 7ہزارنمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ پورے بحرین میں یہ سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ منامہ کے جنوب مشرق میں شاہ فیصل ہائی وے کے پاس جفیر ٹائون میں یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کا مرکزی گنبد فائبر گلاس کا بنا ہوا ہے۔ اس کا وزن 60فٹن (60ہزارکلو گرام)ہے۔ گنبد کا قطر 79 ہزارفٹ ہے۔ اس وقت فائبر گلاس سے بنایا گیا یہ گنبد دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے۔ مسجد کے فرش میں لگا ہوا سنگ مر مر اٹلی سے منگو ایا گیا جبکہ ہال کے اندر گنبد کے نیچے لٹکا ہوا شاندار فانونس آسٹریا سے درآمد کیا گیا ہے۔ مسد کے دروازے ساگوان کی قیمتی لکڑی سے تیار کئے گئے ہیں جو بھارت سے منگوائی گئی تھی۔ مسجدکے مرکزی ہال میں قرآنی آیات خطِ کوفی میں لکھی ہوئی ہیں۔یہ مسجد بحرین کے سابق حکمران شیخ عیسیٰ بن سلمان الخلیفہ نے 1987ء میں تعمیر کروائی اور بحرین کے فاتح احمد الفاتح کے نام سے سا کو موسوم کیا۔ مسجد سے ملحق بہت بڑی نیشنل لائبریری بنائی گئی ہے۔ اس مسجد کے دومینار ہیں۔جامع الازہر، قاہرہ(مصر)یہ مسجد قاہرہ کے مرکزی چوک الحسین سکوائر میں واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر970ء میں شروع ہوئی اور دو سال بعد میں یہ مکمل ہوئی۔ اس طرح یہ مسجد 1055 سال پرانی ہے۔ خلفائے راشد کے دور میں 642ء میں جب مسلمانوں کے نامور جرنیل حضرت عمر و بن العاصؓ نے رومیوں کو شکست دی تو فسطاط( قدیم قاہرہ) میں ایک مسجد تعمیر کی تھی، جو جامع عمرو بن العاض ؓ کہلاتی ہے۔ جب970ء میں فاطمی سلطنت کا نیا دارالخلافہ قاہرہ آباد ہوا تو فاطمی سپہ سالار جو ہر الصقلی نے خلیفہ المعزلدین اللہ کے حکم کی تعمیل میں جامع الازہر کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد دنیا کی ایک اوّلین یونیورسٹی جامعہ الازہر کا مرکزی مقام تھی۔پہلے پہل اس مسجد کا نام جامع المنصور رکھا گیا جو تیسرے فاطمی خلیفہ اسماعیل المنصور (المعز کے والد) کے نام پر تھی۔ اس کا نام حضرت فاطمۃ الزہراؓکے نام سے منسوب کر کے جامع الازہر رکھ دیا گیا اور آج تک یہ مسجد اسی نام سے مشہور ہے۔جامع الازہر کا رقبہ 84000مربع فٹ ہے اور اس میں 20ہزار نمازی ایک ہی وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔مسجد کے پانچ مینار ہیں مسجد کا صحن 275فٹ طویل اور 112فٹ چوڑا سفید مر مر کے درجنوں ستون بنائے گئے ہیں۔ اس کے علماء ہمیشہ حکومت وقت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔

رمضان کے پکوان:دال قیمے کے سموسے

رمضان کے پکوان:دال قیمے کے سموسے

اجزاء:بھنا ہوا قیمہ ایک پیالی، مونگ کی دھلی دال آدھی پیالی، پیاز دو عدد درمیانی، سویا تین سے چار ڈنٹھل، ہری مرچیں تین سے چار عدد، سموسے کی پٹیاں حسب ضرورت، کوکنگ آئل حسب ضرورت۔ترکیب: دال کو دھو کر بیس سے پچیس منٹ کیلئے بھگو کر رکھ دیں۔ پھر اسے پانی سے نکال کر قیمے میں ڈالیں اور اچھی طرح بھون لیں۔ جب یہ مکسچر ٹھنڈا ہو جائے تو اس میں باریک کٹی ہوئی پیاز، نمک، باریک کٹی ہوئی ہری مرچیں اور سویا ڈال کر ملا لیں۔ سموسے کی پٹیوں سے تکونے سموسے بنا کر اس میں یہ مکسچر بھر دیں۔ آٹے کی لئی سے چپکا کر کوکنگ آئل میں سنہری فرائی کر لیں۔لیمن گراس اور لائم کولرکھانے کے بعد کی تازگی بخش ٹریٹ کیلئے، اس مشروب کا ایک گھونٹ ہی کسی کو بھانے کیلئے کافی ہے۔ ریسیپی میں شامل ہے چینی، پانی، لیمن گراس اور کنور پروفیشنل لائم سیزننگ، جنہیں ابالنے کے بعد برف کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ کھٹے لائم اور خوشبودار لیمن گراس کا امتزاج ایک کامیاب کومبی نیشن ہے۔ اس کو مستند بنانے کیلئے لیمن گراس کی ڈنڈی کے اندرونی رِنگز کو باہر کی جانب نکال کے اسٹرا کی طرح استعمال کریں۔ 

حکایت سعدیؒ :سلوک

حکایت سعدیؒ :سلوک

بیان کیا جاتا ہے کہ ملکِ شام کے رہنے والے ایک بزرگ، جن کا لقب خدا دوست تھا، آبادی سے نکل کر ایک غار میں آباد ہوگئے تھے۔ اللہ کی یاد کے سوا اب انہیں کسی بات سے غرض نہ تھی اور ان کی یہی بے غرضی ان کی مقبولیت کا سبب بن گئی تھی۔ لوگ دور دور سے ان کی زیارت کے لیے آتے تھے اور دعاؤں کے تحفے لے کر لوٹ جاتے تھے۔ اس علاقے کا جاگیردار ایک بہت ہی سنگ دل اور ظالم شخص تھا۔ کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ غریبوں کو ستانا اور رُلانا گویا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی بزرگ کی زیارت کے لیے پہنچ گیا۔ بزرگ خدا دوست سب سے مروت اور مہربانی کا برتاؤ کرتے تھے لیکن جب اس ظالم جاگیردار کو اپنے قریب پایا تو نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اس ظالم نے بھی یہ بات محسوس کی کہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ وہ قریب بیٹھ گیا اور شکایت بھری آواز میں کہا، کیا بات ہے حضرت نے میری طرف التفات نہیں فرمایا؟ کم از کم میں اس سلوک کا تو مستحق تھا جو جناب دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ بزرگ نے فرمایا، اے شخص! تو حسنِ سلوک کا مستحق کس طرح ٹھہر سکتا ہے؟ تُو خدا کی مخلوق کو ستانے اور پریشان کرنے والا ہے اورہمیں مخلوقِ خدا کی پریشانی سے پریشانی ہے۔ تو ہمارے دوستوں کا دشمن ہے۔ پھر ہمارا دوست کیسے بن سکتا ہے؟ترے ظلم سے دل گرفتہ ہیں لوگبرستا ہے ہر اک کے چہرے سے سوگجنہیں ظلم نے کر دیا سوگوارہمیں ہے انہی بے نواؤں سے پیاررلاتا ہے مخلوق کو اے شقیسمجھ لے یہ خالق سے ہے دشمنیحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ مخلوقِ خدا کا دشمن دراصل خدا کا دشمن ہے۔ اس لیے خدا کے دوستوں کا فرض ہے کہ مخلوق کے دشمنوں سے بیر رکھیں۔ انسان کو انسان کے کام آنا چاہیے، اسے حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی ظلم کرے تو اس سے نفرت کا اظہار کر کے اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس میں اختیار اور عہدے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ٹوکیو پر تباہ کن فائر بمبنگ10 مارچ 1945ء کی رات کو، ریاستہائے متحدہ کی آرمی ایئر فورس نے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو پر ایک تباہ کن حملہ کیا۔ اسے جاپان میں عظیم ٹوکیو فضائی حملے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بھاری بمباری سے مشرقی ٹوکیو کا بیشتر حصہ جل گیا۔ اس کے نتیجے میں آگ لگنے سے ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔10 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے تھے۔یورینس کے حلقے دریافت ماہرین فلکیات نے یورینس کے حلقے دریافت کئے۔ یورینس کے حلقے زحل کے گرد زیادہ وسیع، مشتری اور نیپچون کے گرد درمیانی ہیں۔ یورینس کے حلقے 10 مارچ 1977ء کو جیمز ایل ایلیٹ، ایڈورڈ ڈبلیو ڈنہم اور جیسیکا منک نے دریافت کیے تھے۔ ولیم ہرشل نے 1789ء میں رنگز کے مشاہدے کی اطلاع دی تھی۔ جدید ماہرین فلکیات اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا وہ انہیں دیکھ سکتا تھا۔روسی فوج کا باکو سے انخلاء1735ء میں آج کے روز ایران کے سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ نادر شاہ اور روس کے پاؤل اوّل کے درمیان آذر بائیجان کے شہر گنجا کے مقام پر ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ جس کے تحت روسی فوجوں کا باکو سے انخلاء ہوا۔ اس متنازع علاقے پر قبضے کیلئے روس کو آذر بائیجان کی افواج کی طرف سے مزاحمت کا سامنا تھا اور دونوں افواج کئی ماہ سے حالت جنگ میں تھیں۔  

انوئک:جہاں رات کے آخری پہر روزہ افطار کیا جاتا ہے

انوئک:جہاں رات کے آخری پہر روزہ افطار کیا جاتا ہے

ہمارا یہ کرۂ ارض اس قدر وسیع، عریض اور عجیب و غریب ہے جس کے ہر کونے میں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ نیا ہو رہا ہوتا ہے۔ انوئک نامی ایسا ہی ایک قصبہ کینیڈاکے شمال مغرب میں آرکٹک کے برفیلے علاقے میں واقع ہے۔ آرکٹک کے اس علاقے کا شمار دنیا کے سرد ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں کا موسم گرما ٹھنڈا اور موسم سرما انتہائی سرد ہوتا ہے۔ موسم سرما کا اوسط درجۂ حرارت منفی 37ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ یہ بعض اوقات منفی 68 ڈگری تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ یہاں موسم گرما کے 50 سے 55 دن سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور یوں سارا دن روشنی رہتی ہے جبکہ موسم سرما کے 30 دن سورج طلوع ہی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سارا دن اندھیرا رہتا ہے۔ یہاں سردیوں کا دورانیہ انتہائی طویل جبکہ گرمیوں کا موسم بہت مختصر ہوتا ہے۔ انوئک کی آبادی لگ بھگ 3500 نفوس پر مشتمل ہے جس میں 120 کے لگ بھگ مسلم برادری کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں کے مسلمان اپنی اسلامی اقدار اور دین کے ضابطوں پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ اگرچہ یہاں سخت اور تکلیف دہ موسموں سے مسلم برادری کو متعدد مسائل کا سامنا سارا سال رہتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کی واحد خوبصورت مسجد ''مڈ نائٹ سن مسجد ‘‘ میں پانچ وقت با جماعت نماز اور ماہ صیام میں افطار کے وقت یہاں کے مسلم باسیوں کا اجتماع قابل دید ہوتا ہے۔ماہ صیام کے حوالے سے آج سے کچھ سال پہلے تک یہاں کی مسلم برادری کو خاص طور پر موسم گرما میں اپنی عبادات کو قائم رکھنے کیلئے بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جب موسم گرما میں 50سے 55 دنوں تک ہر وقت سورج چمکتا رہتا تھااور ایسی ہی مشکل ان کیلئے موسم سرما میں ہوتی تھی جب سارا دن مسلسل اندھیرا رہتا تھا۔ چنانچہ اس مسئلے کا حل نکالنے کیلئے یہاں کی مسلم برادری نے متفقہ طور پر اپنے نظام اوقات جن میں نمازیں اور روزے شامل ہیں ان کو سعودی عرب کے شہر مکہ سے منسلک کردیا ہے۔چنانچہ اب یہاں کی نمازوں کے اوقات اور روزوں کے شیڈول کو مکہ کے اوقات کار کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ ماہ صیام میں آدھی رات کے وقت سورج چمک رہا ہوتا ہے اور یہاں کی واحد مسجد میں اس قصبے کے سارے مسلمان اپنے اپنے گھروں سے لائے کھانوں سے مل کر روزہ افطار کر رہے ہوتے ہیں۔ جو یہاں کی مسلم برادری کے اتفاق، اتحاد اور بھائی چارے کی دلیل ہے۔ یہاں قائم خوبصورت '' مڈ نائٹ سن مسجد‘‘ کو 2010ء میں 4000 کلومیٹر کی دوری سے کینیڈا کے صوبے مینی ٹوبا کے شہر ونی پیگ میں تیار کر کے ایک بہت ٹرالے کے ذریعے یہاں لایا گیا تھا۔یہاں کے مسلمانوں کو اب کچھ عجیب نہیں لگتا کہ سال کے بیشتر دنوں میں وہ پانچوں وقت کی نمازیں چمکتے سورج کے سائے میں یا بعض اوقات مکمل اندھیرے میں ادا کرتے ہیں۔اسی طرح اب وہ اس بات کے بھی عادی ہو گئے ہیں جب سورج چمک رہا ہوتا ہے یا بعض اوقات نصف شب کے وقت مکمل اندھیرے میں وہ روزہ افطار کر رہے ہوتے ہیں۔یہاں زیادہ تر مسلمان کینیڈا کے وہ مہاجر مسلمان ہیں جو دنیا کے مختلف کونوں سے کینیڈا کی شہریت لے کر آباد ہوئے ہوتے ہیں اور پھر تلاش رزق انہیں انوئک لے آتی ہے۔ یہاں چونکہ آرکٹک کے آس پاس معدنیات تلاش کرنے والی کمپنیاں سارا سال اپنا کام جاری رکھے ہوتی ہیں اس لئے یہاں آئے مسلمان بھی کم و بیش اسی سلسلے کی کڑی ہوتے ہیں۔ انوئک کا تاریخی پس منظر انوئک 1953ء سے دریائے میکنزی کے کنارے اکلاوک نامی وادی میں آباد چلے آ رہے تھے جب رفتہ رفتہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ذریعے سیلاب یہاں کا معمول بنتے چلے گئے۔ جس کے سبب یہاں کے باسی یہاں سے ہجرت کر کے ایک محفوظ مقام پر منتقل ہوئے ، جسے نیو اکلاوک کانام دیا گیا۔ 1958ء میں اس قصبے کا نام بدل کر انوئک رکھ دیا گیا۔ رفتہ رفتہ آبادی میں اضافہ ہوا تو 1959ء میں یہاں پہلا سکول قائم کیا گیا جبکہ 1960ء میں یہاں ایک اسپتال، سرکاری دفاتر اور ملازمین کی رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔1967 ء تک انوئک ایک دیہات کے طور پر جانا جاتا تھا جبکہ 1969ء میں اسے ایک گاؤں کا درجہ دے دیا گیا۔ 1970ء میں آبادی کے اضافے کے ساتھ اسے باقاعدہ طور پر ایک قصبے کا درجہ دے کر یہاں کیلئے ایک مئیر اور کونسل کا انتخاب کیا گیا۔1979ء میں انوئک کو بذریعہ شاہراہ کینیڈا کی ڈمپسٹر ہائی وے سے ملا دیا گیا جہاں بذریعہ شاہراہ گرمیوں میں پہنچا جا سکتا ہے۔سردیوں میں دریائے میکزی پر بننے والے برفانی پل کے ذریعے اس قصبے تک پہنچا جا سکتا تھا۔یہاں کا سفر زیادہ تر پلوں اور کشیوں کا محتاج ہوتا ہے۔لیکن عام طور پر یہاں کی شاہراہ کو تین ماہ کیلئے اکتوبر سے دسمبر تک بند رکھا جاتا ہے تاکہ برف اچھی طرح جم جائے اور لوگ آسانی سے برفانی راستوں پر سفر کر سکیں۔اسی طرح جب موسم گرما میں برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو مئی اور جون میں ایک مرتبہ پھر اس سڑک کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران زمینی ذرائع سے یہ علاقہ ملک کے باقی حصوں سے کٹ جاتا ہے۔

آرٹیفشل انٹیلی جنس اور مستقبل میں ملازمت کے مواقع

آرٹیفشل انٹیلی جنس اور مستقبل میں ملازمت کے مواقع

آرٹیفشل انٹیلی جنس (AI) کو جدید ٹیکنالوجی کا سب سے انقلابی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف صنعتوں کو تبدیل کر رہی ہے بلکہ معاشروں کے سماجی اور معاشی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ایک اہم سوال جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا AI کے پھیلاؤ سے ملازمت کے مواقع کم ہوں گے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا؟ اس مضمون میں ہم AI کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیں گے، نوکریوں کے ضائع ہونے اور نئے مواقع کے درمیان توازن تلاش کریں گے، اور مستقبل کے لیے تجاویز پیش کریں گے۔ نوکریوں کا ضیاع: خطرات اور شواہد AI کی بنیاد پر مشین لرننگ، روبوٹکس، اور آٹومیشن نے پہلے ہی کئی شعبوں میں انسانی محنت کی جگہ لینی شروع کر دی ہے۔ مثال کے طور پر: مینوفیکچرنگ: روبوٹس تیزی سے اسمبلی لائنوں پر کام کر رہے ہیں۔ کسٹمر سروس: چیٹ بوٹس اور ورچوئل اسسٹنٹس انسانی نمائندوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن: خودکار گاڑیوں سے ڈرائیوروں کی مانگ کم ہونے کا خدشہ ہے۔ مک کنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں 40 سے 80 کروڑ افراد کو نوکریاں بدلنے یا نئی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ خاص طور پر وہ کام جو بار بار دہرائے جاتے ہیں (جیسے ڈیٹا انٹری، سادہ حساب کتاب)، AI کے ذریعے آسانی سے خودکار ہو سکتے ہیں۔ نئے مواقع AI کا دوسرا رخ ہر ٹیکنالوجی کی طرح AI کابھی دہرا کردار ہے۔ جہاں یہ کچھ پیشوں کو ختم کرے گی وہیں نئی صنعتیں اور ملازمت کے شعبے پیدا بھی کرے گی۔ مثال کے طور پر سافٹ ویئر انجینئرز، ڈیٹا سائنٹسٹس اور AI ماہرین کی مانگ بڑھے گی۔ مشینوں کی دیکھ بھال اور ٹربل شوٹنگ کے لیے نئے ٹیکنیشنز درکار ہوں گے۔ AI کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹرز مریضوں کی بہتر تشخیص کر سکیں گے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2025ء تک AI اور آٹومیشن سے نو کروڑ70 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، خاص طور پر ٹیکنالوجی، صحت، اور توانائی کے شعبوں میں۔ نوکریوں کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مستقبل کی لیبر فورس کو نئی مہارتیں سیکھنی ہوں گی۔ ری سکلنگ اور اپ سکلنگ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پرہر شعبے میں کم از کم بنیادی AI اور ڈیٹا انالیٹکس کی سمجھ ضروری ہوگی۔ مشینوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسانوں کو تنقیدی سوچ، تخلیقی حل اور جذباتی ذہانت پر توجہ دینی ہوگی۔ حکومتوں اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں خصوصاً STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) پر توجہ بڑھائیں۔ AI کے معاشی اثرات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ معاشرے اس تبدیلی کو کتنی احتیاط سے بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر آمدنی اور مواقع میں عدم مساوات بڑھی تو سماجی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔ یونیورسل بیسک انکم (UBI) یعنی خودکار معیشتوں میں شہریوں کو بنیادی آمدنی کی ضمانت اس کاممکنہ حل ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں AI سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کر کے ری ٹریننگ پروگراموں کو فنڈ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر صنعتی انقلاب (سٹیم انجن، بجلی، کمپیوٹر) نے ابتدا میں بے روزگاری کا خوف پیدا کیا لیکن نئی صنعتوں نے زیادہ نوکریاں دیں۔ مثال کے طور پر 19ویں صدی میں کھیتی باڑی کی جگہ فیکٹریوں نے لی مگر لوگوں نے نئے ہنر سیکھے۔ اسی طرح AI بھی انسانوں کو زیادہ پیچیدہ اور تخلیقی کاموں پر مرکوز ہونے کا موقع دے سکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں لیبر فورس زیادہ اور مہارتیں کم ہیں AI کا اثر مختلف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کال سینٹرز اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آٹومیشن سے بے روزگاری بڑھ سکتی ہے۔ تاہم ان ممالک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور تعلیمی اصلاحات پر توجہ دی جائے تو وہ AI سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔جیسے زراعت میں AI کے استعمال سے پیداوارمیں اضافہ وغیرہ۔ AI کے استعمال میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ڈیٹا پرائیویسی اور ملازمت کے تحفظ کے قوانین بنائیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کمپنیاں اور حکومتیں مل کر ری ٹریننگ پروگرام چلائیں۔ آرٹیفشل انٹیلی جنس کو روکا نہیں جا سکتا لیکن اس کے اثرات کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اگرچہ کچھ نوکریاں ختم کرے گی لیکن نئے شعبے بھی جنم دے گی۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی لیبر فورس کو اس قابل بنائیں کہ وہ تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملا سکے۔ تعلیم، حکومتی پالیسیاں اور سماجی شعور ہی وہ ستون ہیں جو AI کے دور میں بے روزگاری کے طوفان سے بچا سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی انسانوں کا بنایا ہوا ایک آلہ ہے، اس کا استعمال ہمارے ہاتھ میں ہے۔